قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے کرمنل لاء ترمیمی بل منظور کر لیا، کمیٹی کے چیئرمین نے بل پر ووٹنگ کرائی جس پر کمیٹی کے 10 میں سے 4 ارکان نے بل کی مخالفت کی۔
راجہ خرم شہزاد نواز کی زیرِصدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا جس میں رکنِ قومی اسمبلی امجد علی خان کی طرف سے کرمنل لاء ترمیمی بل پیش کیا گیا جس پر غور کیا گیا۔
چیئرمین کمیٹی نے حکومت کی حمایت کر دی، جس کے بعد کمیٹی میں بل منظور ہو گیا۔
وزارتِ داخلہ کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارتِ داخلہ مجوزہ قانون کی توثیق کرتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ اسمبلی امجد علی خان نے کہا کہ مجوزہ بل کے مطابق افواجِ پاکستان کا تمسخر اڑانے پر سول عدالت میں کیس چلے گا، قانون میں 500 اے کی شمولیت کسی دوسرے قانون سے متصادم نہیں، ملک میں ففتھ جنریشن وار ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست اپنے قوانین پر خود عمل درآمد کراتی ہے، کے پی حکومت نے مجوزہ قانون پر کسی دلیل کے بغیر اعتراض کیا ہے، فاٹا میں سرحد سے پار فوج اور اداروں کے خلاف بات ہوتی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما آغا رفیع اللّٰہ نے کہا کہ یہ قانون سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہو گا، اداروں پر نیک نیتی سے کی گئی تنقید بھی اس قانون کے دائرے میں آئے گی، آپ آزادی رائے پر قدغن لگا رہے ہیں، ہم کیوں مقدس گائے بنا رہے ہیں؟ آپ پارلیمنٹ اور ہمارے اداروں سے زیادتی کر رہے ہیں، پاکستان کے 22 کروڑ عوام میں 2 فیصد لوگ بھی اداروں کے خلاف نہیں، ہم اپنے اداروں کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔
مسلم لیگ نون کی رہنما مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کے شہری کیوں پاکستانی اداروں کو جان بوجھ کر اشتعال دلائیں گے؟ اس بل میں ادارے کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے۔
امجد علی خان نے کہا کہ احتجاج کرتا ہوں کہ میرے بارے میں کہا گیا کہ یہ ذاتی تشہیر کیلئے قانون تجویز کیا، فوج کے مسائل کے حل کیلئے ہمیں کچھ کرنا چاہیئے۔
مریم اورنگزیب نے سوال کیا کہ اس قانون کو متعارف کروایا ہی کیوں جا رہا ہے؟ اس قانون کو متعارف کروانا یہ بتانا ہے کہ اداروں کو اشتعال دلایا جا رہا ہے۔
وزارتِ قانون کے نمائندے نے کہا کہ آرٹیکل 19 آزادیٔ اظہار سے متعلق ہے، مگر اسے قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے، سیکشن 500 میں ہتکِ عزت کی کارروائی ہے، اس مجوزہ قانون کے متوازی غداری کا کیس ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومت کرتی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے نمائندے نے کہا کہ وزارتِ داخلہ اس مجوزہ قانون کی توثیق کرتی ہے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ یہ بہت اہم بات ہو رہی ہے، وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ ایک پیج پر نہیں، اس بات کا موازنہ ہونا چاہیئے کہ آئین و قانون میں مسلح افواج کو تحفظ دینے والے قوانین کون سے ہیں، اگر آئین و قانون میں پہلے سے قوانین موجود ہیں تو یہ قانون اداروں کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی۔
امجد علی خان نے کہا کہ یہ قانون کسی کے خلاف نہیں لایا جا رہا۔
پرویز ملک نے کہا کہ ہم اس قانون کی مخالفت نہیں کرتے لیکن اس کو فیئر کرنا چاہتے ہیں۔
مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ یہ قانون بیرونِ ممالک بیٹھے لوگوں پر لاگو نہیں ہوگا، ممبر کنفیوژ ہیں، یہ قانون اس ملک کے شہریوں پر نافذ ہونا ہے۔
چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز نے سوال کیا کہ آج اس بل کو فارغ کرنا ہے یا اس کو مسترد کرنا ہے؟
رکنِ کمیٹی ندیم عباس نے کہا کہ 3 صوبوں نے اس قانون پر جواب نہیں دیا، 1 نے مخالفت کی، وزارتِ داخلہ نے متعلقہ اداروں سے بھی پوچھا کہ شکایت کنندہ کون ہوگا۔
امجد علی خان نے یہ بھی کہا کہ مجھ سے زیادہ ملک وفوج کا کوئی وفادار نہیں، اس پر اتفاقِ رائے ہونا چاہیئے، ہم اپنے ہی اداروں کو خود متنازع بنا رہے ہیں۔
Comments are closed.