لاکربی فضائی حادثہ: 35 سال قبل ہوائی جہاز کو بم سے اڑانے کا واقعہ، جس میں جلی ہوئی پتلون کے ٹکڑے نے تفتیش کا رخ موڑ دیا

جہاز حادثہ

،تصویر کا ذریعہAFP

  • مصنف, ڈیوڈ کووان
  • عہدہ, نامہ نگار برائے محکمہ داخلہ، بی بی سی سکاٹ لینڈ

امریکہ کی ایک جیل کی کال کوٹھری میں 72 سالہ ابو عجیلہ مسعود مقدمے کی سماعت کے منتظر ہیں۔ ان پر امریکی ہوائی جہاز کو فضا میں تباہ کرنے والا بم بنانے کا الزام ہے۔

21 دسمبر 1988 کے واقعات میں نئے حقائق سامنے آنے کے بعد لیبیا میں ہونے والے اس مقدمے کی سماعت کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

اس مقدمے کی حقیقت وہ ظلم ہے جس نے 21 ممالک سے تعلق رکھنے والے 270 افراد جن میں مرد خواتین اور بچے شامل تھے، کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والے خاندانوں کے افراد نہ صرف فضا میں بلکہ زمین پر جیتے جی مار دیے گئے تھے۔

اس مقدمے سے متعلق تفتیش اور تحقیقات کو ایک جاسوسی کہانی کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔

اس رات امریکی ایئر لائن کی پین ایم کی پرواز 103 میں سوار ہر شخص ہلاک ہو گیا تھا۔ اس حادثے میں ہلاک ہونے والے 259 افراد میں مسافر اور جہاز کا عملہ شامل تھا۔ مرنے والوں میں سب سے بوڑھا شحض 82 سال کا تھا جبکہ سب سے چھوٹا دو ماہ کا بچہ تھا۔

مرنے والوں میں دو تہائی امریکی شہری تھے اور یہ نائن الیون سے پہلے امریکی تاریخ کا سب سے برا دہشت گردی کا حملہ تھا۔

اس حادثے میں 11 افراد اس وقت ہلاک ہوئے تھے جب جہاز کا ملبہ سکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی میں ان کے گھروں پر آ کر گرا تھا۔ اس حادثے میں کل 44 برطانوی شہری ہلاک ہوئے تھے۔ یہ آج بھی برطانوی عدلیہ کی تاریخ میں بڑے پیمانے پر انسانی قتل کا ایک بدترین کیس ہے۔

’آپ یہ گھڑ نہیں سکتے‘

اس بارے میں ہمیشہ مختلف نظریات موجود رہیں گے کہ اس واقعے کا کون ذمہ دار تھا لیکن واقعات کے صرف ایک ورژن کو عدالت کی طرف سے قبول کیا گیا اور اپیل پر برقرار رکھا گیا ہے۔

سنہ 2001 میں ایک غیر جانبدار ملک نیدرلینڈز میں قائم ایک سکاٹش عدالت نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ یہ لیبیا کی انٹیلیجنس سروس کی جانب سے کی جانے والی ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی کی کارروائی ہے۔

تین ججوں نے فیصلہ سنایا تھا کہ عبدالباسط المگراہی اس سازش کا حصہ تھا اور اسے بم دھماکے کا مرکزی کردار ادا کرنے کا مجرم قرار دیا تھا۔

اسے ’لاکربی بمبار‘ کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن اس پر ہمیشہ لیبیا کے دیگر سازشیوں بشمول ابو عجیلہ مسعود، کے ساتھ کام کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا۔ ابو عجیلہ مسعود اب امریکہ میں مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ کیس عدالت کے سامنے 20 سال پہلے رکھا گیا تھا اور اس میں 70 ممالک تک پھیلی ہوئی بین الاقوامی تحقیقات شامل تھیں۔

اس کیس کے تمام شواہد اور کلیدی ثبوتوں کے ہر ٹکڑے پر بحث اور اختلاف کیا گیا تھا یہاں تک کے لاکربی کی تحقیقات کرنے والے سکاٹش اور امریکی تفتیش کار جھنجھلا گئے تھے۔

