غزہ پر بمباری: ’ملبے تلے میرے دو بیٹوں اور چھ ماہ کی بیٹی کی لاشیں ہیں، میرے پاس کوئی نہیں بچا۔۔۔ وہ سب چلے گئے‘
غزہ پر بمباری: ’ملبے تلے میرے دو بیٹوں اور چھ ماہ کی بیٹی کی لاشیں ہیں، میرے پاس کوئی نہیں بچا۔۔۔ وہ سب چلے گئے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
احمد ابو فاؤل ایک زخمی فلسطینی بچے کو لے جا رہے ہیں
- مصنف, مروہ جمال
- عہدہ, غزہ ٹوڈے، بی بی سی نیوز عربی
’میں کیا بات کروں؟ میں کس کے بارے میں بات کروں؟ اپنے خاندان کے 29 شہیدوں کے بارے میں؟ اپنے والد، اپنے بھائیوں، اپنی بیوی اور اپنے بچوں کے بارے میں؟ میرے پاس کوئی نہیں بچا۔۔۔ وہ سب چلے گئے، اب میرے پاس کچھ نہیں بچا سوائے ایک زخمی بیٹی کے۔‘
شمالی غزہ میں ہلال احمر کے ایک طبی عملے کے رکن احمد ابو فاؤل نے بی بی سی کے ساتھ اپنے گفتگو کا آغاز کچھ اس طرح کیا۔
احمد کی زندگی میں پیش آنے والے اس ناقابل یقین واقعے کا آغاز رواں ماہ 12 دسمبر کو ہوا تھا، یہ ایک انسانی المیہ تھا جو اب بھی جاری ہے۔
احمد بتاتے ہیں کہ اُس دن (12 دسمبر) وہ شمالی غزہ کی پٹی میں اپنے روزمرہ کام، یعنی زخمی فلسطینیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے سلسلے میں گھر سے نکلے ہی تھے کہ انھیں اپنے ایک پڑوسی کا وہ ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جس نے اُن کی زندگی تہہ و بالا کر کے رکھ دی۔
احمد کے مطابق ’اس میسج میں لکھا تھا ’انھوں نے آپ کے گھر پر بمباری کی ہے۔۔۔ اور آپ کا سارا خاندان ملبے تلے دب گیا ہے۔‘ یہ میسج پڑھ کر میں گھر کی جانب واپس بھاگا۔ وہاں کا منظر اتنا ہولناک تھا کہ میں اُسے دیکھ کر اس جگہ سکتے کی حالت میں منجمد ہو گیا جہاں میں کھڑا تھا۔ پھر میں وہیں بیٹھ گیا۔ اسی دوران وہاں موجود لوگوں نے اس عمارت سے زندہ بچ جانے والے لوگوں کو نکالنا شروع کیا جہاں میرا گھر تھا۔ وہ بچ جانے والوں کو ایک گدھا گاڑی پر رکھ رہے تھے کیونکہ بمباری کے بعد وہاں ایمبولینس نہیں جا سکتی تھی۔‘
’میرے خاندان کے 28 افراد اب بھی مردہ حالت میں ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور میں اب تک صرف اپنے ایک بیٹے کی تدفین کر پایا ہوں۔۔۔‘
یہ بات بتاتے ہوئے احمد فرط جذبات سے رو پڑے اور انھوں نے اپنی بات میں چند سیکنڈز کا توقف کیا۔
تھوڑی دیر آہ و زاری کے بعد انھوں نے اپنی بات دوبارہ شروع کی ’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔۔۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ گذشتہ 70 دن سے (غزہ پر اسرائیلی بمباری کے آغاز کے بعد سے) میں ہر اس شخص کو طبی امداد فراہم کر رہا ہوں جس نے مجھ سے اس کی درخواست کی یا جسے طبی مدد کی ضرورت تھی۔۔۔ مگر دوسری جانب میں اپنے قریب ترین افراد کی مدد کرنے سے قاصر ہوں۔‘
’میرے جگر کے ٹکڑے ملبے تلے ہیں اور بلڈوزر اور بھاری ملبہ اٹھانے کے لیے درکار ضروری مشینری کی کمی کی وجہ سے میں اپنے اہلخانہ کی لاشوں کو نکالنے اور دفنانے سے قاصر ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جگہ کو گذشتہ کافی دنوں سے اسرائیلی فوج نے گھیرے میں بھی لے رکھا ہے، میں اس کے قریب بھی نہیں جا سکتا اور جیسے ہی میں نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو فوجیوں نے مجھ پر فائرنگ کر دی۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیلی بمباری کے باعث غزہ کی بیشتر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں اور ان عمارتوں کے نیچے کتنے افراد موجود ہو سکتے ہیں اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں
