بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

متحدہ عرب امارات کورونا کے باوجود کئی یورپی ممالک سے خوش حال کیوں ہے

متحدہ عرب امارات میں کورونا: وہ وجوہات جن کے باعث یہ ملک وبا کی لہروں کے باوجود بھی خوشحال ہے

خاتون متحدہ عرب امارات

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون نے جہاں یورپ کے کئی حصوں کو دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کرنے پر مجبور کر دیا ہے، وہیں متحدہ عرب امارات ایک ایسا ملک ہے جس نے وائرس کی نئی قسم کو زیادہ اثر انداز نہیں ہونے دیا اور یہ اب بھی سیاحوں کے لیے کھلا ہے۔

اس عالمی وبا کے دوران متحدہ عرب امارات ویکسینیشن کی شرح کے ساتھ ساتھ وسیع اور سستی ٹیسٹنگ کی سہولتوں کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک سے بہتر انداز میں کورونا سے لڑ رہا ہے۔

اس وقت بلومبرگ کی کووڈ ریزیلینس رینکنگ میں متحدہ عرب امارات پہلے نمبر پر ہے۔ اس رینکنگ یا درجہ بندی میں صحت کی دیکھ بھال کے معیار، وائرس سے اموات اور سفر کو دوبارہ کھولنے جیسے 12 اشاریے شامل ہیں جبکہ 53 ممالک کا احاطہ کیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ یورپ میں ایک بار پھر اومیکرون کے پھیلاؤ کے باوجود متحدہ عرب امارات انفیکشن پر قابو رکھنے اور ملک کو سیاحوں کے لیے کھلا رکھنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔

وبائی امراض کی وجہ سے اس کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر دبئی نے بھی خود کو ایک عالمی سیاحتی مرکز میں تبدیل کر کے اپنی کمیونٹی میں سرمایہ کاری کی ہے۔

’میرزام‘ چاکلیٹ کمپنی کی چیف چاکلیٹ آفیسر کیتھی جانسٹن جو شہر میں 30 سال سے زیادہ عرصے سے مقیم ہیں، کہا کہ ’ہم سب کو ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے مل کر کام کرنا تھا۔ مقامی افراد مقامی تصورات اور پروجیکٹس کی حمایت کر رہے ہیں۔ چیزیں تھوڑی سست روی کا شکار ہیں لیکن آگے بڑھ رہی ہیں۔ دو سال سے یہاں رہتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ کسی اور سیارے میں رہے ہیں اور میں اسے پسند کرتی ہوں۔‘

اس وقت متحدہ عرب امارات جانے کی کیا وجہ ہے؟

رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ایک تو اس وقت یہاں موسم مناسب ہے۔ دبئی کے رہائشی طالع محمد نے کہا کہ ’اکتوبر سے مئی کے درمیان کا وقت سال کا بہترین وقت ہوتا ہے کیونکہ اس درمیان یہاں شدید گرمی نہیں ہوتی۔‘

اس موسم میں بیرونی تقریبات اور سرگرمیاں ایک بار پھر لوٹ آتی ہیں جن کا انعقاد ساحل سے جڑے شہر کے متعدد دالانوں اور چھتوں پر تفریحی سرگرمیوں کے طور پر ہوتا ہے۔

یہ شہر مارچ سنہ 2022 کے آخر تک ’ایکسپو 2020‘ کی میزبانی بھی کر رہا ہے جو چھ ماہ کا ایک عالمی اجتماع ہے جس میں دنیا بھر کی بڑی بڑی کمپنیوں کے سٹالز یا پویلینز لگائے گئے ہیں۔ اس میں شامل کمپنیاں اپنی اپنی منفرد اور مختلف ایجادات اور مستقبل کے منصوبوں کی نمائش کر رہی ہیں۔

جانسٹن نے کہا کہ ’ایکسپو میں جانا مت بھولیے گا۔ اس کے لیے اپنا ایک پورا ہفتہ مخصوص رکھیں۔ جاپانی سُوشی کے لیے لائن میں تین گھنٹے بھی انتظار کرنا پڑے تو کوئی بات نہیں۔ ایکسپو سینٹر میں ’بیرن‘ کے ریستوران میں ’دُخا‘ کے ساتھ کھجوروں کا مزہ لیں، اور آسٹریلوی پویلین میں آسمانوں کے نیچے ستاروں کے خواب دیکھیں۔‘

