اسلام آباد ہائی کورٹ میں القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر سماعت دوبارہ شروع ہو گئی۔
عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ میں مبینہ کرپشن کے کیس کی سماعت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے خصوصی ڈویژن بینچ تشکیل دیا ہے جو جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ عمران خان کی ضمانت قبل از گرفتاری اور حفاظتی ضمانت کی درخواست ہے، ہم نے ایک اور درخواست میں انکوائری رپورٹ کی کاپی مانگی ہوئی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ نیب کو انکوائری رپورٹ کی کاپی فراہم کرنے کا حکم دیا جائے، نیب کی انکوائری رپورٹ کا اخبار سے پتہ چلا، انکوائری اگر انویسٹی گیشن میں تبدیل ہو تو صرف اسی صورت وارنٹ جاری ہو سکتے ہیں، وارنٹ کے اجراء کی وجہ بتائی گئی کہ مسلسل نوٹسز کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ انویسٹی گیشن اسٹارٹ ہوتے ہی گرفتاری کی کوشش کی گئی، نیب قانون کے مطابق انکوائری رپورٹ فراہم کرنے کا پابند ہے، یہ انکوائری رپورٹ کورٹ آف لاء میں چیلنج کرنے کا حق بھی رکھتا ہوں، اسی وجہ سے نیب پر انکوائری رپورٹ فراہم کرنا لازم ہے، عمران خان کی گرفتاری کے بعد انکوائری رپورٹ فراہم کر دی گئی، میں نے انکوائری رپورٹ نہیں دیکھی کیونکہ عمران خان قید میں تھے، میں نے انکوائری رپورٹ نہیں دیکھی کیونکہ عمران خان قید میں تھے۔
عمران خان کے وکیل نے کہا کہ 28 اپریل کو انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا، 2 کال اپ نوٹسز کا جواب بھی جمع کرایا، جواب دیا کہ کال اپ نوٹسز قانون کے مطابق نہیں ہیں، یہ بتانا ضروری ہے کہ متعلقہ شخص کو کس حیثیت میں بلایا گیا ہے؟ بطور گواہ بلایا جا رہا ہے یا بطور ملزم؟ اگر بطور ملزم بلایا جا رہا ہے تو الزامات کی تفصیل دینا ضروری ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے سوال کیا کہ آپ کو نوٹس کے ساتھ کوئی سوالنامہ نہیں دیا گیا، کیا آپ نے نیب آفس وزٹ کیا؟
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس کیس میں کوئی سوالنامہ نہیں دیا گیا، وہ توشہ خانہ کیس الگ ہے، نیب آفس اس لیے وزٹ نہیں کیا کیونکہ کال اپ نوٹس غیر قانونی ہے، تفصیلی جواب میں اعتراضات اٹھائے جس کے بعد دوبارہ نوٹس نہیں ملا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی وقفے کے بعد سماعت سے قبل ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون اور پی ٹی آئی کے وکیل سیف الرحمٰن کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔
عمران خان کمرۂ عدالت میں کھڑے ہو گئے اور کہا کہ تمام لوگ پُرامن رہیں اور عدالت کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھیں۔
عمران خان نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون سے معافی مانگ لی۔
عمران خان کو دیکھ کر پی ٹی آئی کے وکیل سیف الرحمٰن نے بھی جہانگیر جدون سے معافی مانگ لی۔
سماعت سے قبل چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان نے گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر اپنی لیگل ٹیم سے رابطہ کر لیا۔
عمران خان نے وکیل حامد خان سے رابطہ کر کے کہا ہے کہ پنجاب پولیس مجھے گرفتار کرنے کیلئے باہر کھڑی ہے۔
القادر ٹرسٹ میں مبینہ کرپشن کے کیس میں درخواستِ ضمانت کی سماعت کے لیے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے ہیں۔
عدالت میں سماعت شروع ہوئی تو کمرۂ عدالت میں عمران خان کے حق میں نعرے لگائے گئے۔
نعرے لگانے پر ججز نے اظہارِ برہمی کیا اور عدالت سے اٹھ کر چلے گئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ نعرہ لگانے والے وکیل کا ہم سے تعلق نہیں۔،
اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایسے نہیں چلے گا، یہ کوئی طریقہ نہیں، مکمل خاموشی ہونی چاہیے۔
جس کے بعد عدالت کی جانب سے کیس کی سماعت میں جمعے کی نماز کا وقفہ کر دیا گیا۔
سماعت کے لیے ڈھائی بجے کا وقت مقرر کر دیا گیا۔
سماعت سے قبل عمران خان کورٹ روم نمبر 2 میں موجود تھے، پولیس اور رینجرز نے عمران خان کو لانے کے لیے کورٹ روم نمبر 2 سے 3 تک 2 لیئرز پر مشتمل حفاظتی حصار بنایا۔
عدالت میں نمائندہ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے 100 فیصد خدشہ ہے کہ آج گرفتار کر لیا جاؤں گا۔
صحافی نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ آج گرفتار ہو سکتے ہیں؟
عمران خان نے صحافی کے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ مجھے نیب نے اپنی اہلیہ سے بات کرنے کی اجازت دی تھی۔
صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ کو گرفتاری کے دوران فون مل گیا تھا؟
عمران خان نے جواب دیا کہ میں نے لینڈ لائن کے ذریعے بات کی تھی۔
عمران خان سے سوال کیا گیا کہ فون آپ کو اہلیہ سے بات کرنے کے لیے دیا گیا تھا، آپ نے مسرت چیمہ کو ملا دیا؟
عمران خان نے جواب دیا کہ میری بشریٰ بی بی سے بات نہیں ہو سکی تھی۔
