پاکستان میں غیر متعدی امراض سے جاں بحق اور معذور ہوجانے والے افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے اور صرف ذیابطیس کے مرض کے نتیجے میں اس سال چار لاکھ افراد جاں بحق ہو جائیں گے جبکہ ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد ٹانگیں کٹنے کے نتیجے میں معذور ہو سکتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ حکومت غیر متعدی امراض خاص طور پر ذیابطیس اور دل کی بیماریوں سے نمٹنے اور بچاؤ کے لیے بھی نیشنل کمانڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی طرز کے اقدامات اٹھائے اور نوجوان افراد کو دل کی بیماریوں سمیت دیگر غیر متعدی امراض سے مرنے سے بچائے۔
ان خیالات کا اظہار ملکی اور غیر ملکی ماہرین صحت نے پاکستان اینڈوکرائین سوسائٹی کی 19 ویں سالانہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پرپاکستان ڈائبیٹیز پریوینشن پروگرام کی ویب سائٹ کا بھی باضابطہ طور پر افتتاح کیا گیا جب کہ کانفرنس کے دوران مختلف اداروں اور پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے مابین باہمی یاداشت کے معاہدوں پر بھی دستخط کئے گئے۔
کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ابرار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اس وقت غیر متعدی امراض خاص طور پر ذیابطیس، دل کی بیماریوں اور کینسر سمیت گردوں کی بیماریوں کے سیلاب کا خطرہ ہے اور اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں نوجوان افراد میں مرنے اور معذور ہونے کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کی تنظیمیں خاص طور پر پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی مقامی دوا ساز اداروں کے ساتھ مل کر تحقیق اور شعور بیدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جب تک وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کام کے لیے تعاون نہیں کریں گی غیر متعدی امراض سے بچاؤ ممکن نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ذیابطیس اور دل کی بیماریوں پر بھی اتنی ہی توجہ دی جائے جتنی حفاظتی ٹیکہ جات اور متعدی امراض سے بچاؤ کے لیے دی جاتی ہے، پاکستان کے اسپتالوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ بڑھتے ہوئے ہوئے مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تین کروڑ تیس لاکھ ذیابطیس کے مریضوں کے ساتھ پاکستان میں دل کے مرض میں مبتلا افراد، گردوں اور آنکھوں کی بیماریوں کے افراد کی تعداد کروڑوں میں پہنچ جائے گی جس سے نمٹنا کسی کے بس کی بات نہیں رہے گی۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امپیریل کالج لندن ڈائبیٹیز سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر نیاز خان کا کہنا تھا کہ ذیابطیس میں مبتلا افراد کی اوسط عمر باقی لوگوں کے مقابلے میں دس سال کم ہوتی ہے جبکہ ایسے مریضوں میں دل کی بیماریوں کی شرح دگنی ہوجاتی ہے۔
دبئی ڈائبیٹیز سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر حامد فاروقی کا کہنا تھا کہ کورونا وبا کے دوران ٹیکنالوجی کی مدد سے ذیابطیس کے مریضوں کی دیکھ بھال کی گئی جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگوں کی جانیں بچ سکیں ان کا کہنا تھا کہ ٹیلی میڈیسن اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال سے ذیابیطس سمیت دیگر اگر غیر متعدی بیماریوں میں مبتلا افراد کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
کانفرنس سے برطانوی ماہر رچرڈ کوئنٹن سمیت ملکی اور غیر ملکی ماہرین نے خطاب کیا۔ کانفرنس اگلے دو روز تک جاری رہے گی جس کے دوران دنیا بھر سے ماہرین تین غیر متعدی امراض خاص طور پر اینڈوکرائن غدود کی بیماریوں پر اپنے مقالات پیش کریں گے۔
Comments are closed.