لیبیا اور المگراہی پر لگائے جانے والے الزامات کے جواب میں ڈمفریز اور گیلووے کانسٹیبلری کے ایک سابق چیف کانسٹیبل نے ایک بار فیصلہ دیا تھا کہ ’آپ اسے گھڑ نہیں سکتے۔ آپ زمین پر اس طرح کے شواہد کیسے سامنے لا سکتے ہیں؟ یہ بکواس ہے۔‘

شواہد اور ثبوتوں کے سلسلے کی اس کہانی کا آغاز لاکربی اور اس کے مضافاتی علاقوں کی گلیوں سے ہوا تھا۔

المگراہی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

المگراہی پر لگائے جانے والے الزامات کے جواب میں ڈمفریز اور گیلووے کانسٹیبلری کے ایک سابق چیف کانسٹیبل نے ایک بار فیصلہ دیا تھا کہ ’آپ اسے گھڑ نہیں سکتے۔ آپ زمین پر اس طرح کے شواہد کیسے سامنے لا سکتے ہیں؟ یہ بکواس ہے‘

دنیا کا سب سے بڑا کرائم سین

پین ایم کی پرواز 103 کا بوئنگ 747 طیارہ کرسمس سے چار دن پہلے ہیتھرو سے نیو یارک جاتے ہوئے 31 ہزار فٹ کی بلندی پر پھٹا تھا۔

اس کا تقریباً 319 ٹن ملبہ 845 مربع میل کے علاقے میں پھیل گیا تھا جس نے اسے دنیا کا سب سے بڑا کرائم سین یعنی جائے واردات بنا دیا تھا۔

اس دن ایک ایسا قصبہ جہاں عام طور پر چار پولیس افسران ڈیوٹی پر ہوتے ہیں، بڑے پیمانے پر ریسکیو آپریشن اور تفتیش کا مرکز بن گیا تھا۔

22 دسمبر کی صبح تک چار پولیس افسروں کی ڈیوٹی والے قصبے میں فوج، ایمرجنسی سروسز، مقامی حکام اور رضاکار گروپوں کے 1000 اہلکاروں کے ساتھ تقریباً 1,100 پولیس افسران موجود تھے۔

اس کے بعد کے کئی ہفتوں تک ایک محنت طلب تلاش میں ملک کے دوسری طرف موجود نارتھمبرلینڈ کے ساحل تک سے جہاز کا ملبہ برآمد کیا۔

تفتیش کاروں کو جہاز کے اگلے حصے میں رکھے گئے سامان کے ایک سوٹ کیس پر سے دھماکے کے شواہد ملے۔

سکاٹش پولیس اور ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ جہاز کو تباہ کرنے والا بم سیمسونائٹ کے سوٹ کیس میں رکھے گئے توشیبا کے ریڈیو کیسٹ پلیئر میں چھپایا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر اس کارروائی کا شبہ ایران اور شامی حمایت یافتہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ پر گیا کیونکہ تین جولائی 1988 کو امریکی بحریہ کے ایک بحری بیڑے یو ایس ویسین نے غلطی سے خلیج کے اوپر ایک ایرانی ہوائی جہاز کو مار گرایا تھا جس میں سوار تمام 290 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ایران نے بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی۔

لاکربی بم دھماکے سے تین ماہ قبل ’خزاں کے پتوں‘ کے نام سے ایک آپریشن میں مغربی جرمن پولیس نے فرینکفرٹ میں فلیٹوں پر چھاپہ مارا تھا اور شامی حمایت یافتہ پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین جنرل کمانڈ کے ارکان کو گرفتار کیا تھا۔

یہ گروہ ریڈیو کیسٹ پلیئرز میں بم تیار کرتا تھا اور دسمبر 1988 تک ان میں سے زیادہ تر افراد رہا ہو چکے تھے۔

