بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

مادّے کی نئی حالت ’’الیکٹرون کواڈرپلٹ‘‘ دریافت

اسٹاک ہوم: سائنسدانوں کی ایک عالمی ٹیم نے طویل تحقیق کے بعد مادّے کی نئی حالت ’’الیکٹرون کواڈرپلٹ‘‘ (electron quadruplet) دریافت کرلی ہے جو بہت کم درجہ حرارت پر وجود میں آتی ہے اور جس میں چار الیکٹرون ایک ساتھ ہوتے ہیں۔

کے ٹی ایچ رائل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، سویڈن میں تجربات سے مادّے کی اس نئی حالت کا انکشاف ہوا ہے اور اب ماہرین اس کی مزید خصوصیات جاننے کی کوشش کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ ایک جیسے چارج والے ذرّات ایک دوسرے کو دور دھکیلتے یعنی ’’دفع‘‘ کرتے ہیں۔

الیکٹرون پر منفی چارج ہوتا ہے لہٰذا جب دو الیکٹرونوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے تو ان کے درمیان قوتِ دفع (دور کرنے والی قوت) بڑھ جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دو یا زیادہ الیکٹرونوں کا ایک دوسرے سے بہت قریب رہنا انتہائی مشکل تصور کیا جاتا ہے۔

البتہ ’’سپر کنڈکٹرز‘‘ یعنی وہ مادّے جن میں سے بجلی بغیر کسی مزاحمت کے گزر جاتی ہے، ان میں جوڑوں کی شکل میں الیکٹرونوں کا مشاہدہ ہوچکا ہے جو معمول کے خلاف ہے۔ یہ عمل بے حد کم درجہ حرارت پر واقع ہوتا ہے۔

آج سے تقریباً 20 سال پہلے کے ٹی ایچ سویڈن کے سائنسداں، پروفیسر ایگور بابائیف نے چار الیکٹرونوں کی ایک ساتھ موجودگی یعنی ’’الیکٹرون کواڈرپلٹس‘‘ کے بارے میں پیش گوئی کی تھی، جبکہ 2013 میں اس حوالے سے ایک ریسرچ پیپر بھی شائع کروایا تھا۔

یہ پیش گوئی اتنی غیرمعمولی تھی کہ ماہرینِ طبیعیات (physicists) کی اکثریت نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔

2018ء میں ڈریسڈن، جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں وادِم گریننکو اور ان کے ساتھیوں نے پہلی بار کچھ ایسے مشاہدات کیے جو الیکٹرون کواڈرپلٹس کی پیش گوئی کی مطابقت میں تھے۔

اس ممکنہ دریافت کی تصدیق کےلیے مزید تین سال تک دنیا کی مختلف تجربہ گاہوں میں انتہائی سرد درجہ حرارت والے سپر کنڈکٹرز پر سیکڑوں تجربات اور مشاہدات کیے گئے جن کے مشترکہ نتائج ’’نیچر فزکس‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئے ہیں۔

پروفیسر ایگور بابائیف کہتے ہیں کہ الیکٹرون کواڈرپلٹس میں کچھ نئی اور غیرمعمولی خصوصیات بھی سامنے آئی ہیں جنہیں ابھی ہم پوری طرح سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔

فی الحال یہ بالکل ابتدائی نوعیت کی دریافت ہے جس کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوجانے کے بعد سپر کنڈکٹر مادّوں کو بہتر بنایا جاسکے گا۔

You might also like

Comments are closed.