خاتون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

غائب ہو جانے کے لیے سفر کریں

دبئی نے شمسی توانائی، پانی کے تحفظ اور گرین بلڈنگ اور انفراسٹرکچر میں بڑی سرمایہ کاری کے ساتھ، زیادہ پائیدار بننے کے لیے پچھلی دہائی کے دوران کافی مستعدی سے کام کیا ہے۔ ’ایکسپو 2020‘ ایک ’سسٹین ایبلٹی پویلین‘ کی میزبانی بھی کر رہا ہے جس میں شمسی درختوں جیسے منصوبوں کی نمائش کی جا رہی ہے جو توانائی پیدا کرتے ہوئے سایہ بھی فراہم کرتے ہیں۔ اس پویلین کی ایک اور قابل دید چیز یہاں پر 9,000 پودے اور جڑی بوٹیاں اگانے والا ایک بہت بڑا عمودی فارم بھی ہے۔

جانسٹن نے کہا کہ گذشتہ دو سالوں میں بہت ساری نئی جگہیں کھلنے کے ساتھ اس وبائی مرض نے بھی غیر متوقع طور پر مقامی اجزاء اور ہنر سے منسلک باورچیوں کو اپنی صلاحیتیں اجاگر کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ ان کے پسندیدہ ریستورانوں میں عربی ذائقوں کے لیے ’اورافلی بروز‘، اعلیٰ درجے کے کھانے اور ناشتے کے لیے ’ٹریسند سٹولڈیو‘ اور ’بارن اسپیشلٹی‘ کافی بار ہیں جبکہ میٹھے آلو کے کیکس کے لیے وہ ہاپی ریسٹورینٹ کو پسند کرتی ہیں۔

جاپانی پکوان کے مزے کو مقامی اجزا کے ساتھ ملا کر کھانے کے لیے محمد نے ’ایڈن ہاؤس‘ اور اس کے ’اوماکاس‘ مینو پر ’مون رائیز‘ کھانے کی سفارش کی۔ ’مثال کے طور پر سپین کی ایک ڈش سپین چٹورو ہے جس میں دبئی سے 100 کلومیٹر شمال مشرق میں راس الخیمہ کا شہد شامل کیا جاتا ہے۔‘ صرف آٹھ نشستوں والی یہ جگہ عموماً مکمل طور پر بُک ہوتی ہے لہٰذا آپ اِسے پہلے سے ریزرو کروا لیں۔

دبئی

،تصویر کا ذریعہFrancois Nel/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

’سیسٹین ایبیلیٹی پیویلین‘میں لگے ہوئے بڑے بڑے شمسی درخت بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ سایہ بھی دیتے ہیں۔

ایک مقامی رہائشی ویبھا دھون، جو اویشن ٹریول گروپ کی ٹریول ایڈوائزر بھی ہیں، ‘بوکا’ کھانے کی سفارش کرتی ہیں جس میں متحدہ عرب امارات کے فش فارم کے سالمن اور مقامی اونٹوں کا دودھ استعمال کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ ‘دی سم آف اس’ نامی ریستوران، دبئی کے ان چند کیفیز میں سے ایک ہے جو ‘ایوکاڈو سیڈ سٹرا’ استعمال کر کے ماحول دوست بن چکا ہے اور دوبارہ قابل استعمال ٹیک اوے کپ لانے والے صارفین کو 10 فیصد رعایت کی پیشکش بھی کرتا ہے۔

شہر میں قابل عمل پائیداری کے اقدامات پر مزید گہرائی سے نظر ڈالنے کے لیے ویبھا دھون ‘ایمریٹس بائیو فارم’ جانے کی تجویز دیتی ہیں، جو ملک کا سب سے بڑا نجی نامیاتی فارم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ایک گروپ ٹور کریں جس کے لیے غروب آفتاب کا وقت بہترین ہو گا۔ اس سے آپ کو کئی ایکڑوں پر محیط اس فارم کا تفصیلی دورہ کرنے کا موقع ملتا ہے اور آپ کو اپنی مرضی کی سبزیاں کاٹنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ وہ سال بھر کھانے کے مزیدار تجربات بھی پیش کرتے ہیں۔‘

