مصر میں مہنگائی: ’خدایا اب ہمیں مرغی کے پنجے کھانے پر مجبور نہ کرنا‘

مصر مہنگائی

  • مصنف, یولانڈے نیل
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

مصر کے شہر گیزا میں مرغی فروشوں کے پاس کھڑے ایک شخص نے ملتجیانہ انداز میں کہا ’خدایا اب ہمیں مرغی کے پنجے کھانے پر مجبور نہ کرنا۔‘

مصر کو اس وقت سنگین معاشی بحران کا سامنا ہے۔ معاشی صورتحال اتنی بدتر ہے کہ عوام کو اپنے خاندانوں کے لیے خوراک کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے۔

ریاست کی طرف سے غدائیت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تازہ ترین مشورے میں چکن کے پنجے پکانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ مرغی کا یہ پروٹین سے بھرپور حصہ عام طور پر کتوں اور بلیوں کو بطور خوراک ڈالا جاتا ہے۔

حکومت کے اس مشورے نے عوام میں شدید غم و غصہ کو جنم دیا ہے اور حکومت پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔

دنیا کے بہت سے ممالک بڑھتی ہوئی افراط زر سے لڑ رہے ہیں لیکن صرف مارچ میں 30 فیصد سے اوپر مہنگائی کے باعث مصر ان ممالک میں سے ایک ہے جو سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

بہت سے لوگوں کے لیے وہ اشیا جو پہلے بنیادی چیزیں تھیں جیسے کوکنگ آئل اور پنیر اب ان کی قوت خرید سے باہر ہو چکی ہیں ۔ کچھ مصنوعات کی قیمتیں گذشتہ چند ماہ کے دوران دوگنا یا تین گنا بڑھ گئی ہیں۔

تین بچوں کی ماں ویداید جوعمر کی ساٹھ کی دہائی میں ہیں کا کہنا ہے کہ ’میں مہینے میں ایک بار گوشت خریدتی ہوں یا بعض اوقات بالکل بھی نہیں خریدتی، میں ہفتے میں ایک بار چکن خریدتی ہوں۔ دکانوں سے گزرتے ایک انڈا اٹھاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’آج کل تو ایک انڈا بھی پانچ روپے کا ہے۔‘

مصر میں سنگین معاشی بحران کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی 100 ملین سے زیادہ آبادی کو کھانا کھلانے کے لیے ملکی زراعت کے بجائے درآمدی خوراک پر بہت زیادہ انحصار کررہا ہے۔

حتیٰ کہ ان کی مرغیوں کی خوراک کا ایک ایک دانہ بھی بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔

مرغی

گذشتہ ایک سال کے دوران مصری پاؤنڈ امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف قدر کھو چکا ہے۔ چنانچہ جنوری میں، جب حکومت نے دوبارہ کرنسی کی قدر میں کمی کی تو اس نے اناج جیسی درآمدات کی قیمت کو تیزی سے بڑھا دیا۔

ایک سال قبل ویداد اپنی 5000 ہزار ماہانہ پنشن پر آرام سے زندگی گزار رہی تھیں۔ وہ خود کو متوسط طبقے میں شمار کرتی تھیں مگر اب بہت سے دوسرے مصریوں کی طرح، وہ بھی اپنی زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔

آج وہ بہت مشکل سے تھوڑا سا مرغی کا گوشت لینے کے قابل ہیں۔

ویداد نے خریداری کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک دکاندار نے مجھے ایک کلو چکن فلے کی قیمت 160 روپے، دیگر نے 170، 190 حتیٰ کہ 200 روپے تک بتائی ہے۔ مرغی کے لیگ پیس 90 روپے کے ہیں۔‘

انھوں نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا کہ ’لیکن اب تو مرغی کی ہڈیاں بھی بک رہی ہیں اور اس کے پنجے بھی 20 روپے کے مل رہے ہیں۔‘

مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اکثرسنہ 2011 کی مصری بغاوت اور آبادی میں تیزی سے اضافے کو اپنے ملک کی موجودہ معاشی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ وہ یوکرین کی جنگ اور کووڈ کی وبا کو بھی اس کی وجوحات میں سے ایک جانتے ہیں۔

