غزہ میں زیرِ تحویل فلسطینیوں کو برہنہ کرنے کی ویڈیو منظر عام پر، اسرائیلی بمباری میں نامور ادیب ہلاک
مشہور فلسطینی ادیب رفعت العرعير کی اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاکت: ’ہم ناامید ہیں، ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں‘
،تصویر کا ذریعہSocial Media
غزہ کے باسی اور ان کے ہزاروں مداح مشہور ماہر تعلیم، مصنف اور شاعر رفعت العرعیر کی غزہ میں ایک اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں ہلاکت پر سوگوار ہیں اور انھیں مختلف انداز میں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
العرعیر کے سسر نے بتایا ہے کہ وہ اپنے بھائی، بہن اور چار بچوں سمیت بدھ کو ہونے والے اس فضائی حملے میں ہلاک ہوئے۔ وہ غزہ کی اسلامیہ یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے پروفیسر تھے۔ یہ یونیورسٹی 11 اکتوبر کو اسرائیلی فضائی حملوں کے باعث تباہ ہو گئی تھی۔
رفعت العرعیر ایک فلسطینی غیر سرکاری تنظیم ’وی آر ناٹ نمبرز‘ یعنی ہم اعداد و شمار نہیں ہیں کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ اس تنظیم کا آغاز 2015 میں ہوا اور اس کا مقصد ’خبروں میں بتائے جانے والے فلسطینی اعداد و شمار کے بیچھے کی کہانیاں‘ بتانا تھا۔
انھوں نے اسرائیلی آپریشن کے آغاز کے بعد شمالی غزہ سے جانے سے انکار کر دیا تھا اور ہلاکت سے دو دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں متعدد دھماکوں کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں۔
انھوں نے اس ویڈیو کے ساتھ لکھا تھا کہ ’عمارت لرز رہی ہے۔ ملبہ اور بم کے ٹکڑے دیواروں کو لگ رہے ہیں اور گلیوں میں اڑ رہے ہیں۔‘
اسرائیل پر حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے چند گھنٹے بعد ہی رفعت العرعير نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں اس حملے کو ’جائز اور اخلاقی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ’بالکل وارسا گیٹو کی بغاوت کی طرح ہے۔‘
وارسا گیٹو بغاوت جرمنی کے زیر قبضہ پولینڈ میں 1943 میں ہوئی تھی جس میں یہودیوں نے گیٹو میں اسلحہ سمگل کر کے جرمن نازی آبادی کے خلاف انھیں حراستی کیمپس میں لے کر جانے کے منصوبے کے خلاف مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی۔
یہ ایک متنازعہ رائے تھی جس پر لوگوں کا شدید ردعمل آیا تھا جس کے بعد بی بی سی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تبصرہ ناگوار تھا اور وہ رفعت کو دوبارہ تبصرے کے لیے مدعو نہیں کریں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہInstagram/Mosab Abu Toha
’رفعت کے لیے انگریزی زبان آلۂ آزادی تھا‘
رفعت العریری کے بارے میں سوشل میڈیا پر ان کے رفقا، شاگرد اور دوست بات کر رہے ہیں۔
ان کے ایک شاگرد اور قریبی رفیق جہاد ابو سلیم نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’انگریزی زبان ان کا جنون تھا لیکن انھوں نے اسے سماج سے لاتعلق ہونے کے لیے نہیں سکھایا، یہ رجحان تیسری دنیا میں انگریزی بولنے والے اپر اور مڈل کلام میں بہت عام ہے۔
’رفعت کے لیے انگریزی زبان آلۂ آزادی تھی، غزہ کے لمبے محاصرے سے آزاد ہونے کا طریقہ، ایک ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس جسے غزہ کے فکری، علمی اور ثقافتی ناکہ بندی اور اسرائیل کی جانب سے کھڑی کی گئی فصیلوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔‘
ایلکس کرارفورڈ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’غزہ کے مشہور ماہر تعلیم اور شاعروں میں سے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے گھروالوں سمیت مارے گئے ہیں۔
’رفعت العرعیر کے الفاظ ’ہم ناامید ہیں، ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں‘ پریشان کن ہیں۔‘
ایک صارف نے رفعت کی تصویر شائع کر کے لکھا کہ ’ہمیں کوئی خاموش نہیں کر سکے گا۔ کوئی چیز ہمیں توڑ نہیں سکے گی۔ اور جب ہم مریں گے، ہم اپنے پیچھے کہانیاں اور وراثت چھوڑیں گے جو ہمارے بچوں کو اسی راہ کی طرف رہنمائی کریں گے: آزادی اور اس کے سوا کچھ نہیں۔‘