عمران خان نے عدالت میں میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کے دوران کہا کہ اگر ضمانت منسوخ ہوئی تو مزاحمت نہیں کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ جب گرفتار کیا گیا تو لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا، یہ میرا ملک ہے، میری فوج ہے، میں آپ کو تمام صورتِ حال سے آگاہ کر رہا ہوں۔
عمران خان نے صحافیوں سے کہا کہ اگر مجھے دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پھر وہی ردِ عمل آئے گا، میں نہیں چاہتا کہ ایسی صورتِ حال دوبارہ پیدا ہو۔
عمران خان سے سوال کیا گیا کہ خان صاحب! جب آپ کو گرفتار کیا گیا تو آپ کا کیسا تجربہ رہا؟
اس سوال کے جواب میں عمران خان اوپر دیکھتے رہے اور انہوں نے جواب نہ دیا۔
عمران خان سے صحافی نے سوال کیا کہ کہا جا رہا ہے کہ آپ کو دیگر سیاسی رہنماؤں کے مقابلے میں ریلیف ملا ہے؟
عمران خان نے جواب دیا کہ میں ہائی کورٹ میں بیٹھا تھا، ان کے پاس مجھے پکڑنے کا کوئی جواز نہیں تھا، مجھے اغواء کیا گیا، جیل میں لے گئے تو پہلی بار وارنٹ دکھایا گیا، یہ تو جنگل کے قانون میں ہوتا ہے، کدھر گئی پولیس؟ کدھر گیا قانون؟ ایسا لگ رہا ہے جیسے یہاں مارشل لاء ڈکلیئر ہو گیا ہے۔
اس سے قبل چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سخت سیکیورٹی میں پولیس لائنز کے گیسٹ ہاؤس سے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔
عمران خان کی پیشی سے قبل ڈائری برانچ میں ان کا بائیو میٹرک کیا گیا جس کے بعد وہ کورٹ روم نمبر 2 میں پہنچ گئے۔
عمران خان کے وکیل انتظار پنجوتھا کورٹ روم نمبر 3 پہنچے جہاں انہوں نے کورٹ روم کا جائزہ لیا۔
عمران خان کی پیشی سے قبل کورٹ روم نمبر 3 میں شدید دھکم پیل نظر آئی، جس کے بعد غیر متعلقہ افراد کو کورٹ روم نمبر 3 سے نکال دیا گیا۔
اس موقع پر وکلاء کی سیکیورٹی عملے سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔
سماعت سے قبل کورٹ روم نمبر 3 کے باہر رینجرز نے پوزیشن سنبھال لی جبکہ کورٹ روم کو خالی کرا کے بم ڈسپوزل اسکواڈ نے وہاں کلیئرنگ اور سوئپنگ کا عمل مکمل کیا۔
عمران خان کی پیشی کے موقع پر ماضی کی طرح ان کے سر پر نہ حفاظتی بالٹی تھی اور نہ ہی اطراف میں حفاظتی شیلڈ تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کے لیے آنے والے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے جیو نیوز کے نمائندے حیدر شیرازی نے سوال کیا کہ دورانِ قید آپ کی اسٹیبلشمنٹ سے ملاقاتیں ہوئیں؟
عمران خان نے اس سوال کا نفی میں سر ہلا کر جواب دیا۔
صحافی نے عمران خان سے سوال کیا آپ ڈٹے ہوئے ہیں یا ڈیل کر لی؟
اس سوال پر عمران خان جواب دینے کی بجائے مسکرا دیے۔
عمران خان سے صحافی نے پھر سوال کیا کہ آپ کی خاموشی کو سمجھیں کہ کیا ڈیل کر لی گئی ہے؟
عمران خان نے منہ پر انگلی رکھ کر انہیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
عمران خان ڈائری برانچ سے بائیو میٹرک کرا کے نکلے تو انہوں نے کیمروں کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے انگلیوں سے وکٹری کا نشان بنایا۔
دوسری جانب وکلاء کی جانب سے اعتراض اٹھاتے ہوئے عدالتی اسٹاف سے استدعا کی گئی کہ کورٹ روم تو بہت چھوٹا ہے، کسی بڑے کورٹ روم میں سماعت کر لی جائے۔
عدالتی عملے نے وکلاء کو جواب دیا کہ یہ فیصلہ تو بینچ کے سربراہ ہی کر سکتے ہیں۔
عمران خان عدالتِ عالیہ میں سخت سیکیورٹی میں پہنچے ہیں۔
اس موقع پر عدالت اور اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں، ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضائی نگرانی کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو گیٹس پر سخت سیکیورٹی تعینات ہے، پچھلے راستے کو مکمل سیل کر دیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے۔
ایف سی اہلکار اور اسلام آباد پولیس کی ٹیمیں سرینگر ہائی وے اور عدالت کےاطراف تعینات کی گئی ہیں۔
اسلام آباد پولیس چیکنگ کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف داخلے کی اجازت دے رہی ہے۔
عمران خان کی ہائی کورٹ روانگی سے قبل آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی آپریشنز نے پولیس لائن پہنچ کر سیکیورٹی انتظامات کا معائنہ کیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی سے قبل وکلاء اور پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق عدالتی حکم کے مطابق گزشتہ شب عمران خان سے 10 افراد نے ملاقات کی۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان نے بتایا ہے کہ صدرِ مملکت عارف علوی، وزیرِ اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید اور عمران خان کے معالج ڈاکٹر فیصل نے بھی پولیس گیسٹ ہاؤس میں ان سے ملاقات کی ہے۔
ترجمان اسلام آباد پولیس نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان افراد کے علاوہ 7 رکنی قانونی ٹیم نے بھی عمران خان سے ملاقات کی۔
پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو گزشتہ روز سپریم کورٹ کی جانب سے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔
Comments are closed.