آنگ سان سوچی: فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے بیدخل ہونے والی میانمار کی رہنما کو واکی ٹاکیز رکھنے پر چار سال قید کی سزا
میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی، جنھیں ملک میں فوجی بغاوت کے بعد حراست میں لے لیا گیا تھا، کو مزید چار برس قید کی سزا سُنا دی گئی ہے۔
اُن کو غیر قانونی طریقے سے ملک میں واکی ٹاکیز درآمد کرنے، انھیں اپنی ملکیت میں رکھنے اور ساتھ ساتھ کورونا کے حفاظتی قوانین کی خلاف وزری پر نئی سزا سُنائی گئی ہے۔
واضح رہے کہ آنگ سان سوچی کے خلاف فوجی حکومت نے مختلف نوعیت کے تقریباً ایک درجن مقدمات درج کر رکھے ہیں اور گذشتہ سال دسمبر میں انھیں پہلی بار ایک کیس میں دو سال قید کی سزا سُنائی جا چکی ہے۔ چار سال کی مزید قید کے بعد اب ان کو سنائی جانے والی قید سزا کی سزا کی مجموعی مدت چھ سال ہو چکی ہے۔
آنگ سان سوچی نے اپنے اوپر عائد تمام الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔
آنگ سان سوچی گذشتہ برس فروری میں ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے اپنے گھر پر ہی نظربند ہیں۔ فوج نے نہ صرف ان کی سویلین حکومت کا تختہ الٹا تھا بلکہ اُن کی جماعت کے متعدد رہنماؤں کو بھی حراست میں لے رکھا ہے۔
مقدمے کی خفیہ کارروائی پر اٹھنے والے سوالات
خیال کیا جا رہا ہے کہ آنگ سان سوچی کو جس مقدمے میں سزا سنائی گئی ہے اس کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ان کی گرفتاری کے دن میانمار فوج کے اہکاروں نے جنرل منگ آنگ کی سربراہی میں اُن کے گھر کی تلاشی لی تھی اور اسی دوران ان کے گھر سے واکی ٹاکیز سمیت چند اشیا برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
میانمار کے دارالحکومت میں سوموار کے دن آنگ سان سوچی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران میڈیا پر پابندی عائد تھی اور اُن کے وکلا کو بھی میڈیا اور عوام سے اس بارے میں بات چیت کی اجازت نہیں تھی۔
اس سے پہلے دسمبر میں آنگ سان سوچی کو لوگوں کو حکومت کے خلاف بغاوت پر اُکسانے اور کورونا وائرس سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی کے الزامات میں سزا سُنائی گئی تھی۔ اس مقدمے کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی چیف مشیل بیکلیٹ نے ’جھوٹ پر مبنی‘ قرار دیا تھا۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی عدالتی کارروائی پر ردعمل دیتے ہوئے بیان جاری کیا تھا کہ ’بوگس الزامات پر خفیہ عدالتی کارروائی کی سرکس کا مقصد صرف اور صرف آنگ سان سوچی کو غیر معینہ مدت تک جیل میں رکھنا ہے۔‘
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈائریکٹر فل روبرٹسن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں فوجی حکومت پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’کینگرو عدالت میں سیاسی بنیادوں پر عائد الزامات پر سزاؤں کے پروانے حاصل کی گئے‘ اور ’آنگ سان سوچی سمیت سڑک پر نافرمانی کی تحریک کے کارکنوں کے انسانی حقوق کو روند ڈالا گیا۔‘
یہ بھی پڑھیے
فوجی بغاوت اور آنگ سان سوچی کی مشکلات
واضح رہے کہ میانمار میں گذشتہ سال فروری میں فوج کی جانب سے حکومت پر قبضے سے قبل آنگ سان سوچی کی جماعت نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی نومبر 2020 کے انتخابات نمایاں برتری سے جیت چکی تھی۔
فوج نے یہ الزام عائد کرتے ہوئے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ تاہم آزاد مبصرین کی رائے میں یہ انتخابات بڑی حد تک صاف اور شفاف تھے۔
اس فوجی بغاوت کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سلسلہ جاری ہو گیا اور میانمار کی فوج نے جمہور نواز مظاہرین، کارکنان اور صحافیوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔
آنگ سان سوچی سمیت فوجی حکومت میانمار میں تقریبا 10600 افراد کو گرفتار کر چکی ہے جب کہ اب تک 1303 افراد جھڑپوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پرزنرز کے مانیٹرنگ گروپ کے جاری کردہ ہیں۔
میانمار میں آنگ سان سوچی کے خلاف تازہ ترین سزا کے بعد اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر انھیں ان تمام مقدمات میں سزا سُنائی گئی جو ان پر درج ہیں تو انھیں عمر قید بھی ہو سکتی ہے۔
اس سے قبل میانمار کی نئی ’نیشنل یونٹی گورنمنٹ‘ میں شامل جمہوریت پسند رہنماؤں کے ایک گروہ کے ترجمان ڈاکٹر ساسا نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ آنگ سان سوچی ابھی مشکلات سے دوچار ہیں۔ ڈاکٹر ساسا کا کہنا تھا کہ ’ان (آنگ سان) کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ فوجی جرنیل ان کے لیے 104 برس کی جیل کی سزا سنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ جیل میں ہی مر جائیں۔‘
Comments are closed.