لاپتہ عمر رسیدہ والد کی تلاش: ’میرے والد کو جب نئی ساتھی ملی تو وہ میری زندگی سے غائب ہو گئے‘
،تصویر کا ذریعہCAROLYN STEPHENS
2010 میں آرجنٹینا میں کیرولن اور ونسنٹ سٹیفینز کی کھینچی گئی تصویر
- مصنف, سو مچل اور بین ملن
- عہدہ, بی بی سی نیوز
کیرولن سٹیفنز کے عمر رسیدہ والد کو جب ایک نئی ساتھی ملیں تو اُنھوں نے انھیں اپنے والد سے رابطہ کرنے سے روک دیا۔ اس کے بعد وہ ان کی زندگی سے غائب ہی ہو گئے۔
سنہ 2012 میں کیرولن کے 78 سالہ والد عمر رسیدہ لوگوں کے لیے چھٹیوں کے مخصوص پیکج پر قبرض گئے تھے۔
ونسنٹ سٹیفنز ایک کامیاب الیکٹریکل انجینیئر تھے اور اب ریٹائر ہو چکے تھے اور ان کی اہلیہ بھی وفات پا چکی تھیں۔
اپنی چھٹیوں کے دوران ان کی 75 سالہ آئرس کے ساتھ دوستی ہوئی اور واپس آ کر انھوں نے ان کی ملاقات اپنی بیٹی کیرولن سے کروائی۔
کیرولن ان کی واحد اولاد تھی اور وہ جلد ہی اس نئے رشتے سے پریشان ہونے لگی تھیں۔
سنہ 2014 میں ونسنٹ نے قصبے میں اپنا وہ گھر بیچ دیا جس میں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد سے رہ رہے تھے اور آئرس کے قریب رہنے کے لیے اس جگہ سے 30 میل دور انھوں نے ایک نیا گھر خرید لیا۔
کیرولن کو شک تھا کہ آئرس ان کے والد کو نہ صرف ان کے اہلِخانہ سے دور کرنا چاہ رہی ہیں بلکہ وہ انھیں ان کے دوستوں سے بھی دور کرنا چاہتی ہیں جن کے ساتھ ان کے والد کے کئی سال پرانے مراسم ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میرے والد کے لیے کافی پریشان کن تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ وہ میرے والد پر چیخ رہی تھیں کہ وہ مجھ سے پیار نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا ظاہر ہے میں کرتا ہوں وہ میری بیٹی ہے۔‘
ونسنٹ نے اپنی بیٹی کو بتایا کہ انھیں سمجھ نہیں آتی کہ آئرس اور ان کی آپس میں کیوں نہیں بنتی۔
ونسنٹ کے برادرِ نسبتی برائن کہتے ہیں کہ شروع میں ونسنٹ آئرس کے ساتھ خوش تھے لیکن برائن کو یہ دیکھ کر تشویش ہونا شروع ہو گئی کہ کیسے کیرولن کو ونسنٹ کی زندگی سے نکالا جا رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وہ اپنی بیٹی سے بہت پیار کرتے تھے۔ تو مجھے نہیں پتا کہ انھیں کیسا لگا جب ان کا رابطہ ختم ہو گیا، لیکن میں نے دیکھا تھا کہ کیرولن اس بارے میں کافی پریشان تھیں۔‘
ونسنٹ کی سالی شیلا کے بھی آئرس کے متعلق مثبت خیالات نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’وہ زیادہ آسانی سے گھلتی ملتی نہیں تھیں اور مجھے نہیں پتا کہ آیا وہ (ونسنٹ کے اہل خانہ) کو بطور حریف دیکھتی تھیں۔ لیکن لگتا تھا کہ وہ کیرولن کا اپنے والد کے ساتھ رشتے سے متعلق حسد کا شکار تھیں۔‘
کیرولن اپنے والد کی بگڑتی ہوئی ذہنی حالت کے متعلق بھی کافی پریشان تھیں کونکہ وہ ڈیمنشیا کی ابتدائی علامات ظاہر کر رہے تھے۔
،تصویر کا ذریعہCAROLYN STEPHENS
برائن اور ونسنٹ کی 2017 کی تصویر
’میرے والد کی طبیعت مزید خراب ہو رہی تھی۔ وہ گاڑی کی انشورنس کروانا بھول رہے تھے، وہ اپنی اپوائنٹمنٹس پر بھی نہیں جا رہے تھے۔‘
سنہ 2018 میں کیرولن اپنے والد کے ہمراہ ڈاکٹر کے پاس گئیں تھیں جہاں تجزیہ کیا گیا کہ ان کی ذہنی حالت خراب ہونا شروع ہو گئی ہے۔