گذشتہ سال مارچ میں یوکرین پر روسی حملے نے معیشت کو شدید دھچکا پہنچایا ہے۔ مصر گندم کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک ہے، اور دونوں ممالک اس کے بنیادی سپلائر تھے۔ جب جنگ نے برآمدات کو متاثر کیا تو گندم اور اس کے نتیجے میں روٹی کی قیمتیں بڑھ گئیں۔

روسی اور یوکرینی سیاح بھی چھٹیاں منانے کے لیے بڑی تعداد میں مصر کا رخ کرتے تھے لیکن جنگ کے باعث اس کے سیاحتی شعبے کو بھی نقصان ہوا۔

سیاحت جو مجموعی طور پر مصر کی مجموعی پیداوار کا تقریباً پانچ فیصد تھی، پہلے ہی وبائی مرض سے بری طرح متاثر ہو چکی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

مصر مہنگائی

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے غلط اقدامات نے خراب صورتحال کو مزید بدتر بنا دیا ہے۔

دی تحریر انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ پالیسی نامی تھنک ٹینک کے سیاسی ماہر معاشیات ٹموتھی کالداس کے مطابق صدر سیسی کے دور حکومت کے دوران صدارت، فوج، سکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا ہے۔

کالداس کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی ملکیت والے اداروں کی توسیع کے ذریعے ہوا ہے، مثال کے طور پر فوج کو بنیادی ڈھانچے کے بڑے منصوبوں کے لیے ریاستی ٹھیکے دیے گئے۔

اس کے نتیجے میں نجی شعبے کی شمولیت بہت زیادہ سکڑ گئی ہے اور ایسی کمپنیاں جو حکومت سے وابستہ نہیں ہیں مارکیٹ میں مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔ بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار مصر کو چھوڑ گئے ہیں۔

مصر کی معاشی مشکلات نے اسے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر مجبور کیا ہے جس نے گذشتہ چھ برسوں میں چار مرتبہ مصر کی خراب معیشت کو سنبھالنے کے لیے قرض دیا ہے۔ ریاست کی آمدنی کا تقریباً نصف حصہ ان قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے، جو کہ جی ڈی پی کا 90 فیصد بنتا ہے۔

مصر مہنگائی

اگرچہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے خلیجی ممالک نے سرکاری اثاثے خریدے ہیں اور مصر کو سہارا دینے میں مدد فراہم کر رہے ہیں، لیکن مزید سرمایہ کاری کے لیے انھوں نے بھی اپنی شرائط سخت کر دی ہیں۔

تاہم مغرب اور خلیجی دونوں ممالک کو خدشہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے سب سے زیادہ آبادی والا ملک اگر ناکام ہو گیا تو خطے میں حالات کشیدہ ہوں گے۔

ماضی میں معاشی مشکلات نے فسادات کو جنم دیا تھا اور دونوں سابق صدور حسنی مبارک اور محمد مرسی کے زوال میں اہم کردار ادا کیا۔ اور اس بات کے آثار پہلے ہی موجود ہیں کہ معیشت پر بڑھتا ہوا عوامی اشتعال دوبارہ بدامنی کا باعث بنے گا۔

ایک مصری خاتون خانہ نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں صدر سیسی کو بتایا کہ ’میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتی کہ ہم خواتین کو اس یوم سیاہ پر کتنا افسوس ہے جب ہم آپ کو ووٹ دینے گئے تھے۔ تم نے ہماری زندگی کو جہنم بنا دیا ہے۔‘

وہ اپنے بٹوے سے چند سکے نکالتے ہوئے پوچھتی ہیں کہ ’میں ان چند سکوں سے اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالوں‘

جبکہ ادھر ویداد اپنے اپارٹمنٹ میں اپنے پوتے پوتیوں کے لیے ایک روایتی ڈش، فسولیہ کھدرا تیار کرنے کے لیے سبز پھلیاں اور ٹماٹر کاٹ رہی ہے۔

انھیں مسلمانوں کے لیے مقدس ماہ رمضان کا خیال آتا ہے۔ جس میں صبح سے شام تک کا روزہ رکھا جاتا ہے تاہم افطار میں لذیذ پکوان تیار کیے جاتے ہیں۔

اس بارے میں سوچ کر وہ کہتی ہیں کہ ’میں اس سال کیا کروں گی۔‘ وہ تصور کرتی ہے کہ جلد ہی مرغی کا گوشت بھی ان کے دسترخوان کی پہنچ سے دور ہو جائے گا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میں تو مشکل سے دالوں کا سوپ ہی بنا سکتی ہوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