بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

عرب سپرنگ: ایک طاقتور آمر کی ڈوبتا اقتدار بچانے کے آخری لمحات میں فون کالز

عرب سپرنگ: تیونس کے سابق آمر زین العابدین بن علی کی ڈوبتا اقتدار بچانے کے آخری لمحات میں فون کالز

  • امیر نادر
  • بی بی سی نیوز، عربی

بن علی

بی بی سی نے تیونس کے سابق صدر اور ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی کی چند ایسی فون ریکارڈنگز تک رسائی حاصل کی ہے جب وہ سنہ 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران بیرون ملک روانہ ہو رہے تھے۔

یہ ریکارڈنگز ان آخری لمحات کی منظر کشی میں مدد دیتی ہیں جب تیونس میں جمہوری نظام کے حق میں مظاہرے عرب سپرنگ کے آغاز اور بن علی کے 23 برس کے آمرانہ اقتدار کے خاتمے کی بنیاد رکھ رہے تھے۔

ان فون ریکارڈنگز کا فارینزک معائنہ آڈیو ایکسپرٹس کی مدد سے کیا گیا جنھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان میں کسی قسم کی جعل سازی یا ہیرا پھیری نہیں ہوئی۔

سنہ 2019 میں بن علی کا جلا وطنی کے دوران انتقال ہو گیا تھا۔ بی بی سی نے یہ فون ٹیپس چند ایسے افراد کو سنوائیں جو ان لوگوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں جن کی آواز ان ٹیپس میں سنی جا سکتی ہے۔ ان افراد نے ان ریکارڈنگز کی تصدیق کی لیکن کچھ متعلقہ افراد ایسے بھی ہیں جنھوں نے ان ٹیپس کے اصلی ہونے سے اختلاف کیا۔

لیکن اگر یہ فون ٹیپس واقعی درست ہیں تو یہ ان آخری 48 گھنٹوں کا حیران کن ثبوت ہیں جب بن علی کو آہستہ آہستہ اس بات کا ادراک ہو رہا تھا کہ تیونس میں شروع ہونے والے مظاہرے کس طرح ملک اور ان کی پولیس سٹیٹ کی تقدیر بدلنے والے ہیں۔

Short presentational grey line

ان فون ریکارڈنگز کا آغاز 13 جنوری 2011 کو ہوتا ہے۔ بن علی کی جانب سے پہلی فون کال جس کی ریکارڈنگ بی بی سی کو موصول ہوئی اپنے ایک قریبی ساتھی کو کی جاتی ہے۔

اس شخص سے متعلق خیال ہے کہ یہ طارق بن عمار ہیں جو تیونس کے کامیاب میڈیا ٹائیکون ہیں اور جنھوں نے پہلی سٹار وارز فلم کی تیونس میں عکس بندی کے لیے ہالی وڈ ڈائریکٹر جارج لوکاس کو قائل کیا تھا۔

اسی دن بن علی نے قوم سے حکومت مخالف مظاہروں کو روکنے کی کوشش کے لیے خطاب کیا تھا۔

چند ہفتے قبل تیونس میں معاشی مشکلات اور دہائیوں سے جاری آمرانہ حکومت کے خلاف عوامی جذبات اس وقت کھل کر مظاہروں کی شکل اختیار کر گئے تھے جب محمد بوعزیزی نامی ایک نوجوان نے خود کو اس وقت آگ لگا لی تھی جب انھیں سرکای حکام نے سدی بوزید ٹاون میں ٹھیلہ لگا کر سامان بیچنے سے روک دیا تھا۔

بن علی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

13 جنوری 2011 کو بن علی کا بطور صدر تیونس کی عوام سے خطاب۔ اسی شام وہ ملک سے فرار ہو گئے تھے۔

13 جنوری تک مظاہرے دارالحکومت کی سڑکوں تک پھیل چکے تھے جن میں تقریبا 100 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

لیکن جب بن عمار کی جانب سے ان کی تعریف کے پل باندھے گئے تو بن علی پر اطمینان سنائی دیے۔

اس ریکارڈنگ میں بن عمار کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے ’آپ بہت شاندار تھے۔ یہ وہ بن علی ہے جس کا ہمیں انتظار تھا۔’

جواب میں بن علی پرامید نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی تقریر میں روانی نہیں تھی۔ ان کے دوست بن عمار انھیں تسلی دیتے ہیں۔

’ایسا بلکل نہیں۔ یہ تو تاریخی واپسی ہے۔ آپ عوامی شخصیت ہیں۔ آپ ان ہی کی زبان بولتے ہیں۔’

بن علی جواب میں ہنستے ہیں جیسے انھیں سکون ملا ہو لیکن اس دن ان کا قوم سے خطاب ناکافی تھا۔

بن عمار: دنیا آپ کے ساتھ ھے
،تصویر کا کیپشن

بن عمار: ’دنیا آپ کے ساتھ ھے’

