غزہ میں بڑھتا ہوا تشدد، مکمل جنگ کا خطرہ: اقوام متحدہ
اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پر سینکڑوں حملے کیے ہیں
غزہ میں فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ داغنے اور اسرائیل کے جنگی طیاروں کے غزہ پر حملوں کی وجہ سے کشیدگی عروج پر پہنچ گئی ہے اور اقوام متحدہ نے مکمل جنگ کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ گزشتہ 38 گھنٹوں میں فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے 1000 راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔
اسرائیل نے غزہ میں سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں اور منگل اور بدھ کے روز کئی منزلہ عمارتوں کو تباہ کر دیا ہے۔
تشدد کی اس لہر میں اب تک 53 فلسطینی اور چھ اسرائیلی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 14 فلسطینی بچے بھی شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ انھیں غزہ میں جاری تشدد پر گہری تشویش ہے۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
اسرائیل کے عرب آبادی والے قصبوں میں ہنگامہ آرائی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اسرائیل نے ملک کے وسطی شہر لُد میں ہنگاموں کے بعد وہاں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
لُد شہر تل ایبب کے قریب واقع ہے جہاں منگل کے روز ہنگامہ آرائی کے واقعات پیش آئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت کا استعمال کرے گی۔ .
مسجد الاقصی کے قریب ہونے والے مظاہروں کے دوران اسرائیلی سیکورٹی اہلکار فلسطینی مظاہرین کو نشانہ بنا رہا ہے
غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟
فلسطینی عسکریت پسندوں نے پیر کی رات اسرائیل پر راکٹ داغنے شروع کیے۔ اسرائیل نے جواب میں غزہ پر فضائی حملے شروع کیے ہیں۔
اسرائیل نے بدھ کے روز کہا کہ اس نے غزہ میں حماس کے ایک سینئر کمانڈر کو ہلاک کرنے کے لیے علاوہ راکٹ لانچ کرنے والی جگھوں کو نشانہ بنایا ہے۔
حماس نے اپنے ایک کمانڈر کی موت کی تصدیق کی ہے۔ حماس کے زیر انتظام محکمۂ صحت کے مطابق حالیہ تشدد میں 53 افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو ئے ہیں۔
اسرائیل کی ڈیفنس فورسز نے کہا ہے کہ اس نے بدھ کے روز 2014 کے بعد غزہ پر سب بڑے حملے کیے ہیں۔
حماس نے کہا کہ ’دشمن‘ رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
رہائشی عمارتوں کے مکینوں کو اسرائیل کے فضائی حملے سے پہلے ان عمارتوں کو خالی کرنے کا کہا گیا تھا لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان عماتوں پر حملے کے وقت وہ اب بھی کچھ سویلین ان عمارتوں میں موجود تھے۔
تشدد کیسے شروع ہوا؟
اپریل کے وسط میں رمضان المبارک کے آغاز کے بعد سے تناؤ بڑھتا چلا گیا ہے اور اس سلسلے میں سلسلہ وار طور پر کئی واقعات ہوئے جسے بدامنی پھیلتی رہی۔
رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی دمشق گیٹ کے باہر کھڑی کی جانے والی سکیورٹی رکاوٹوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں اور پولیس کے درمیان رات کے وقت جھڑپیں ہونے لگیں۔
حماس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حرم الشریف اور قریبی عرب آبادی والے دسٹرکٹ شیخ جرح سے پولیس کو ہٹائے۔
مشرقی یروشلم میں شیخ جرح علاقے کے علاقے میں یہودی آبادکاروں نے فلسطینی خاندانوں کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس کی وجہ سے فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونے کا خطرہ ہے۔.
مشرقی بیت المقدس اسرائیل اور فلسطین تنازع میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں فریق اس پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔
اسرائیل نے سنہ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ حاصل کر لیا ہے اور تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں تاہم اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔
دوسری جانب فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ مشرقی بیت المقدس ان کی ایک ‘متوقع آزاد ریاست’ کا مستقبل کا دارالحکومت ہے۔
Comments are closed.