پین ایم 103 کے لیے ایک فیڈر پرواز پین ایم 103 اے فرینکفرٹ سے اڑان بھر چکی تھی۔

اس گروہ کی چھان بین اور تفتیش میں کئی ماہ لگے پھر اچانک شواہد کی تلاش نے تفتیش کو بحیرہ روم کے ایک جزیرے کی طرف موڑ دیا۔

جہاز حادثہ

،تصویر کا ذریعہReuters

مالٹا سے جڑتا تعلق

جس سوٹ کیس میں بم رکھا گیا تھا اس میں پڑے ایک بچے کے رات کو پہننے والے کپڑے مالٹا میں تیار کیے گئے تھے۔ تفتیش کاروں کو اس کا پتا ایسے لگا کہ جب ایک اور جلی ہوئی پتلون کے ایک ٹکڑے کو جانچا گیا تو اس پر مالٹا کے ایک کپڑے بنانے والے برانڈ یورکی کا لیبل لگا ہوا تھا۔ ایف بی آئی کی جانب سے تفتیش میں مشاورت کے بعد یہ تحقیقات تفتیش کاروں کو مالٹا کے کپڑوں کے برانڈ یورکی تک لے گئی۔

سکاٹش جاسوسی نے اس کمپنی کا دورہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ یورکی کی پتلونیں قریبی علاقے سلیما میں ایک چھوٹی دکان پر فروخت کی جاتی ہیں۔

تفتیشی اہلکار اس وقت حیران رہ گئے جب میری ہاؤس کے مالک نے یاد کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ لاکربی بم حملے سے چند ہفتے پہلے انھوں نے ایک شخص کو یارکی کی پتلونیں بیچی تھیں۔

ٹونی گوچی کو اچھی طرح یاد تھا کہ یہ ایک غیر معمولی کاروباری سودا تھا، اگرچہ ایسا اس سے نو ماہ پہلے بھی ہوا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ گاہک نے بظاہر مختلف طرح کے کپڑے اور ایک چھتری خریدی تھی۔

ٹومی گوچی کو یقین تھا کہ وہ گاہک لیبیا سے تعلق رکھتا تھا اور فروری 1991 میں جب اسے جمہوریہ چیک کی انٹیلیجنس سروس کی طرف سے فراہم کردہ عبدالباسط المگراہی کی تصویر دکھائی گئی تو اس نے کہا کہ یہ اس شخص سے ملتی جلتی نظر آتی ہے جو اس کی دکان میں آیا تھا۔

اس کی جانب سے المگراہی کی شناخت حتمی نہیں تھی لیکن ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ ٹونی گوچی نے اپنے بیان میں جس دن کپڑے بیچنے کا بتایا تھا وہ اس تاریخ کو مالٹا میں تھا۔

اگرچہ یہ تمام کڑیاں المگراہی کے مقدمے کی سماعت کے دوران بھی متنازعہ تھیں اور آج تک ہیں لیکن آج تک استغاثہ کا مقدمہ اسی بنیاد پر ہے۔

بم ٹائمر کا ایک ٹکڑا

جنوری 1989 میں لاکربی سے 30 میل دور دیہی علاقوں کے قریب شواہد کی تلاش کرنے والے جاسوسوں کو کپڑے کا ایک اور ٹکڑا ملا تھا۔ قمیض کے جلے ہوئے گلے کے پٹ میں سبز رنگ کے سرکٹ بورڈ کا ایک ٹکڑا تھا۔

سی آئی اے کی مدد سے ایف بی آئی نے اسے ایم ایس ٹی 13 بم ٹائمرز سے ملایا جو افریقی ملک ٹوگو میں پکڑے گئے تھے۔ پھر جرمن پولیس اور سوئٹزرلینڈ کے حکام کی مدد سے یہ کڑی میبو نامی کمپنی تک پہنچی۔

کمپنی کے ساتھ کیے گئے پہلے انٹرویوز میں انکشاف ہوا کہ اس نےایم ایس ٹی ٹائمرز لیبیا کو فروخت کیے تھے۔ اس کے مالکان میں سے ایک ایڈون بولیئر، المگراہی کو جانتا تھا جس کا زیورخ میں اس کے ساتھ ہی ایک دفتر تھا۔