ایک صارف ڈین کوہن نے لکھا کہ ’وہ انگریزی ادب اور شاعری کا استعمال کر کے اپنے طالب علموں کو صیہونیت اور یہودی مذہب میں فرق کی تعلیم دیتے تھے اور لوگوں کو سوچ اور فکر سے آراستہ کرتے تھے۔‘
ان کے ایک دوست معصب نے ابو طحہٰ نے لکھا کہ ’میرا دل ٹوٹ گیا ہے میرے دوست اور رفیق رفعت العرعیر چند منٹ قبل اپنے خاندان سمیت ہلاک ہو گئے ہیں۔ میں اس کا یقین نہیں کرنا چاہتا۔ ہم دونوں مل کر سٹرابیریز چنا کرتے تھے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
غزہ کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے؟
غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں اس جنگ کی ابتدا میں اسرائیل نے شمالی غزہ میں رہنے والے لوگوں کو جانے کا حکم دیا تھا اور اب جنوبی غزہ میں شدید لڑائی سے اپنی جانیں بچانے کے لیے کئی ہزار عام شہریوں نے رفح کا رخ کر لیا ہے۔
خان یونس میں ہونے والے واقعات کے بارے میں ہم زیادہ تفصیلات نہیں دے سک رہے۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ ان کی فوج شہر کا محاصرہ کر رہی ہے۔ جمعرات فوج کی طرف سے کہا گیا کہ انھوں نے ’حماس کے دہشتگردوں کو ہلاک کیا ہے اور درجنوں دہشتگردی سے منسلک اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
ہمیں خبر رساں اداروں کی طرف سے شہر کی تصاویر مل رہی ہیں لیکن ان میں سے بہت ساری تصویروں بعز قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں لہذا ہم انھیں یہاں نہیں دکھا رہے۔
ان تصویروں میں زخمیوں کو ہسپتال لے کر جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، کچھ میں لوگوں کی بڑی تعداد فرش پر لیٹ کر طبی امداد کا انتظار کر رہی ہے، ان میں چھوٹے بچے اور خواتین بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
غزہ میں بی بی سی کے نامہ نگار عدنان البرش بتاتے ہیں کہ شہر میں کھانا ختم اور بجلی بند ہو چکی ہے اس کے علاوہ پانی کی بھی شدید قلعت ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصویروں میں اسرائیلی فوجیوں کے سامنے درجنوں فلسطینیو کو انڈرویئر کے علاوہ برہنہ دیکھا گیا ہے، دیگر تصویروں میں فلسطینی قیدیوں کو ٹرک میں منتقل کیے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ان زیر ہراست افراد کو حماس کے جنگجو قرار دیا جا رہا ہے جنھوں نے اپنے آپ کو اسرائیلی افواج کے ہوالے کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ان تصویروں کے اوپر تو کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ترجمان ڈینیل ہگیری نے کہا کہ اسرائیلی اہلکاروں نے ’سینکڑوں مشتباہ دہشتگردوں کو حراست میں لیا اور ان کی تفتیش کی۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں ان میں سے کہیں نے اپنے آپ کو ہمارے افواج کے ہوالے کیا۔‘
دوسری جانب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ العربی الجدید کے جانے مانے صحافی ضیا الکحلوت کو بھی ایک تصویر میں دیکھا گیا۔
العربی الجدید نے اسرائیل کے اس اقدام کی شدید مزمت کی۔ انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاھیا میں ضیا ان کے بھائیوں، رشتہ داروں کی بڑی تعداد کو زیرحراست لیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ان افراد کے کپڑے اتارے گئے ان کے ساتھ شرمناک سلوک کیا گیا۔ بی بی سی نے اسرائیلی حکام سے ضیا الکحلوت کو حراست میں لیے جانے کے متعلق سوال کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے سابق چیف اور موجودہ ایمرجنسی حکومت کے وزیر غادی آئزن کوٹ کے بیٹے اسرائیل کے ریزرو فوجی غال آئزن کوٹ اسرائیلی فوج کے غزہ میں آپریشن کے دوران مارے گئے۔
اطلاعات ہیں کہ شمالی غزہ کے جبالیا ریفیوجی کیمپ کی سرنگ میں ہونے والے دھماکے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔
Comments are closed.