سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ 2005ء سے متعلق کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر سماعت کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ 2005ء کا سیکشن 3 اے 2011ء میں درست قرار دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ 2013ء میں سندھ ہائی کورٹ نے اسی نوٹیفکیشن کو غیرآئینی کیسے قرار دیا؟ ہائی کورٹ سپریم کورٹ کا فیصلہ کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے؟ سندھ ہائی کورٹ نے تو سپریم کورٹ کے فیصلےکو ہی نظر انداز کر دیا۔
وکیل خالد جاوید خان نے عدالت میں کہا کہ کیس کی سماعت میں التواء چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر خالد جاوید سے کہا کہ آپ بار بار بیرسٹر فروغ نسیم کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ فروغ نسیم کی جانب سے التواء کی درخواست دائر کی گئی ہے، وہ اپنی التواء کی درخواست میں کہتے ہیں کہ بیمار ہوں ڈیڑھ ماہ بعد سماعت کی جائے، یہ انتہائی نامعقول درخواست ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ایک سینئر وکیل کا رویہ ہے جنہیں معلوم ہے کہ وہ ڈیڑھ ماہ بعد تندرست ہو جائیں گے، جیسی درخواست فروغ نسیم نے دائر کی یہ پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
یاد رہے کہ ایکسائز ڈیوٹی ایکٹ 2005ء میں سیکشن 3 اے کو2007ء میں شامل کیا گیا تھا، صدرِ مملکت کی منظوری کے بغیر ہی سیکشن 3 اے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا تھا۔
صدر کی منظوری کے بغیر نوٹیفکیشن کا اجراء سندھ اور لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن درست قرار دیا تھا جسے سپریم کورٹ نے بھی 2011ء میں برقرار رکھا۔
2013ء میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس منیب اختر نے نوٹیفکیشن کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔
Comments are closed.