سابق وزیرِ قانون فروغ نسیم نے وکالت کا لائسنس بحال کرنے کی درخواست دائر کر دی جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وکلاء انرولمنٹ کمیٹی کی سربراہی سے دستبردار ہو گئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دستبردار ہونے سے پاکستان بار کونسل کو خط لکھ کر آگاہ کر دیا۔
دوسری جانب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ان کے سیکریٹری نے پاکستان بار کونسل کو خط ارسال کیا ہے۔
سابق وزیرِ قانون فروغ نسیم نے لائسنس بحالی کے لیے پاکستان بار کونسل میں درخواست دے رکھی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ فروغ نسیم کی لائسنس بحالی کی درخواست کے بعد دستبردار ہوئے۔
فروغ نسیم نے لائسنس بحالی میں تاخیر پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر جانبداری کا الزام لگایا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے پاکستان بار کونسل کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ فروغ نسیم کی لائسنس کی بحالی کی درخواست جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے رکھی ہی نہیں گئی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ انرولمنٹ کمیٹی کے کسی ممبر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کوئی سفارش نہیں کی، فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بطور چیئرمین وکلاء انرولمنٹ کمیٹی جانبداری کا الزام لگایا۔
خط کے مطابق فروغ نسیم نے الزام عائد کیا کہ 8 اپریل کو لائسنس بحالی کی درخواست دی تاہم بدنیتی کے باعث منظور نہ کی گئی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ الزام لگایا گیا کہ انرولمنٹ کمیٹی ممبران نے درخواست منظور کرنےکی سفارش کی مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ٹس سے مس نہ ہوئے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکلاء انرولمنٹ کمیٹی میں دن رات کام کیا، فروغ نسیم نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بے بنیاد اور من گھڑت الزامات لگائے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ فروغ نسیم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس کیس میں شکست تسلیم کرنے سے انکاری ہیں، فروغ نسیم ایک شکست خوردہ شخص ہیں۔
Comments are closed.