عراق کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش اور انٹیلیجنس میں ناکامی کیسے ہوئی تھی؟
- مصنف, گورڈن کوریرا
- عہدہ, سیکورٹی نامہ نگار بی بی سی نیوز
’کیا‘ یہ وہ الفاظ تھے جو برطانوی خفیہ ایجنسی ’ایم آئی سکس‘ کے ایک اعلیٰ افسر کے منھ سے اُس وقت بے ساختہ نکلے جب انھیں ان کے ایک ساتھی افسر کی جانب سنہ 2001 کے اواخر میں یہ بتایا گیا تھا کہ امریکہ عراق میں جنگ کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔
سی آئی اے کے افسران بھی اس حوالے سے برطانوی خفیہ ایجنسی کے افسران کے حیرت زدہ ردعمل کو یاد کرتے ہیں۔ سی آئی اے کے عراق آپریشنز گروپ کے سربراہ لوئیس روئیڈا نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں نے سوچا کہ انھیں وہیں میز پر ہی دل کا دورہ پڑ جائے گا۔ اگر وہ شریف انسان نہ ہوتے تو میز کے اس پار پہنچ کر مجھے تھپڑ مار دیتے۔‘
یہ خبر جلد ہی برطانوی وزیر اعظم کے دفتر ’10 ڈاؤننگ سٹریٹ‘ تک پہنچ گئی اور اسے پہنچانے والے سفارتکار نہیں بلکہ خفیہ ایجنسیوں کے جاسوس تھے۔
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے اس وقت کے سربراہ سر رچرڈ ڈیئرلو نے بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ’میں غالباً پہلا شخص تھا جس نے وزیر اعظم سے کہا کہ ’چاہے آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں، آپ تیاری پکڑ لیں کیونکہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ (امریکہ) حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘
برطانیہ کی بین الاقوامی انٹیلیجنس ایجنسی ایم آئی سکس اپنی تاریخ کے سب سے زیادہ متنازع اور نتیجہ خیز معاملے میں الجھنے والی تھی۔
برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کے سابق سربراہ سر رچرڈ ڈیئرلو
امریکہ کے لیے عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا مسئلہ ثانوی نوعیت کا تھا کیونکہ اُن کا اصل ہدف عراقی صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ سی آئی اے کے عراق آپریشنز گروپ کے سربراہ لوئیس روئیڈا کا کہنا ہے کہ ’اگر صدام حسین کے پاس ربڑ بینڈ اور پیپر کلپ بھی ہوتا تب بھی ہم نے عراق پر یہ کہتے ہوئے حملہ کرنا تھا کہ صدام حسین اُن کی مدد سے آپ کی آنکھ نکال سکتے ہیں۔‘
برطانیہ کے لیے عراق کے بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے کیمیائی، جوہری اور حیاتیاتی ہتھیاروں سے لاحق خطرہ ہی مرکزی نوعیت کا تھا۔
بعض اوقات یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ برطانیہ کی حکومت کے ان ہتھیاروں کے بارے میں دعوے من گھڑت ہیں۔ لیکن اس وقت کے وزرا کا کہنا ہے کہ انھیں ان کے اپنے انٹیلیجنس اہلکاروں نے یقین دلایا تھا کہ ہتھیار موجود ہیں۔
سابق برطانوی وزیر اعظم سر ٹونی بلیئر نے مجھے بتایا کہ ’یہ سمجھنا واقعی اہم ہے کہ مجھے جو خفیہ معلومات حاصل ہو رہی تھیں میں ان پر انحصار کر رہا تھا، اور مجھے لگتا ہے کہ میں ان معلومات پر بھروسہ کرنے میں درست تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ عراق پر حملے کی شام کو انھوں نے جوائنٹ انٹیلیجنس کمیٹی سے اس متعلق یقین دہانیاں مانگی تھیں اور انھیں اس حوالے سے یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ وہ انٹیلیجنس سروسز کے غلط ہونے پر تنقید کو مسترد کرتے ہیں۔
تاہم باقی وزرا کا کہنا ہے کہ ان کے ذہنوں میں اس متعلق شکوک و شبہات تھے۔
اس وقت کے سیکریٹری خارجہ جیک سٹرا کا کہنا ہے کہ ’تین مواقعوں پر میں نے ایم آئی سکس کے سابق سربراہ سر رچرڈ ڈیئرلو رچرڈ ڈیئر لیو سے اس خفیہ معلومات کے مستند ہونے اور ان کے ذرائع کے متعلق سوال کیا تھا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں اس معلومات کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار تھا لیکن ہر مرتبہ مجھے ڈیئرلو نے یقین دلایا کہ یہ خفیہ معلومات دینے والے ایجنٹس قابل اعتماد ہیں۔‘
تاہم جیک سٹرا کا کہنا ہے کہ بالآخر اس کی ذمہ داری سیاستدانوں کو لینی چاہیے کیونکہ آخری فیصلے تو وہ کرتے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا وہ عراق آپریشن کو انٹیلیجنس کی ناکامی کے طور پر دیکھتے ہیں، سر رچرڈ کا جواب سادہ تھا یعنی ’نہیں۔‘ ان کا اب بھی ماننا ہے کہ عراق کے پاس کسی قسم کا ہتھیاروں کا پروگرام تھا اور ہو سکتا ہے کہ ان کو سرحد پار شام منتقل کیا گیا ہو۔
