بی بی سی اردو کی پہچان راشد اشرف کی لندن میں وفات

راشد اشرف

،تصویر کا ذریعہFamily

  • مصنف, ثقلین امام
  • عہدہ, بی بی سی اردو، لندن

بی بی سی اردو سے طویل عرصے تک وابستہ رہنے والے دانشور، ادیب اور صحافی سید راشد اشرف لندن کے جنوب مشرقی علاقے بروملی میں وفات پا گئے ہیں۔ اُن کی عمر 91 سال تھی۔

راشد اشرف نے بی بی سی اُردو لندن میں ساٹھ کی دہائی میں شمولیت اختیار کی تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گاہے بگاہے جونیئر ساتھیوں کی رہنمائی کرتے تھے۔

ان کی خوش مزاجی، خوش اخلاقی اور ملنساری نے انھیں ہر دل عزیز بنا دیا تھا۔

اپنے سوگواروں میں راشد اشرف صاحب نے اپنی اہلیہ کشور، تین بیٹیوں، عینی، مُنزّہ اور بشریٰ، اور نواسیوں کے علاوہ سینکڑوں دوست اور احباب چھوڑے ہیں۔

بی بی سی اردو کے ساتھی ان کی اردو زبان پر قدرت اور تلفظ سے ہمیشہ مستفید ہوتے رہے۔ ریڈیو پر اُن کی پیش کاری انداز ایسے تھا جیسے کہ ایک مُشفق دوست اپنے سامعین سے گفتگو کر رہا ہو۔

براڈکاسٹنگ جرنلزم میں کئی دہائیوں کے تجربے کے باوجود راشد اشرف اپنے سکرپٹ کی قطعیت کے بارے میں کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ وہ ہر نشریات سے پہلے ریہرسل ضرور کرتے تھے اور اپنے جونیئرز کو بھی اسی کی تاکید کرتے تھے۔

سید راشد اشرف دلی میں جون 1932 میں پیدا ہوئے، ان کا پچپن غالب کے خطوط کی وجہ سے معروف ہونے والے دلی کے محلے بلی ماروں میں گزرا کیونکہ وہیں ان کا ننھیال رہتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد وہ لاہور آگئے تھے۔

پنجاب یونیورسٹی سے 1961 میں صحافت میں ایم اے کی ڈگری لینے کے بعد راشد اشرف نے کچھ عرصہ صحافت کی پھر وہ تعلقات عامہ کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ 1966 میں بی بی سی کی اردو سروس نے منتخب کیا تو وہ لندن چلے گئے۔

صحافت کی ڈگری سے پہلے انھوں نے لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی اے کی سند حاصل کی تھی اور پھر تین سال تک راولپنڈی میں جنرل ہیڈکوارٹر (جی ایچ کیو) میں پاکستان آرمی کے ترجمے کے شعبے میں کام کیا۔

1961 سے لے کر 1966 تک یوں تو راشد اشرف ویسٹ پاکستان پبلک رلیشنز کے محکمے اور پھر برطانوی ہائی کمیشن کی انفارمیشن سروس سے منسلک رہے لیکن ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان کے لیے بھی کام کرتے رہے۔ اور جب لاہور سے ٹیلی ویژن کی نشریات کا آغاز ہوا تو کچھ عرصے وہاں بھی خبریں پیش کرتے رہے۔

وہ پنجاب یونیورسٹی میں جُز وقتی لیکچرر بھی رہے۔

وہ لندن میں بی بی سی اردو سروس میں براڈکاسٹر کے طور پر کام کرنے کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے مراسلہ نگار بھی رہے۔ بی بی سی پر ایشیائی باشندوں کے لیے ہفتے میں ایک بار ٹیلی ویژن پر ایک گھنٹے کا پروگرام اردو/ہندی میں نشر ہوتا تھا، انھوں نے اس کے پیش کش کا فریضہ بھی انجام دیا۔

بیالیس برس بی بی سی اردو سروس سے وابستہ رہنے کے بعد انھوں نے 2009 میں مکمل طور پر اس پیشہ کو خیرباد کہہ دیا۔ تاہم ریٹارمنٹ کے بعد بھی وہ کتابوں کے ترجموں میں مصروف رہے جن میں ناول اور افسانے شامل تھے۔

وہ ایک لغت کی تدوین میں مشغول رہے۔ اردو کی اس لغت کو ’مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد‘ نے شائع کیا۔ پاکستان میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے جبکہ دلی میں بھی اس کا ایک ایڈیشن شائع ہوا۔

راشد اشرف نے صحافیوں کی رہنمائی کے لیے حالات حاضرہ کی انگریزی اور فرانسیسی اصطلاحوں اور محاوروں کا بھی اردو زبان میں ترجمہ کیا تاکہ عالمی امور پر بات کرنے والے اپنے قارئین اور سامعین کو ان کی زبان میں معلومات دیں۔

ان کے کچھ مختصر افسانے پاکستان کے ادبی جرائد میں شائع ہوئے۔ ان کا ’کانسٹینشیا کے نام سے ایک انگریزی ناولٹ کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک ناول ’بھوک کی سڑک‘ بھی لکھا۔

اپنی بیٹی جیسی دوست اور بی بی سی کی سابق ساتھی، دردانہ انصاری سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’مرنا زندگی سے بھی زیادہ دشوار ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