لاہور ہائی کورٹ نے ڈی این اے کی بنیاد پر زیادتی کے ملزم کو 9 سال بعد بری کردیا، جسٹس علی ضیا باجوہ نے جولائی 2012 میں سزا پانے والے عرفان کی اپیل پر فیصلہ دیا۔
ملزم عرفان کو ذہنی معذور لڑکی سے زیادتی کے الزام میں 12 سال کی سزا ہوئی تھی۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ڈی این اے مجرم کو پکڑنے کے ساتھ معصوم کی بے گناہی میں بھی مدد دیتا ہے، یہ کیس ناقص تفتیش اور عدالت میں شہادت کی ناقص جانچ پرکھ کی مثال ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جب فرانزک سے پتہ چل گیا ڈی این اے نمونے عرفان کے نہیں تو کیس ختم ہوجانا چاہیے تھا، اصل مجرم کو پکڑنے کے بجائے بے گناہ کو ٹرائل اور سزا کی اذیت سے گزارا گیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 100 مجرم چھوٹ جائیں لیکن کسی بے گناہ کو سزا نہیں ملنی چاہیے، ڈی این اے کی رپورٹ نیگیٹیو تھی لیکن ٹرائل کورٹ نے اس پر کچھ نہیں لکھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ کے اس رویے سے ہونے والی سزا بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے۔
Comments are closed.