بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

ملکہ برطانیہ کو طبی مشورے کون دیتا ہے؟

ملکہ الزبتھ دوم: برطانیہ کی ملکہ کو طبی مشورے کون دیتا ہے؟

  • شان کوفلن
  • شاہی نامہ نگار

ملکہ

،تصویر کا ذریعہJacob King

ملکہ برطانیہ کو ڈاکٹروں نے مزید دو ہفتے آرام کا مشورہ دیا ہے اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ پورا ملک ملکہ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر رہا ہے۔

جمعے کے روز بکنگھم پیلس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا ہے کہ 95 برس کی ملکہ الزبتھ دوم دو ہفتوں کے لیے شاہی دورے نہیں کریں گی۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ وہ ہلکے پھلکے دفتری کام کریں گی تاہم 14 نومبر کو دونوں عالمی جنگوں اور دوسرے تنازعات میں برطانوی افواج اور سویلینز کی خدمات کی یاد میں منعقد کی جانے والی تقریب میں ان کا شرکت کرنے کا ’پختہ ارادہ‘ ہے۔

برطانوی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ’اہم بات‘ یہ ہے کہ ملکہ کو آرام کے لیے وقت مل رہا ہے۔

‘میں نے ہر ہفتے کی طرح رواں ہفتے بھی ملکہ معظمہ سے بات کی ہے اور ان کی طبیعت ٹھیک ہے۔ انھیں صرف ڈاکٹروں کے مشورے پر عمل کرنا ہے اور تھوڑا آرام کرنا ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ یہ بہت ضروری ہے۔ پورا ملک ان کے لیے نیک خواشہات کا اظہار کر رہا ہے۔‘

ملکہ الزبتھ دوم کو طبی اور آرام کرنے کا مشورہ کون دیتا ہے؟

سر ہیو تھامس ملکہ کے ڈاکٹر ہیں اور ساتھ ہی وہ سینٹ میری ہسپتال لندن میں کنسلٹنٹ اور امپیریل کالج لندن میں پروفیسر بھی ہیں۔

وہ اس میڈیکل ٹیم کے سربراہ بھی ہیں جن کی ذمہ داری شاہی گھرانے کی صحت کی دیکھ بھال کرنا ہے۔

سر ہیو نے اس سال کے شروع میں امپیریل کالج لندن میں دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’آپ اس ادارے کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس میں شامل اہم لوگوں کے ذاتی ڈاکٹر بھی جو کہ دوسرے مریضوں کی طرح ہی ہیں۔‘

ملکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

لیکن یہاں دوسرے لوگوں کے برعکس ان کی طرف سے کیا گیا ہر فیصلہ مثلاً ٹیسٹ کے لیے ہسپتال کا دورہ بھی تشہیر کی نذر ہو جاتا ہے۔ برطانیہ کی سب سے طویل المدت تخت نشین کے طور پر ان کی صحت سے منسلک ہر ایک پہلو کو گہری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

مگر یہ عہدہ جہاں انتہائی ذمہ دارانہ ہے، وہیں یہ کُل وقتی عہدہ نہیں ہے۔

63 سالہ سر ہیو کہتے ہیں کہ شاہی خاندان کے لیے اُن کے سیشنز متعین نہیں ہوتے اور یہ تب ہی ہوتے ہیں جب اُن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اُنھیں رواں سال ’سر‘ کا اعزازی خطاب بھی دیا گیا۔

شاہی کردار

اُنھوں نے امپیریل کالج کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ شاہی ڈاکٹر کا کردار ’میرے معمول کے کام سے بالکل مختلف ہے۔‘

جب کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران ہسپتالوں میں عملے کی کمی تھی تو وہ سینٹ میری میں وارڈز کی ڈیوٹی میں بھی مدد کرتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ شمال مغربی لندن میں سینٹ مارک ہسپتال کے فیملی کینسر کلینک کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