ٹیسٹ مکمل طور پر اس کی تشخیص نہیں کر رہے تھے لیکن تشویش کی وجوہات تھیں اس لیے ڈاکٹر نے تجویز دی کہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے لیکن اس کے بعد ونسنٹ اپنی دوسری اپائنٹمنٹ کے لیے حاضر نہیں ہوئے اور اس کے بعد کی اپاائنٹمنٹس منسوخ ہو گئیں۔
اس موضوع کے ماہر ڈاکٹر جیمز وارنر کا کہنا ہے کہ یہ کافی عام مسئلہ ہے۔
وہ کہتے ہیں ’ڈیمنشیا کے شکار لوگوں کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ انھیں ڈیمنشیا ہے۔ تو وہ ڈاکٹر کے پاس جا کر یہ نہیں کہیں گے کہ ان میں کوئی مسئلہ ہے۔‘
اس کے بعد ہونے والے واقعات نے کیرولن کو مزید پریشان کر دیا تھا۔
اپنی چھوڑی گئی اپائنٹمنٹ کے اگلے ہی دن ونسنٹ آئرس کے ساتھ ان کے گھر میں رہنے لگے اور اس کے کچھ ہفتے بعد آئرس انھیں اپنے ساتھ رجسٹر آفس شادی کرنے کے لیے لے گئیں۔
تاہم شادی نہیں ہو سکی کیونکہ رجسٹرار ونسنٹ کی ذہنی صورتحال کے متعلق پریشان تھا۔
کیرولن کہتی ہیں ’وہ اپنے گھر کے پتے، اپنی دلہن کی تاریخ پیدائش اور ان کی شادی کب ہے جیسے عام سوالوں کے جواب بھی نہیں دے پا رہے تھے۔‘
اسی ہفتے کیرولن کو اطلاع ملی کہ آئرس کو ونسنٹ کا مختارنامہ مل گیا ہے۔ اب وہ ان کی جگہ ان کے مالی اور صحت کے متعلق فیصلے کر سکتی ہیں۔
،تصویر کا ذریعہCAROLYN STEPHENS
ڈاکٹر جیمز کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص جو کسی دوسرے کو اپنا مختار بناتا ہے اس کے پاس اتنی ذہنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ سمجھ سکے کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں اور ان سے زبردستی مختارنامے پر دستخط نہ کروائے جانے چاہییں لیکن اس نظام کی زیادتی ہوتی ہے۔‘
’میرے پاس ایک کیس آیا تھا جس میں مجھے کہا گیا تھا کہ میں ایک شخص کی ذہنی صلاحیت کا تجزیہ کروں کہ کیا وہ ایک مختارنامے پر دستخط کر سکتا ہے یا نہیں۔
’میرا نتیجہ یہ تھا کہ اس شخص میں اتنی ذہنی صلاحیت نہیں تھی۔ ان کے اہل خانہ نے کہا کوئی مسئلہ نہیں ہم کسی اور سے دستخط کروا لیں گے۔‘
کچھ ہی دنوں میں ونسنٹ کا گھر برائے فروخت ہو گیا۔ لیکن حالات اس سے بھی برے ہونے والے تھے اور کیرولن اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ ایسا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
آئرس نے پولیس میں کیرولن کے خلاف شکایت کر دی کے وہ ونسنٹ کو حراساں کر رہی ہیں اور وہ اپنی بیٹی سے کسی قسم کا رابطہ نہیں چاہتے۔
کیرولن کہتی ہیں کہ ’پولیس نے مجھے کہا کہ میں اپنے والد سے رابطہ نہیں کر سکتی کیونکہ میں ان کے ساتھ برا سلوک روا رکھتی ہوں۔ میں نے انھیں واپس کال کی اور کہا کہ کیا وہ مجھے بتا سکتے ہیں کہ میں نے کیا کیا ہے؟۔۔۔ وہ نہیں بتا سکے۔‘
کیرولن اپنے والد کے لیے پریشان تھیں لیکن پولیس کی کال اور مزید کارروائی کی دھمکی کی وجہ سے وہ انھیں کال کرنے سے بھی گھبرا گئیں۔
سال 2019 کے اوائل میں انھیں اپنے والد کی طرف سے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں انھوں نے کیرولن کو بتایا کہ وہ گر گئے تھے جس کے بعد وہ ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ اس حادثے کے بارے میں نہ ہی کیرولن اور نہ ہی کسی دوسرے رشتہ دار کو اطلاع دی گئی تھی۔
جب کیرولن ہسپتال میں ونسنٹ سے ملنے گئیں تو انھوں نے خود دیکھا کہ آئرس ان کے والد کو کہہ رہی تھیں کہ انھیں یا تو آئرس کو چننا پڑے گا یا اپنے اہل خانہ کو۔