ادھر مالٹا میں امیگریشن ریکارڈز کی ایک جامع تلاش سے معلوم ہوا کہ المگراہی لیبیا سے 20 دسمبر 1988 کو یعنی بم حملے سے ایک دن پہلے لیبیا کی انٹیلیجنس سروس کی طرف سے فراہم کردہ جھوٹے پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہوئے جزیرے پر پہنچا تھا۔

وہ 21 تاریخ کو واپس لیبیا گیا اور اس پر الزام ہے کہ اس دن اس کے ساتھ مبینہ طور پر امریکی جیل میں قید مشتبہ شخص ابو عجیلہ مسعود بھی تھا۔

نومبر 1991 میں سکاٹش اور امریکی پراسیکیوٹرز نے الزامات کا اعلان کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ میگراہی اور ایک اور لیبیا، الامین خلیفہ فہیمہ، ان کے ملک کی انٹیلیجنس سروس کے رکن تھے۔

نومبر 1991 میں سکاٹش اور امریکی پراسیکیوٹرز نے الزامات لگائے کہ المگراہی اور ایک اور لیبیئن شہری الامین خلیفہ فہیمہ ان کے ملک کی انٹیلیجنس سروس کے رکن تھے۔

المگراہی لیبیا کی عرب ایئر لائنز میں سکیورٹی کے سربراہ تھے جبکہ فہیمہ مالٹا کے لوقا ہوائی اڈے پر لیبیا عرب ایئر لائنز کے سابق سٹیشن منیجر تھے۔

ان پر الزام تھا کہ انھوں نے مالٹا سے فرینکفرٹ جانے والی پرواز کے لیے لوقا کے ہوائی اڈے سے سامان میں بم رکھنے والے سوٹ کیس کو رکھا تھا۔

بم دھماکے کے بعد فرینکفرٹ ہوائی اڈے پر ایک سامان رکھنے والے کارکن کی جانب سے پرنٹ کیے گئے کمپیوٹر ریکارڈز سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالٹا سے آنے والی پرواز میں ایک سوٹ بنا مسافر کے آیا تھا اور اسے فیڈر فلائٹ پین ایم 103 اے پر لاد کر لایا گیا تھا۔

استغاثہ کا مقدمے یہ تھا کہ اس سوٹ کیس کو پین ایم 103 پرواز پر ہیتھرو ایئر پورٹ سے رکھا گیا تھا۔

پاجامہ

،تصویر کا ذریعہCrown Office

لاکربی مقدمے کی پہلی سماعت

لیبیا میں پوچھ گچھ کیے جانے والے المگراہی اور فہیمہ نے کہا کہ وہ بے گناہ ہیں۔ المگراہی نے کہا کہ وہ بم دھماکے کے دن مالٹا میں نہیں تھے لیکن ان کا جعلی پاسپورٹ ثابت ہوا تھا۔ لیبیا کے لیڈر کرنل قذافی نے مگراہی اور فہیمہ کو برطانوی اور امریکی تفتیش کاروں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

جس کے بعد برسوں کے تعطل اور پابندیوں کے بعد نیلسن منڈیلا کی مداخلت اور اقوام متحدہ کی ثالثی کے معاہدے کے نتیجے میں ہالینڈ میں سابق امریکی ایئربیس کیمپ زیسٹ میں سکاٹش عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔

84 روز کے شواہد کے بعد فہیمہ کو کلیئر کر دیا گیا اور مگراہی کو اجتماعی قتل کا مجرم قرار دیا گیا۔ وہ پہلی سماعت میں اپنا مقدمہ ہار گیا اور اسے عمر قید کی سزا کے لیے سکاٹ لینڈ لے جایا گیا۔

اس فضائی حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے بہت سے امریکی رشتہ دار اس بات پر ناراض تھے کہ کرنل قذافی کو ان دونوں کے ساتھ کٹہرے میں نہیں لایا گیا تھا۔