اگلے دن حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آ گئی اور وزارت داخلہ پر قبضے کے قریب پہنچ گئے۔ ایسے میں بن علی کے خاندان کو حفاطتی قدم کے طور پر سعودی عرب بھجوانے کے انتظامات کیے گئے اور بن علی کو قائل کیا گیا کہ وہ ان کے ساتھ جائیں۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی اگلی فون ریکارڈنگ اس وقت کی ہے جب بن علی جہاز میں بیٹھے تھے۔ انھیں جنونی انداز میں تین افراد سے بات کرتے سنا جا سکتا ہے جن میں وزیر دفاع، آرمی چیف اور ایک قریبی ساتھی کمال الطائف شامل ہیں۔

سب سے پہلے وہ ایک ایسے شخص سے تیونس میں زمینی صورتحال جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بارے میں بی بی سی کا خیال ہے کہ وہ وزیر دفاع ردھا گریرہ ہیں۔

گریرہ سے بن علی کو پہلی بار معلوم ہوتا ہے کہ عبوری صدر تعینات ہو چکے ہیں۔ بن علی گریرہ سے تین بار اپنے الفاظ دہرانے کو بولتے ہیں۔ اس کے بعد وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ چند ہی گھنٹوں میں ملک واپس لوٹ آئیں گے۔

اس کے بعد بن علی ایک اور شخص کو کال کرتے ہیں جن کے بارے میں بی بی سی کا اندازہ ہے کہ یہ ان کے قریبی ساتھی کمال الطائف ہیں۔ بن علی الطائف کو بتاتے ہیں کہ وزیر دفاع نے انھیں یقین دلایا ہے کہ حالات قابو میں ہیں۔

بن علی: کیا آپ مجھے ابھی واپس آنے کا مشورہ دیتے ہیں؟
،تصویر کا کیپشن

بن علی: ’کیا آپ مجھے ابھی واپس آنے کا مشورہ دیتے ہیں؟’

الطائف دوٹوک الفاظ میں بن علی کے اس مفروضے کو رد کرتے ہیں۔ ’نہیں، نہیں۔ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور فوج بھی کافی نھیں۔’

بن علی ان کو ٹوکتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ’کیا آپ مجھے مشورہ دیں گے کہ میں واپس آوں یا نہیں؟’ انھیں اپنا سوال تین بار دہرانا پڑتا ہے جس کے بعد الطائف آخر کار جواب دیتے ہیں کہ ’حالات اچھے نہیں۔’

اس کے بعد بن علی بی بی سی کے مطابق آرمی چیف راشد عمار کو فون کرتے ہیں۔ عمار ان کی آواز نہیں پہچانتے۔ بن علی کو انھیں بتانا پڑتا ہے کہ ’میں صدر بات کر رہا ہوں۔’

عمار انھیں یقین دہانی کراتے ھیں کہ سب ٹھیک ھے۔ بن علی وہی سوال دہراتے ہیں جو انھوں نے الطائف سے کیا تھا۔ کیا وہ تیونس واپس آ سکتے ھیں؟ رشید انھیں کہتے ھیں کہ بہتر ہو گا کہ ابھی وہ کچھ انتظار کریں۔

’جب ہمیں لگے گا کہ آپ واپس آ سکتے ہیں تو ہم خود آپ کو بتا دیں گے، جناب صدر۔’

اب بن علی دوبارہ وزیر دفاع کو فون کرتے ہیں اور دوبارہ پوچھتے ہیں کہ کیا وہ واپس آ جائیں۔ اس بار گریرہ دو ٹوک الفاظ میں جواب دیتے ہیں اور بن علی کو کہتے ہیں کہ ’اگر وہ واپس آئے تو ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔’

تقریبا آدھی رات کا وقت تھا جب بن علی کا جہاز سعودی عرب کے شہر جدہ اترتا ہے۔ بن علی پائلٹ کو حکم دیتے ہیں کہ وہ تیونس واپسی کی تیاری کرے اور خود اپنے خاندان کے ساتھ شاہ فیصل کے محل میں گیسٹ ہاوس کی جانب روانہ ہوتے ہیں لیکن پائلٹ حکم عدولی کرتے ہوئے بن علی کے بغیر ہی طیارہ تیونس واپس اڑا لے جاتا ہے۔

اگلے دن بن علی کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ ایک بار پھر وزیر دفاع کو فون کرتے ہیں۔ گریرہ اب تسلیم کرتے ہیں کہ سڑکوں پر انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں۔

وہ بن علی کو کہتے ہیں کہ بغاوت کی بھی افواہ ہے۔ بن علی اسے انتہا پسندوں کا عمل کہہ کر رد کر دیتے ہیں اور دوبارہ واپسی کی بات کرتے ہیں۔ اب گریرہ اپنے باس پر حقیقت واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گریرہ: ھم آپ کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے
،تصویر کا کیپشن