،تصویر کا ذریعہEMMA LYNCH/BBC
کیرولن سٹیفنز بریٹش لائبریری میں جہاں انھوں نے اپنے والد کا نام رجسٹری میں ڈھونڈا
اس کے کچھ عرصے بعد کیرولن کو بتایا گیا کہ ہسپتال میں ڈمینشیا کی تشخیص کے باوجود ان کے والد نے جی ڈی پی آر فارم پر دستخط کر کے کیرولن تک ان کے متعلق کسی قسم کی معلومات پہنچانے پر پابندی عائد کر دی۔
اس واقعے کے چند مہینوں بعد کیرولن کو معلوم ہوا کہ ان کے والد کا گھر فروخت ہو چکا ہے اور اس میں سے ان کی چیزیں اٹھا لی گئی ہیں۔
آنے والے کچھ سالوں میں کیرولن کے خاندان اور دوستوں نے آئرس کے گھر ونسنٹ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ متعدد بار انھیں کہا گیا کہ ونسنٹ گھر سے باہر تھے، سو رہے تھے یا وہ ان سے بات نہیں کرنا چاہتے تھے اور اس کے بعد فون بند کر دیا جاتا تھا۔
کیرولن کہتی ہیں کہ ’ہم اس امید کے ساتھ کہ وہ ان تک پہنچ جائیں گے ان کو برتھ ڈے کارڈز اور کرسمس کارڈز بھیجتے تھے۔ اور ہمیں بعد میں پتا چلا کہ یہ ان تک کبھی نہیں پہنچے۔ انھیں اس بارے میں بالکل نہیں پتا تھا کہ لوگ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
تقریباً چار سالوں تک کیرولن نے نہ اپنے والد کو دیکھا اور نہ ان سے بات کر سکیں، اور اس دوران ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا ان کے والد زندہ بھی ہیں یا وفات پا چکے ہیں۔
مئی 2022 میں کیرولن کو معلوم ہوا کہ آئرس کی وفات ہو چکی ہے۔ کیرولن کے خاندان نے آئرس کے اہل خانہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ ونسنٹ کہا ہیں لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔
جب رجسٹرار نے اس بات کی تصدیق کی کہ آئرس کی وفات ہو گئی ہے تو کیرولن نے دیکھا کہ دستاویز میں یہ نہیں لکھا کہ ان کے والد ان کے پتے پر ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ لہذا اب یہ سوچ کر وہ پریشان ہو گئیں کہ آخر ان کے والد ہیں کہاں؟
شیلا نے ایک بار پھر آئرس کے گھر فون کیا وہاں ایک آدمی نے فون رکھنے سے پہلے انھیں کہا کہ ’وہ ان کی مدد نہیں کر سکتے۔‘
ونسنٹ کے خاندان نے برطانیہ میں لاپتہ افراد پر کام کرنے والی پولیس کے یونٹ کو اس متعلق اطلاع دی اور اس کے ساتھ کیرولن نے اپنی تحقیق بھی شروع کر دی۔
کیرولن اس امید سے ہر تین مہینوں بعد وفات پا جانے والوں کی قومی فہرست دیکھتی تھیں کہ اس میں ان کے والد کا نام ہو گا۔
وہ کہتی ہیں ’یہ کافی خوفناک تھا، لیکن مجھے اپنی کھوج جاری رکھنی تھی۔ مجھے یہ جاننا تھا کہ کیا میرے والد وفات پا چکے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتی تھی کیونکہ کم از کم اس سے میرے لیے معاملے کا اختتام ہو جائے گا۔‘
کیرولن الیکشن کی رجسٹری میں ان کا نام ڈھونڈنے لگیں لیکن انٹرنیٹ پر موجود ریجسٹری میں انھیں ان کا نام نہیں ملا لہذا وہ زیادہ تفصیلات والی ریجسٹری کے لیے لندن کی بریٹش لائبریری پہنچ گئیں۔
کیرولن اور ان کے خاوند نورفک میں موجود سب لوگوں کے نام اور پتے دیکھنے لگے۔ یہ وہ کاؤنٹی ہے جس میں ونسنٹ آخری دفعہ دیکھے گئے تھے یہاں 2022 میں سات لاکھ ووٹرز تھے لہذا یہ آسان کام نہیں تھا۔
،تصویر کا ذریعہCAROLYN STEPHENS
جون 2023 میں ونسنٹ سٹیفنز کی وفات ہو گئی
ایک ہفتے تک انھوں نے ہر صفحے کو دیکھا اور آخر کار کیرولن کو اپنے والد کا نام مل گیا، ’وہ ایک چھوٹے کیئر ہوم‘ میں تھے۔