احمد کہتے ہیں کہ ’اُس گھر میں میرے خاندان کے 70 افراد موجود تھے، بہت سے ایسے تھے جو جبلیہ میں بے گھر ہونے کے بعد یہاں پہنچے تھے۔
احمد بتاتے ہیں کہ ان کے گھر میں موجود ان کے خاندان کے چند افراد ایسے تھے جو بمباری کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے تھے اور بے گھر ہونے کے بعد انھی کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ احمد کے مطابق وہ ان زخمیوں کو بھی درد کش ادویات کے علاوہ کوئی طبی علاج فراہم کرنے سے قاصر تھے اور درد کش ادویات بھی دن میں تین دفعہ دینے کے بجائے محض ایک دفعہ دے رہے تھے کیونکہ ان ادویات کی کمی تھی۔
احمد نے بی بی سی عربی ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگرام ’غزہ ٹوڈے‘ میں کال کی اور کہا کہ ’میں بی بی سی کو اپنی کہانی اس لیے سنا رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ پوری دنیا سُن رہی ہے۔ انسانیت کے نام پر، ہمارے ساتھ ہمدردی اور انسانوں جیسا سلوک کریں۔ انسان ہونے کے ناطے مدد کریں۔ میں اپنے خاندان کی لاشیں ملبے تلے سے نکالنا چاہتا ہوں۔ ملبے تلے میری چھ ماہ کی بیٹی کی لاش موجود ہے، میرا چار سال کا ایک بیٹا، 11 سال کا دوسرا بیٹا سب ملبے تلے ہیں۔۔۔ انھوں نے اسرائیلی فوج کا کیا بگاڑا تھا؟‘
یہ سوال کر کے احمد ایک مرتبہ پھر زار و قطار رونے لگے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
احمد کی ایک اور فائل فوٹو
’میرا پیغام دنیا تک پہنچا دو‘
لیکن احمد کی زندگی میں پیش آنے والا اتنا بڑا سانحہ بھی انھیں انسانی ہمدردی کی اپیل کرنے سے روک نہیں سکا۔ کچھ دیر رونے کے بعد انھوں نے کہا ’میرا پیغام پوری دنیا تک پہنچا دو۔۔۔ میری آواز پوری دنیا تک پہنچاؤ۔۔۔ بہت ہو گیا، بہت ہو گیا۔ ملبے کے نیچے سے ہماری لاشیں واپس لانے میں مدد کریں۔۔۔ ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔۔۔ ہمیں بچاؤ، ہمیں تحفظ چاہیے۔‘
احمد نے ان افراد کی تفصیل بھی بتائی جو اس واقعے میں شدید زخمی ہوئے مگر زندہ بچ گئے۔ ’میری بھانجی کو آنکھ کی فوری سرجری کی ضرورت ہے۔ اس کے ایک بھائی کا ہاتھ کاٹا جا چکا ہے جبکہ دوسرے کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ میرے ایک چچا کی ٹانگ کاٹ دی گئی تھی مگر پھر بھی بروقت آپریشن نہ ہونے کے باعث وہ وفات پا گئے۔‘
احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے اپیل کی کہ وہ مصری ہسپتالوں میں زخمی فلسطینیوں کا علاج کرائیں تاکہ انھیں موت کے منہ سے نکالا جا سکے۔
احمد نے اپنی بات کا اختتام یہ کہتے ہوئے کیا کہ غزہ کی صورتحال ایسی ہے کہ ان کی زندگی میں پیش آنے والے اس بڑے سانحے نے بھی انھیں اپنے روزمرہ کے کام سے نہیں روکا۔ ’یہاں تک کہ جس دن میں نے اپنے بیٹے کی لاش ملبے تلے سے نکال کر اسے دفن کیا، تو تدفین کے فوراً بعد میں کام پر چلا گیا تاکہ زخمیوں کی مدد کر سکوں اور انھیں موت کے منھ میں جانے سے بچا سکوں اور میں یہ کام کرنے سے باز نہیں آؤں گا۔ عین ممکن ہے کہ جب آپ مجھے دوبارہ اس نمبر پر کال کریں تو کوئی آپ کو بتائے کہ اس نمبر کا مالک بمباری میں فوت ہو چکا ہے۔‘
یاد رہے کہ فلسطین میں ہلال احمر نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں اپنے 300 ڈاکٹروں اور طبی عملے کی ہلاکت کا اعلان کیا ہے۔
Comments are closed.