فرانس کے فوجیوں نے ملک میں خانہ جنگی کی وارننگ کیوں دی؟
فرانس میں تقریباً 75 ہزار افراد نے ایک خط پر دستخط کیے ہیں جس میں ملک میں خانہ جنگی کے خطرے سے خبردار کیا گیا ہے۔
دائیں بازو کے میگزین میں شائع ہونے والے اس خط میں فرانسیسی حکومت پر اسلام پسندی کو ’مراعات‘ دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس خط کو عام لوگوں کی حمایت کے بعد فوجیوں کی جانب سے نام ظاہر نہ کیے بغیر جاری کیا گیا تھا اس میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ ہمارے ملک کی بقا کا سوال ہے۔’
فرانسیسی حکومت نے ریٹائرڈ جرنیلوں کی جانب سے گذشتہ ماہ کے اواخر میں شائع کردہ اسی طرح کے ایک خط کی مذمت کی تھی۔
مسلح افواج کے انچارج وزیر فلورنس پارلی نے اس وقت کہا تھا کہ اُنھیں ایک ایسے قانون کی خلاف ورزی کرنے کی سزا دی جائے گی جس میں ریزرو یا حاضرِ سروس فوجی اہلکاروں کو مذہب اور سیاست پر کھلے عام رائے زنی سے منع کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تازہ ترین خط کا متن اتوار کے روز ویلیرس ایکٹوئیلس نے شائع کیا تھا حالانکہ اس پر دستخط کرنے والوں کی اصل تعداد اور رینک غیر واضح ہیں۔ تاہم ان افراد کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان افراد کو فوج کے سرگرم ارکان کہا جا سکتا ہے۔
یہ خط لکھنے والوں نے اپنے بارے میں بتایا ہے کہ وہ افغانستان اور جمہوریہ وسطی افریقہ میں تعینات ہونے والے اور فرانس میں انسدادِ دہشتگردی آپریشنز میں حصہ لینے والے نوجوان فوجیوں میں سے ہیں۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ‘ان لوگوں نے اپنی زندگیاں اسلامی شدت پسندی سے لڑنے میں گزار دی جسے آپ (فرانسیسی حکومت) یہاں اپنی زمین پر جگہ دے رہے ہیں۔‘
اس خط کے گمنام طور پر موصول ہونے کی وجہ سے یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اس کو لکھنے والوں میں کتنے ایسے لوگ شامل ہیں جو کہ سکیورٹی فورسز سے تعلق رکھتے ہیں۔
تجزیہ، ہیو شوفیلڈ
نامہ نگار پیرس
آن لائن قراردادوں یا پٹیشنز جن میں کسی نے اپنا نام ظاہر نہ کیا ہو، اُنھیں کسی بھی قسم کے ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔
لیکن اس کے باوجود اس بات میں کوئی حیرانگی نہیں کہ فرانس کے حوالے سے اس طرح کی مایوسی فوج میں عام ہے۔
بہت سے فرانسیسی شہری پہلے ہی دہشت گردی، نشے اور اسلامی شدت پسندی جیسے مسائل سے پریشان ہیں تو ایسے میں فوجی، جو کہ اختیارات اور قانون کی بالادستی پر زیادہ یقین رکھتے ہیں، ان کے لیے اس طرح کے نظریات رکھنا کوئی نئی بات نہیں ہونی چاہیے۔
جو بات قابلِ بحث ہے وہ یہ کہ کیا انھیں عوامی طور پر اس بارے میں بات کر کے سیاستدانوں اور فوج کے درمیان موجود لکیر کو دھندلا کر دینا چاہیے تھا؟ فوج میں کئی ایسے لوگ ہوں گے جو اس بارے میں خط تحریر کرنے والوں سے عدم اتفاق کریں گے۔
ان کا تجزیہ اور اس خط میں درج کی گئی تنبیہ اور خانہ جنگی کے خطرے کے موضوع پر بڑی سطح پر بحث بھی ہو سکتی ہے۔ مگر سیاستدانوں پر اس مرض کو روکنے کے لیے ‘اقدام’ کرنے پر زور دینا اور ڈھکے چھپے انداز میں ‘ورنہ’ کی تنبیہ ایسی چیز ہے جس کی فوجی قیادت یقیناً حمایت نہیں کرے گی۔
نئے پیغام میں فرانس کی حکومت کے اس جواب پر تنقید کی گئی ہے جو کہ انھوں نے گشتہ ماہ ایک اور خط کے جواب میں اس کو لکھنے والے ‘بزرگوں‘ کو دیا تھا۔ اس خط کا عنوان تھا ’کیا انھوں نے آپ کے لیے اس لیے جنگ لڑی کہ آپ فرانس کو ایک ناکام ریاست بنا دیں۔‘
اس میں تحریر تھا کہ ’اگر خانہ جنگی ہوتی ہے تو افواج خود امن و امان برقرار رکھیں گی؟ کوئی بھی اس قسم کی صورتحال نہیں چاہتا خاص طور پر ہمارے بزرگ۔ لیکن فرانس میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے اور آپ اس سے بخوبی آگاہ ہیں۔‘
یاد رہے کہ فرانس میں حال ہی میں ایک متنازع قانون سامنے آیا تھا جس کے بارے میں ملک کے صدر نے کہا تھا کہ یہ اسلامی علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
تاہم صدر کو اس کے بعد تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت پر الزام لگایا گیا کہ وہ بلا وجہ اسلام کو نشانہ بنا رہی ہے۔
Comments are closed.