اس خطے کے قدرتی صحرا کا لطف اٹھانے کے لیے وہ ’ال ماہا ریزورٹ‘ اور ’سپا‘ کا مشورہ دیتی ہیں۔ دبئی کے پہلے قومی پارک کے اندر قائم ہونے والے اس فائیو سٹار ریزورٹ کا مقصد صحرائی ماحولیات کے ساتھ ساتھ نایاب نسل کے عربی بارہ سنگھے کا تحفظ کرنا بھی ہے۔

آج یہاں اس نسل کے 300 بارہ سنگھوں کے ریوڑ بلا خوف و خطر آزادانہ گھومتے ہیں جن کے فروغ کے لیے کئی دہائیوں تک کام کیا گیا ہے۔ یہاں آنے والے سیاحوں کے لیے سائٹ پر فیلڈ گائیڈز کے ہمراہ پیدل، جیپوں پر، اونٹ یا گھوڑے پر سوار ہو کر جنگلی حیات دیکھنے کے دوروں کا اہتمام کرتے ہیں۔

امارات

،تصویر کا ذریعہFrancois Nel/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

امارات کا بائیو فارم اس ملک میں نجی شعبے کا سب سے بڑا فارم ہے

شہر کے وسط میں ایک تجربے کے لیے دسمبر سنہ 2021 میں کھلنے والا نیا ’25آور ون سینٹرل‘ ہوٹل سیاحوں کو کہانی سنانے کے لیے عربی ’حکایتی‘ موضوعات میں غرق کر کے ملکی روایات کا جشن مناتا ہے۔

اس سے لطف اندوز ہونے کا آغاز ہوٹل کی لابی میں دائرے کی شکل میں بنے ہوئے ’فاؤنٹین آف ٹیلز‘ لائبریری سے ہوتا ہے جس میں 5,000 سے زیادہ کتابیں ہیں۔

ان میں مقامی فنکاروں کے آرٹ کی اشیا سرفہرست ہیں، اور عرب بدّوؤں سے متاثر آرٹ اور سجاوٹ کے ساتھ پورے ہوٹل میں اس کا مزہ لیا جا سکتا ہے، جو قدیم اور جدید خانہ بدوش عرب قبائل کی زندگی کا ایک حسین امتزاج پیش کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

وہاں جانے سے پہلے جان لیں

اومیکرون قسم کی وجہ سے سفری پابندیاں تیزی سے بدل رہی ہیں لہٰذا تازہ ترین اعلانات اور ضروریات کے لیے یو اے ای ٹریول ٹو دبئی کی ویب سائیٹ ضرور دیکھ لیجیے۔

فی الحال یہاں کا سفر عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ ویکسین لگوانے والے سیاحوں کے لیے کھلا ہے۔ تاہم سیاحوں کو آمد پر کورونا ٹیسٹ بھی کروانا ہو گا۔ غیر ویکسین شدہ مسافروں کو روانگی کے 72 گھنٹوں کے اندر منفی PCR ٹیسٹ فراہم کرنا ہو گا۔ چند افریقی ممالک سے آنے یا جانے والوں کے لیے فی الحال سفر پر پابندی عائد ہے۔

مسافروں کو متحدہ عرب امارات کی آفیشل کانٹیکٹ ٹریسنگ اور ہیلتھ اسٹیٹس ایپ ‘الحسن ایپ’ ڈاؤن لوڈ کرنی چاہیے جو ٹیسٹ کے نتائج اور ویکسینیشن کی حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے کلر کوڈڈ سسٹم (گرے، ریڈ، گرین) استعمال کرتی ہے۔

دبئی ہیلتھ اتھارٹی ‘ڈی ایکس بی’ (DXB) سمارٹ ایپ پیش کرتی ہے، جو اینڈرائڈ اور آئی او ایس کے لیے دستیاب ہے، اور یہ سیاحوں کو متحدہ عرب امارات کے موجودہ کووِڈ ریٹ، ٹیسٹ کے نتائج اور ایکسپوژرز کے بارے میں ریئل ٹائم معلومات فراہم کرتی ہے، اور امارات میں ویکسینیشن کی صورتحال کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.