جمعہ9؍ شوال المکرم 1442ھ21؍مئی 2021ء

فوجی بغاوت کے بعد آنگ سان سوچی کی پہلی پیشی

میانمار میں فوجی بغاوت: پولیس کی مظاہرین کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں شدت، ہلاکتوں میں اضافہ

میانمار

اتوار کو میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر پولیس کی پرتشدد کارروائی میں شدت آگئی ہے اور پولیس نے مظاہرین پر ربٹر کی گولیوں اور آنسو گیس کے شیلز کا استعمال کیا ہے۔

میانمار کے شہروں ینگون، منڈالے اور داوائے میں پولیس کارروائی کے باوجود فوجی بغاوت مخالف بڑے مظاہروں ہو رہے ہیں۔

ان مظاہروں میں ہلاکتوں کی بھی اطلاع ہے تاہم ان کی تصدیق ہونا کچھ مشکل ہے۔

میانمار میں یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت، جس میں آن سانگ سوچی سمیت ملک کی اعلیٰ منتخب سیاسی قیادت کو اقتدار سے معزول کر کے زیر حراست رکھا گیا ہے، سے بڑے پیمانے پر مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

اتوار کو ملک کے سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین پولیس کی لاٹھی چارج سے بچنے کے لیے دوڑ رہے ہیں، شاہراؤں پر عارضی رکاوٹیں لگا دی گئی ہیں اور متعدد افراد کو خون میں لت پت لے جایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

سنیچر کے روز سے پوری شدت سے شروع ہونے والے پولیس کریک ڈاؤن میں اس وقت توسیع کی گئی تھی، جب فوجی حکمرانوں نے ملک میں بڑے پیمانے پر، پرامن سول نافرمانی مہم کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم اس کے خاتمے کا ابھی تک کوئی امکان نہیں دکھائی دیتا۔

میانمار میں کیا ہو رہا ہے؟

میانمار

ملک کے سب سے بڑے شہر ینگون میں پولیس نے مظاہرین کو آنسو گیس اور سٹن گرینیڈز کا استعمال کر کے منشتر کرنے پر ناکامی کے بعد گولیاں چلائیں ہیں۔ سوشل میڈیا پر آنے والی ویڈیوز میں شہر کی سڑکوں پر خون دیکھا جا سکتا ہے جبکہ زخمیوں کو ساتھی مظاہرین کی مدد سے لے جایا جا رہا ہے۔

ایک ڈاکٹر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ایک شخص سینے میں گولی لگنے کے باعث ہسپتال میں دم توڑ گیا۔مظاہرین اب بھی سڑکوں پر موجود ہیں اور انھوں نےکچھ رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔

احتجاج میں شریک نیان ون شین نے روئیٹر کو بتایا کہ ‘اگر وہ ہمیں دبائیں گے ہم پھر کھڑے ہو جائیں گے، اگر وہ ہم پر حملہ کریں گے تو ہم اپنا دفاع کریں گے ہمیں کبھی فوجوں بوٹوں کے آگے نہیں جھکیں گے۔’

مظاہرے میں شریک ایمی کیاؤ نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ‘ جیسے ہی ہم وہاں پہچنے پولیس نے ہم پر گولیاں چلانی شروع کر دیں، انھوں نے ہمیں ایک بار بھی خبردار نہیں کیا، کچھ لوگ زخمی ہو گئے ہیں اور چند استاد اب بھی ہمسایوں کے گھروں میں چھپے ہوئے ہیں۔’

میانمار میں فوجی بغاوت سے آنگ سان سوچی کی سویلین حکومت گِرا دی گئی تھی

میانمار میں فوجی بغاوت سے آنگ سان سوچی کی سویلین حکومت گِرا دی گئی تھی

چند مظاہرین کو پولیس گرفتار کر کے بسوں میں ساتھ لے گئی ہے۔

میانمار کے جنوب مشرقی شہر دیوائے میں سکیورٹی فورسز نے ایک ریلی پر دھاوا بولا ہے۔ یہاں پولیس کی جانب سے گولیاں چلانے کی اطلاعات ہیں۔ دی دیوائے واچ میڈیا کا کہنا ہے کہ اس جھڑپ میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

ایک ایمرجنسی ورکر نے روئٹرز کو بتایا کہ تین افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔

پولیس منڈالے میں بھی بڑے پیمانے پر کارروائی کر رہی ہے، جہاں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن اور ہوائی فائرنگ کی ہے۔

ملک کے شمال مشرقی شہر لاشو میں بھی فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔

ملک میں مظاہروں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہونے سے لے کر اب تک گرفتار ہونے والے افراد کی تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ سیاسی قیدیوں کی نگرانی کرنے والی تنظیم نے یہ تعداد 850 بتائی ہے لیکن لگتا ہے اس ویک اینڈ پر سینکڑوں مزید افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

آنگ سانگ سوچی کہاں ہیں؟

سوچی

میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو فوجی بغاوت کے وقت حراست میں لیے جانے کے بعد سے عوامی سطح پر نہیں دیکھا گیا۔ یکم فروری کو انھیں میانمار کے دارالحکومت نیپئیتا میں فوجی بغاوت کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔

ان کی حامیوں اور بین الاقوامی برادری نے ان کی رہائی اور گذشتہ برس نومبر میں ہونے والے انتخابات کے نتائج بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جن میں ان کی جماعت نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔

آنگ سوچی کو پیر کے روز غیر رجسٹر واکی ٹاکی رکھنے اور کورونا وائرس کے قوانین توڑنے کے الزام میں عدالتی کارروائی کا بھی سامنا کرنا ہے لیکن ان کی وکیل کا کہنا ہے کہ ان کا اب تک اس سے کوئی روابطہ نہیں ہو سکا ہے۔

فوجی رہنماؤں نے اقتدار پر قبضے کو جواز دینے کے لیے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھوکا دہی اور فراڈ کے الزامات لگائے ہیں تاہم ملک کی الیکٹرول کمیٹی نے ان دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔

میانمار میں فوجی بغاوت کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی ہے اور اس پر پابندی بھی عائد کی گئی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.