لیکن برطانوی متاثرین کے کچھ لواحقین، جن کی سربراہی جی پی ڈاکٹر جم سوائر کر رہے تھے، کا ماننا تھا اور آج بھی ماننا ہے کہ مگراہی بے گناہ تھے اور اصل مجرم ایران اور فلسطینی تھے۔

سنہ 2003 میں متاثرین کے لیے کام کرنے والے وکلا نے اعلان کیا تھا کہ وہ لیبیا کے ساتھ 1.7 ارب پاؤنڈ کے ہرجانے کی رقم پر معاہدہ کر چکے ہیں۔

لیبیا نے اپنے اہلکاروں کے اقدام کی ذمہ داری قبول کی تھی البتہ چند برسوں بعد کرنل قدافی کے بیٹے نے دعویٰ کیا تھا یہ ایسا صرف اس لیے کیا گیا تھا تاکہ لیبیا پر عائد پابندیاں اٹھائی جا سکیں۔

پاسپورٹ

،تصویر کا ذریعہCrown Office

سزا پر شکوک

سنہ 2007 میں سکاٹش کریمنل کیسز ریویو کمیشن نے عدالت کو مقدمہ دوبارہ کھولنے کی درخواست کی۔

درخواست میں کہا گیا کہ اس مقدمے کے ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے کوئی شواہد نہیں ملے جو کہ مگراہی کے حامیوں کی طرف سے ایک دیرینہ الزام تھا لیکن یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شاید وہ نامکمل انصاف کا شکار ہوئے ہوں گے۔ کیونکہ بنیادی طور پر ٹونی گوچی نے ان کی شناخت اس شخص کے طور پر کی تھی جس نے اس سوٹ کیس کے لیے کپڑے خریدے تھے جس میں بم تھا۔

یہ مقدمہ عدالتوں میں چلتا رہا اور سنہ 2008 میں پتا چلا کہ مگراہی کو کینسر ہے۔

ان کے خلاف مقدمے کی دوسری درخواست کو رد کر دیا گیا اور ڈاکٹروں کی جانب سے یہ بتائے جانے کے بعد کہ ان کے پاس صرف تین ماہ تک کی زندگی بچی ہے انھیں 2009 میں طبی بنیادوں اور ہمدردی کی بنیاد پر سکاٹ لینڈ کی حکومت نے رہا کر دیا۔

اس فیصلے کی حمایت ڈاکٹر سوائر اور کچھ ہلاک شدگان کے لواحقین نے کی تھی لیکن آج بھی یہ معاملہ بہت سے امریکی خاندانوں کے لیے ایک تلخ یاد ہے۔

لیکن مگراہی نے کرنل قذافی سے بھی زیادہ عمر پائی۔ کرنل قذافی کو سنہ 2011 میں ان کی حکومت کا تختہ گرائے جانے کے بعد ہلاک کر دیا گیا تھا مگر ’لاکربی بمبار‘ کہلائے جانے والے مگراہی اپنی رہائی کے تین سال بعد 2012 میں مرے تھے۔

نئے مشتبہ افراد

قذافی کی موت نے تفتیش کاروں کو امید دی کہ لاکربی کے واقعے پر نئی روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ لیبیا کے نئے حکام سے رابطہ کیا گیا اور سکاٹش اور امریکی تفتیش کاروں اور پراسیکیوٹرز نے ان سے ملنے کے لیے شمالی افریقہ کا سفر کیا۔

سنہ 2015 میں سکاٹ لینڈ کے کراؤن آفس اور امریکی اٹارنی جنرل نے اعلان کیا کہ ان کے پاس دو نئے مشتبہ لیبیائی افراد کے شواہد موجود ہیں اور وہ لیبیا سے ان سے تفتیش کرنے کی اجازت کی درخواست کر رہے ہیں۔

یہ مشتبہ افراد ابو عجیلہ مسعود اور قذافی کے سابق انٹیلیجنس چیف عبداللہ السنوسی تھے۔ جنھوں نے مگراہی کو طرابلس کے ہوائی اڈے پر اس وقت اٹھایا تھا جب وہ چھ سال قبل سکاٹ لینڈ سے گھر واپس آئے تھے۔