کیرولن کہتی ہیں وہ ان کی زندگی کا سب سے اچھا لمحہ تھا ’لائبریریئن نے مجھے خاموش رہنے کا کہا کیونکہ میں بھاگتے ہوئے بول رہی تھی ’میں نے انھیں ڈھونڈ لیا، میں نے ڈھونڈ لیا۔‘
انھیں پتا چلا کہ 2020 میں کورونا کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن شروع ہونے سے کچھ دن پہلے ہی ونسنٹ کو ایک کیئر ہوم میں ڈالا گیا اور بعد میں ایک اور کیئر ہوم میں انھیں لے کر جایا گیا۔ جب کیرولن اپنے والد کے پاس پہنچیں تو انھوں نے دیکھا کہ ان کے کمرے میں مشکلوں سے ہی کوئی ان کی ذاتی چیز تھی اور عملے نے انھیں بتایا کہ بہت ہی کم لوگ ونسنٹ کو وہاں ملنے آئے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ان کے گھر سے لی گئی ایک واحد پینٹنگ رہ گئی تھی اور اہلخانہ کی ایک تصویر بھی نہیں تھی۔ کیئر ہوم کے عملے کو یہ معلوم نہیں تھا کہ انھیں اوپرا موسیقی پسند تھی، انھیں یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ان کی بیٹی تھی اور بہت سارے دوست تھے جو ان سے بہت پیار کرتے تھے اور ان کے لیے پریشان تھے۔‘
جب ان کے والد نے انھیں دیکھا تو انھوں نے اپنے بازو ہوا میں لہراتے ہوئے کہا ’سرپرائز!‘ وہ بس یہی کہہ سکتے تھے۔ ان کا ڈیمنشیا اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ کسی اور طریقے سے بات چیت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن یہ کیرولن کے لیے کافی تھا جو دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچیں اور انھیں اپنے گلے سے لگا لیا۔
’میں اس لمحے کو کبھی نہیں بھول سکتی۔ میں واقعی گھبرائی ہوئی تھی کیونکہ میں نے سوچا کہ شاید وہ مجھے اس سارے عرصے کے بعد پہچان نہ پائیں گے لیکن وہ اپنے آپ کو مسکرانے سے نہیں روک سکے، ان کی مسکراہٹ بھرپور تھی۔‘
کیرولن اب بھی سمجھنا چاہ رہی ہیں کہ ان سالوں میں کیا ہوا۔ سنہ 2012 میں ونسنٹ کے پاس 50 ہزار پاؤنڈ اور ڈھائی لاکھ پاؤنڈز کی مالیت کا گھر تھا۔ 2022 میں جب وہ ملے تو ان کے پاس کچھ ہی سامان تھا اور بینک میں ان کے پاس صرف تقریباً 83 ہزار پاؤنڈ تھے۔
جو کچھ کیرولن کے والد کے ساتھ ہوا یہ دیکھتے ہوئے ان کا ماننا ہے کہ کمزور عمر رسیدہ لوگوں کے تحفظ لے لیے بہتر قانون کی ضرورت ہے۔
اپنی بیٹی کے ساتھ ایک بار پھر ملنے کے چھ مہینوں بعد اس سال جون میں ونسنٹ کی وفات ہو گئی۔
کیرولن کہتی ہیں کہ جہاں ان کی والدہ دفن ہیں وہاں ہی انھوں نے ونسنٹ کی آخری رسومات سادگی سے ادا کیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا لگ رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں آخری پانچ سال جیسے مٹ ہی گئے۔‘
کیرولن کہتی ہیں کہ لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ ان سارے سالوں میں انھوں نے اپنے والد کو ڈھونڈنے کا کام کیسے جاری رکھا۔
’میں نہیں چاہتی تھی کہ جب ان کی وفات ہو تو وہ سوچیں کہ میں ان سے ملاقات نہیں کرنا چاہتی اور ان کا خیال نہیں کرتی۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی میرا خیال رکھا اور میں کبھی یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ سوچیں کہ میں نے انھیں چھوڑ دیا ہے۔‘
بی بی سی نے تبصرے کے لیے آئرس کے خاندان سے رابطہ کیا ہے لیکن اب تک انھوں نے جواب نہیں دیا۔
Comments are closed.