پیساڈینا، کیلیفورنیا: انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنسدانوں نے سیارہ مشتری کے خوبصورت چاند جینی میڈ پر آبی بخارات کی دریافت کا اشارہ دیا ہے۔
پانی کے بخارات اس وقت وجود پاتے ہیں جب چاند کی سطح سے برفیلے ذرات ٹھوس سے گیس میں بدل جاتے ہیں۔ یہ تحقیق ہبل خلائی دوربین کی بدولت ممکن ہوئی ہے جس سے حاصل شدہ غیرمعمولی ڈیٹا اب بھی سائنسدانوں کے زیرِمطالعہ ہے۔ اس کی تفصیلات ہفت روزہ سائنسی جریدے نیچر فلکیات میں شائع ہوئی ہیں۔
جینی میڈ نہ صرف سیارہ مشتری بلکہ نظامِ شمسی کا بھی سب سے بڑا چاند ہے۔ اس سے قبل کہا گیا تھا کہ اس پر زمین کے تمام سمندروں سے زائد پانی موجود ہے۔ لیکن درجہ حرارت اتنا سرد ہے کہ وہ پانی منجمد ہوچکا ہے۔ لیکن جینی میڈ کا سمندر لگ بھگ 100 میل گہرائی میں موجود ہے جو قشرِ جینی میڈ کے نیچے پایا جاتا ہے۔
ماہرینِ فلکیات گزشتہ بیس برس سے ہبل کی تحقیق کو دیکھتے ہوئے جینی میڈ پر پانی کے بخارات کی تلاش میں ہیں۔ 1998 میں ہبل خلائی دوربین نے عکسی طیف نگاروں کی بدولت جینی میڈ کی اولین تصاویرلی تھیں۔ ان میں دو تصاویر بہت مقبول ہوئیں جن میں برق ذدہ گیس کی رنگین پٹیوں نما ساخت دیکھی جاسکتی ہے جبکہ ایک اور تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند کا کمزور مقناطیسی میدان بھی ہے۔
اگرچہ بعض تصاویر وہاں آکسیجن کے سالمے O2 کو ظاہر کرتی ہیں لیکن بعض تصاویر یک ایٹمی آکسیجن کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ پھر مزید تحقیق کی گئی تو 2018 میں ناسا کے جونو مشن کے مشاہدات اور ہبل کی تصاویر کا باہم موازنہ کیا گیا ۔ یہ کام کے ٹی ایچ رائل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سویڈن کے سائنسدانوں نے کیا۔ اس میں 1998 سے 2010 تک ہبل کا ڈیٹا بھی پڑھا گیا جس میں زیادہ تر تصاویر شامل تھیں۔
انکشاف ہوا کہ جینی میڈ کا درجہ حرارت بدلتا رہتا ہے اور دن کے اوقات میں خطِ استوا پر اتنی گرمی ضرور ہوتی ہے کہ منجمد برف کا کچھ حصہ پگھل کر بھاپ کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اس کی مزید تصدیق بھی ہوگئی۔ اس طرح سالماتی آکسیجن کی تصدیق ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ درجہ حرارت میں تبدیلی سے پانی کے بخارات بن رہے ہیں۔
2022 میں ایک جدید ترین خلائی جہاز اسی مقصد کے لیے روانہ کیا جائے گا۔ یورپی خلائی ایجنسی کا یہ جہاز ’جوس‘ کے نام سے مشہور ہے اور 2029 میں مشتری اور اس کے چاندوں تک پہنچے گا۔ توقع ہے کہ اس کے تفصیلی مشاہدے سے ہماری اولین نتائج کی تصدیق ہوسکے گی۔
Comments are closed.