جو اس مقدمے کی تحقیقات میں ایک بڑی پیشرفت دکھائی دیتی تھی لیکن وہ اس وقت ختم ہو گئی جب لیبیا میں خانہ جنگی شروع ہوئی لیکن خونریزی اور افراتفری کے باوجود لیبیا کے حکام کے ساتھ رابطے برقرار رہے۔

یادگار

،تصویر کا ذریعہPA Media

مقدے کی تیسری درخواست

سنہ 2017 میں مگراہی کی موت کے پانچ برس بعد اس کے اہلخانہ نے عدالت میں درخواست دی کہ ان کا نام اس مقدمے سے ہٹایا جائے۔

اس پر اس وقت بھی غور کیا جا رہا تھا جب سکاٹ لینڈ کی پولیس فورس نے آپریشن سینڈ وڈ کے نتائج کا اعلان کیا تھا جس میں مگراہی کے حامیوں کے الزامات کی تحقیقات کی گئی تھیں۔

سکاٹ لینڈ کی پولیس نے کہا تھا کہ انھیں کیس کی تفتیش کے دوران اور استغاثہ سے شواہد سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے کسی جرم کا کوئی ثبوت نہیں ملا تاہم اس دوران انھیں جو کچھ ملا وہ اس کیس سے متعلق نئی معلومات تھیں جو انھوں نے کراؤن آفس اور سکاٹش کریمنل کیس ریویو کمیشن کو دی جو اس کیس کو دوسری بار دیکھ رہا تھا۔

سنہ 2020 میں کمیشن نے میگراہی کی سزا کو واپس اپیل کورٹ کو بھیج دیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’کوئی بھی معقول ٹرائل کورٹ، مقدمے کی سماعت کے دوران پیش کیے گئے ثبوتوں اور شواہد پر انحصار کرتے ہوئے مگراہی کو شک سے بالاتر اور بے گناہ نہیں سمجھ سکتی۔‘

لیکن لاکربی کیس کے معاملے میں یہ اتنا سادہ نہیں تھا۔

کمیشن نے یہ بھی کہا کہ اس نے نئی معلومات حاصل کی ہیں جن پر یقین کیا جائے تو لیبیا اور میگراہی پین ایم 103 پر بم حملے کے ذمہ دار ہیں۔

انتقام کا سلسلہ

لاکربی بم حملے کی 32ویں برسی کے موقع پر امریکہ نے او عجیلہ کے خلاف الزامات کا اعلان کیا جو اس وقت لبیا میں سنہ 2011 میں قذافی مخالف فورسز کو نشانہ بنانے کے لیے جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔

ایف بی آئی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عجیلہ مسعود نے پین ایم 103 کو تباہ کرنے والے بم بنانے کا اعتراف کیا تھا اور اس نے مگراہی اور فہیمہ کے ساتھ کنسرٹ میں کام کیا تھا۔

امریکیوں نے الزام لگایا کہ مسعود لیبیا کا سابق انٹیلیجنس آپریٹو تھا اور اس نے کرنل قذافی کے حکم پر حملہ کرنے کا اعتراف کیا تھا، جس کے بعد اس نے انھیں مبارکباد دی تھی۔

مسعود کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے 1986 میں برلن میں ایک ڈسکو پر حملے میں استعمال ہونے والے بم بنانے کا اعتراف بھی کیا تھا۔

امریکی اور سکاٹش تفتیش کاروں کا خیال ہے کہ یہی وہ واقعہ تھا جس نے انتقام کے ایک خوفناک سلسلے کو شروع کیا جس کی وجہ سے لاکربی بم حملہ ہوا۔

لیبیا اور امریکہ 1970 اور 80 کی دہائیوں میں آمنے سامنے تھے۔ لا بیلے ڈسکو میں ہونے والے بم دھماکے میں دو امریکی فوجی اور ایک ترک خاتون ہلاک اور دیگر 229 افراد زخمی ہوئے تھے جن میں 79 امریکی تھے۔