وہ عرصہ دراز سے کینسر پر ہونے والی تحقیق کا بھی حصہ رہے ہیں۔

بی بی سی کو علم نہیں ہے کہ اس ہفتے کنگ ایڈورڈ ہفتم ہسپتال میں وہ ملکہ کے معائنے کے دوران ان کے ساتھ تھے یا نہیں، لیکن وہاں پر ان کا نام ایک کنسلٹنٹ کی حیثیت سے درج ہے جو کہ امراضِ معدہ و آنت کے ماہر ہیں۔

ملکہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ملکہ نے رواں ہفتے کنگ ایڈورڈ ہفتم ہسپتال میں ایک رات گزاری

اس کے علاوہ وہ ایڈورڈ ہفتم ہسپتال سے کچھ ہی دور ایک نجی ہسپتال میریلیبون میں بھی کام کرتے ہیں۔ شاہی خاندان یہاں بھی علاج کرواتا ہے۔ اس ہسپتال کا قیام ابتدائی طور پر جنگِ بوئر کے زخمی فوجیوں کے علاج کے لیے عمل میں آیا تھا۔

اس طبی ٹیم میں اور بھی کئی ڈاکٹر اور طبی افسران شامل ہیں جو ملکہ کے بیرونِ ملک دوروں میں اُن کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی سپیشلسٹ بھی ہیں جن سے مشورہ لیا جا سکتا ہے۔

اُن کے ایک اور ڈاکٹر پیٹر فشر تین برس قبل لندن میں سائیکلنگ کے دوران ایک حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

رازداری برقرار رکھنے کی مشکل

یونیورسٹی آف لیسٹر میں ماڈرن ہسٹری کی پروفیسر الزبتھ ہیورن کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے لیے ڈاکٹر ہونا طب اور سفارت کاری کا امتزاج ہے۔

ٹیوڈر شاہی گھرانے سے لے کر اٹھارہویں صدی تک ڈاکٹروں کا کردار جتنا ’طبعی تھا اتنا ہی نفسیاتی بھی تھا‘۔ وہ ایسے لوگوں کو نپی تلی ہدایات دیتے جن کے بارے میں انھیں خدشہ ہوتا کہ وہ براہ راست ہدایات قبول نہیں کریں گے۔

ملکہ یا بادشاہ کو آرام کا مشورہ کیسے دیا جاتا ہے؟

پروفیسر الزبتھ ہیورن، جنھوں نے طب کی تاریخ پر تحقیق کی ہے، کہتی ہیں کہ شاہی حلقوں میں ڈاکٹر کو سب سے زیادہ بھروسہ مند شخص ہونا ہوتا تھا۔ ’یہ ایک بہت ہی نازک رشتہ ہوتا ہے۔ شاہی ارکان کو اپنی زندگی کے انتہائی نجی مسائل انھیں بتانے ہوتے تھے۔‘

لیکن اُن کے مطابق کچھ ایسے مسائل ہیں جو کہ آج بھی موجود ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’آپ عوام کو کتنی طبی معلومات دیں گے؟ آپ رازداری کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں؟‘

پچھلی صدیوں میں شاہی خاندان کے سربراہان اپنی بیماری دربار کی نظروں سے چھپاتے اور کمزور نظر نہیں آنا چاہتے تھے۔

پروفیسر الزبتھ ہیورن کہتی ہیں کہ ایسے میں دربار میں افواہیں اور چہ مگوئیوں ہوتی تھیں چنانچہ ڈاکٹروں سے یہ امید کی جاتی کہ وہ شاہی خاندان کے طبی مسائل کو پوشیدہ رکھیں گے۔

ان کے مطابق جو کردار پہلے درباروں کا تھا وہ ذمہ داری اب جدید میڈیا نے لے لی ہے اور پرانے وقتوں کی طرح آج کی شاہی شخصیات اور اُن کے ڈاکٹروں کو رازداری اور عوامی زندگی میں توازن برقرار رکھنے جیسی مشکلات کا سامنا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.