وزیر دفاع: ’ھم آپ کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتے’

’سڑکوں پر ایسا غصہ ہے جو میں نے آج تک نہیں دیکھا۔’

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گریرہ چاہتے ہیں کہ صدر کے سامنے حقائق واضح ہوں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسا نہ ہو کہ آپ کہیں کہ میں نے آپ کو گمراہ کیا اس لیے فیصلہ آپ کا اپنا ہے۔’

بن علی اپنا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’میں نے کیا کیا ہے؟ میں نے عوام کی خدمت کی ہے۔’

گریرہ جواب دیتے ہیں کہ ’میں صرف صورتحال بتا رہا ہوں، وضاحت نہیں کر رہا۔’

یہ بھی پڑھیے

line

تیونس کی حزب اختلاف کی جماعت پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کی جنرل سیکریٹری مایا جیریدی 14 جنوری 2011 کو حکومت مخالف مظاہرے میں شرکت کے دوران

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

تیونس کی حزب اختلاف کی جماعت پروگریسو ڈیموکریٹک پارٹی کی جنرل سیکریٹری مایا جیریدی 14 جنوری 2011 کو حکومت مخالف مظاہرے میں شرکت کے دوران

  • 17 دسمبر 2010 کو ایک نوجوان ٹھیلے والے نے خود کو اس وقت آگ لگا لی جب اسے سامان بیچنے سے منع کیا گیا۔
  • اس نوجوان کی موت نے حکومت مخالف مظاہروں کو جنم دیا جن میں 100 افراد ہلاک ہوئے۔
  • صدر بن علی نے 13 جنوری کو قوم سے خطاب میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں پر کارروائی کا وعدہ کیا۔
  • اسی شام بن علی اپنے خاندان کے ساتھ ہوائی جہاز میں سعودی عرب روانہ ہو گئے۔

line

چند ہی گھنٹوں میں تیونس میں ایک نئی حکومت بن گئی جس میں زیادہ تر وزرا وہی تھے۔ ان میں وزیر دفاع گریرہ بھی شمال تھے۔ بن علی تیونس واپس نہیں لوٹ سکے اور سنہ 2019 میں جلاوطنی میں ہی سعودی عرب کے شہر جدہ میں ان کا انتقال ہو گیا۔

ان ٹیپس سے واضح ہوتا ہے کہ ایک ایسا آمر جس نے 23 سال تک جابرانہ حکومت کی کس طرح اپنے اقتدار کے آخری لمحات میں اپنے وزرا کی ہدایات کا محتاج ہو چکا تھا۔

واضح رہے کہ 2011 میں سعودی عرب میں جلا وطنی کے دوران ہی بن علی کے خلاف تیونس میں ان کی غیر موجودگی میں ایک مقدمے میں انھیں مظاہرین کی موت پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

بی بی سی کی جانب سے رابطہ کرنے پر وزیر دفاع ردھا گریرہ اور آرمی چیف راشد عمار نے فون ریکارڈنگز پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

بن علی کے دوست اور قریبی ساتھی کمال الطائف اور طارق بن عمار نے اس بات سے انکار کیا کہ ان کی صدر سے بات ہوئی تھی۔ بن عمار نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے صدر بن علی کے اقتدار پر انھیں کوئی تسلی نہیں دی تھی۔

بی بی سی نے تقریباً ایک سال ان ریکارڈنگز کی تصدیق اور تحقیق پر صرف کیا۔ ان ٹیپس کا برطانیہ اور امریکہ کے آڈیو فارنزک ماہرین نے تجزیہ کیا جس کے دوران اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ کہیں یہ ٹیپس جعل سازی سے تو نہیں بنائی گئیں لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جس سے ان ٹیپس پر جعلی ہونے کا گمان ہو۔

بی بی سی نے ان ٹیپس اور ان میں موجود افراد کی تصدیق کے لیے کچھ حصے ایسے لوگوں کو بھی سنوائے جو کم از کم ٹیپ میں سنائی دینے والے ایک فرد کو جانتے تھے۔ ان میں بن علی کی انتظامیہ کے تین سکیورٹی حکام، ان کی سیاسی جماعت کے رہنما سمیت بن علی کی آواز کی نقالی کرنے والا ایک شخص بھی شامل تھا۔

ان تمام افراد، جن سے بی بی سی نے رابطہ کیا، میں سے کسی نے بھی ٹیپس کے اصلی ہونے پر سوالیہ نشان نہیں لگایا۔ اس کے علاوہ وزیر دفاع گریرہ اور آرمی چیف عمار کے پرانے بیانات بھی موجود ہیں جن میں ان کی جانب سے اقرار کیا گیا کہ ان کی صدر سے اس وقت بات ہوئی تھی جب وہ جہاز میں موجود تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.