اس وقت کے امریکی صدر رونالڈ ریگن نے کہا تھا کہ لیبیا اس کا ذمہ دار ہے اور 10 دن بعد امریکی فضائیہ نے لیبیا کے دارالحکومت طرابلس اور شہر بن غازی پر بمباری کی تھی۔

اس حملے کو کرنل قذافی کو قتل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو اس حملے میں بچ گئے تھے۔ اس آپریشن میں کم از کم 15 شہریوں کے ساتھ کرنل قذافی کی لے پالک بیٹی بھی ماری گئی تھی۔

ڈسکو پر بمباری کے بعد لیبیا میں ہونے والی بمباری کو پین ایم 103 کی بمباری کا محرک قرار دیا گیا۔

ایک اور نظریہ یہ ہے کہ مغربی جرمنی میں فلسطینی سیل کے دریافت ہونے کے بعد لیبیا نے ایرانی ہوائی جہاز کو مار گرانے کا بدلہ لینے کا ’بیڑہ‘ اٹھایا تھا۔

عجیلہ مسعود کے خلاف الزامات کے منظر عام پر آنے کے ایک ماہ بعد، سکاٹش ججوں نے میگراہی کی بعد از مرگ اپیل مسترد کر دی اور 20 سال قبل کیمپ زیسٹ میں سنائے گئے فیصلے کو برقرار رکھا۔

مسعود

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

امریکہ کی ایک جیل کی کال کوٹھری میں 72 سالہ ابو عجیلہ مسعود مقدمے کی سماعت کے منتظر ہیں

کیا اب اس مقدمے کی ایک اور سماعت ہو گی؟

دسمبر 2022 میں بم دھماکے کی 34 ویں برسی سے چند ہفتے قبل یہ خبر آئی کہ عجیلہ مسعود کو امریکی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔

ابھی تک اس متعلق کوئی واضح معلومات نہیں لیکن سکاٹ لینڈ کی پراسیکیوشن سروس کے سربراہ نے کہا ہے کہ یہ عمل قانون کے مطابق تھا۔

مسعود کے اہلخانہ نے دعویٰ کیا کہ اسے مسلح ملیشیا نے بیماری کے بستر سے گھسیٹا اور وہ ایک مذہبی آدمی ہیں جو کسی کو قتل نہیں کر سکتا۔

عدالتی کاغذات میں ابو عجیلہ محمد مسعود خیر المریمی کے نام سے جانے جانے والے لیبیا کے شہری نے درخواست کی ہے کہ وہ جہاز کی تباہی اور ایک گاڑی کی تباہی کے واقعے کے مجرم نہیں۔

یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس مقدمے کی سماعت آگے بڑھے گی، سکاٹش اور امریکی تفتیش کاروں کی طرف سے دہائیوں سے بنائے گئے کیس کو امریکی وفاقی عدالت میں جیوری کے سامنے رکھا جائے گا۔

وکیل صفائی یقینی طور پر مبینہ اعترافی بیان کا دفاع کریں گے اور بار ثبوت رہ جائے گا۔

کیا مقدمے کی سماعت ہو گی؟ مسعود اپنے گھر سے بہت دور ہیں اور انھیں امید ہے کہ غیر ملکی جیل سے انھیں جلد رہائی مل جائے گی۔

اگر وہ جانتا ہیں کہ لاکربی میں کیا ہوا، تو کیا امریکی حکام کے ساتھ تعاون کرنا ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا؟

جہاں تک قذافی کے سابق انٹیلیجنس چیف عبداللہ سینوسی کا تعلق ہے تو وہ اب تک زندہ ہیں اور لیبیا میں رہ رہے ہیں۔

لاکربی کیس میں ان کے کٹہرے میں کھڑے ہونے کے امکانات کم ہیں، لیکن اس کیس میں غیر متوقع موڑ آنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔

35 برس بعد بھی اس کیس میں ابھی بہت سے نئے باب کھلنا باقی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