’مجھے مدد کی ضرورت ہے‘: اس خاتون کا آخری پیغام جس کی لاش تین سال تک فلیٹ میں رہی
لارا ونہام
’یہ سوچ کر دل ٹوٹ جاتا ہے کہ اس نے اپنے آخری چند سال کیسے گزارے ہوں گے جب اپنے ارد گرد کسی بھی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے لیے مدد مانگنا بھی ناممکن ہو گیا ہو گا۔‘
برطانیہ کے شہر سرے میں ایک 38 سالہ خاتون کی لاش ہلاکت کے تین سال بعد ان کے فلیٹ سے دریافت ہوئی تو اس کی حالت ایک ممی یعنی حنوط شدہ لاش جیسی ہو چکی تھی۔
لارا ونہام نامی خاتون کے خاندان نے الزام عائد کیا ہے کہ برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس نے ان کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔
خیال ہے کہ لارا ونہام کی ہلاکت نومبر 2017 میں ہوئی تھی جبکہ ان کے بھائی نے مئی 2021 میں ان کو مردہ حالت میں پایا۔
شزوفرینیا کی مریض، لارا ونہام، اپنے خاندان سے لاتعلق ہو چکی تھیں اور سرے کے ووکنگ شہر میں سوشل ہاوسنگ میں رہائش پذیر تھیں۔
بی بی سی نے نیشنل ہیلتھ سروس سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔
ان کے خاندان نے دعوی کیا ہے کہ 2014 میں ان کے ڈاکٹر اور ورکنگ کمیونٹی مینٹل ہیلتھ ریکوری کو آگاہ کیا گیا تھا کہ لارا ونہام کی ذہنی صحت اچھی نہیں ہے تاہم ان کے مطابق لارا ونہام کو طبی مدد فراہم نہیں کی گئی۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اکتوبر2017 میں لارا ونہام کو آخری بار زندہ دیکھا گیا تھا۔ اس وقت سرے پولیس افسران نے سرے کاؤنٹی کونسل کا آگاہ کیا تھا کہ لارا ونہام لاپرواہی برت رہی ہیں۔
انھوں نے بتایا تھا کہ لارا ونہام کے پاس ’خوراک کی کمی ہے اور وہ مقامی سروسز کی مدد حاصل کرنے سے لاعلم نظر آتی ہیں۔‘
پولیس افسران کی اس ملاقات کے بعد لارا ونہام کے کلینڈر پر کوئی عبارت درج نہیں ہوئی۔ اس کلینڈر پر جو آخری عبارت تحریر ہے اس کا متن ہے کہ ’مجھے مدد کی ضرورت ہے۔‘
لارا کی بہن نکی کا کہنا ہے کہ ’شزوفرینیا کی وجہ سے ان کو ایسا لگتا تھا کہ خاندان والے ان کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور اسی وجہ سے خاندان کا ان سے رابطہ ٹوٹ گیا۔‘
تاہم نکی کا کہنا ہے کہ لارا کے ارد گرد رہنے والوں نے ان کی ذہنی حالت سے جڑی تمام نشانیوں کے باوجود ان پر دھیان نہیں دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’ان سے جو لوگ رابطے میں تھے اور جن کی ذمہ داری تھی، ان سب نے ہی ہاتھ صاف کر لیے اور ان کو بھلا دیا اور ان کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سوچ کر دل ٹوٹ جاتا ہے کہ اس نے اپنے آخری چند سال کیسے گزارے ہوں گے جب اپنے ارد گرد کسی بھی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے لیے مدد مانگنا بھی ناممکن ہو گیا ہو گا۔‘
خاندان کے وکیل افتخار منظور کا کہنا ہے کہ ’سوشل کیئر ٹیم کو دو بار لارا کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ پہلے 2014 میں اور پھر 2017 میں پولیس کی جانب سے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ان کی ضروریات کا جائزہ ہی نہیں لیا گیا۔‘
یہ بھی پڑھیے
’ایک دردناک کیس‘
سرے پولیس کا کہنا ہے کہ 24 مئی 2021 کو انھوں نے لارا کے پتے پر جا کر دیکھا کہ ایک خاتون کی لاش موجود ہے۔
پولیس افسران کے مطابق ان کو تحقیقات میں ایسا کوئی سراغ نہیں ملا کہ لارا کو قتل کیا گیا۔
پولیس کے ترجمان کے مطابق مئی 2021 سے قبل پولیس افسران نے اکتوبر 2017 میں اس فلیٹ کا چکر لگایا تھا اور اس وقت سوشل کیئر کو آگاہ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب سرے کی کاؤنٹی کونسل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک درد ناک اور پیچیدہ کیس ہے جس کا ہر رخ سے جائزہ لیا جانا چاہیئے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم تحقیقات میں ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہیں۔‘
Comments are closed.