دوسرے اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ سر ڈیوڈ اومنڈ جو اس وقت برطانیہ کے سکیورٹی اور انٹیلیجنس کوآرڈینیٹر تھے کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بڑی ناکامی تھی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ متعصب معلومات کو حکومتی ماہرین ٹکڑوں میں سننے پر مجبور ہوئے جس نے اس خیال کی تائید کی کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔
ایم آئی سکس کے چند افسران کا کہنا ہے کہ انھیں بھی اس متعلق خدشات تھے۔ ایک افسر جس نے عراق پر کام کیا تھا اور جنھوں نے اس سے پہلے کبھی کوئی بات نہیں کی ہے اور اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے کا کہنا ہے ’اس وقت مجھے یہ محسوس ہوا کہ ہم جو کر رہے تھے وہ غلط تھا۔‘
سنہ 2002 کے اوائل کے عرصے کے متعلق بات کرتے ہوئے سابق افسر کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس اس متعلق کوئی نئی اور مصدقہ خفیہ اطلاع یا تخمینہ نہیں تھا جس سے یہ ظاہر ہو سکتا کہ عراق نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کے پروگرام پر کام دوبارہ شروع کر دیا ہے اور یہ کہ اس سے خطرہ لاحق تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں حکومتی نقطہ نظر سے یہ وہ واحد چیز تھی جسے وہ ڈھونڈ سکے تھے۔ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہی وہ واحد چیز تھی جس کا وہ قانونی طور پر سہارا لے سکتے تھے۔‘
سنہ 2002 کے موسم بہار میں موجود انٹیلیجنس معلومات مبہم اور خراب تھیں۔ ایم آئی سکس کے عراق میں طویل عرصے سے موجود ایجنٹوں کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے بارے میں بہت کم یا کوئی معلومات نہیں تھیں، اور کیس کو تقویت دینے کے لیے نئے ذرائع سے تازہ انٹیلیجنس حاصل کرنے کی اشد تلاش تھی، خاص طور پر جب ستمبر کے لیے ایک ڈوزیئر کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
ایم آئی سکس کے ایک اور اہلکار ایک پیغام کو ڈی کوڈ کرنے کے بارے میں یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس میں کہا گیا تھا کہ انٹیلیجنس سروس کے لیے برطانوی عوام کو (عراق میں) کارروائی کے لیے قائل کرنے سے زیادہ کوئی ’اہم کردار‘ نہیں تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں سوالات اٹھائے گئے کہ کیا یہ درست ہے اور اس پیغام کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
12 ستمبر کو سر رچرڈ ایک اہم نئے ذریعے کی خبر کے ساتھ برطانوی وزیر اعظم کے دفتر 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پہنچے۔ اس شخص نے دعویٰ کیا کہ عراقی صدر صدام حسین کے پروگرام دوبارہ شروع کیے جا رہے تھے اور جلد ہی اس بارے میں نئی تفصیلات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا۔
اگرچہ خفیہ معلومات کا یہ ذریعہ مکمل جانچ پڑتال سے نہیں گزرا تھا اور ماہرین کے ساتھ اس کی معلومات کا اشتراک نہیں کیا گیا تھا، پھر بھی یہ تفصیلات برطانوی وزیر اعظم کے حوالے کر دی گئیں۔
یہ بھی پڑھیے
سر رچرڈ ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں ہوئے ’مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہیں کہ وہ برطانوی وزیر اعظم کے دفتر ڈاؤننگ سٹریٹ کے بہت قریب تھے۔ تاہم انھوں نے کیس کی تفصیلات یا مخصوص ذرائع پر تبصرہ نہیں کیا۔
دوسرے انٹیلیجنس ذرائع کا کہنا ہے کہ لیکن اگلے چند مہینوں میں، اس نئے ذریعہ نے کبھی کوئی معلومات شیئر نہیں کیں اور بالآخر سمجھا جاتا ہے کہ وہ انھیں گھڑ رہا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سارے معاملے میں انٹیلیجنس کا کوالٹی کنٹرول ٹوٹ رہا تھا۔
یہ امکان تھا کہ کچھ نئے خفیہ ذرائع پیسے کے لیے معلومات جمع کر رہے تھے یا اس لیے کہ وہ صدام حسین کا تختہ الٹتے دیکھنا چاہتے تھے۔ جنوری 2003 میں، میں اردن میں صدام کی انٹیلیجنس سروس کے ایک منحرف اہلکار سے ملا تھا۔ اُس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی نظروں سے اوجھل بائیولوجیکل ہتھیاروں پر کام کرنے کے لیے موبائل لیبارٹریز بنانے میں ملوث رہا ہے۔
اس کے ان دعوؤں کو فروری 2003 میں امریکی وزیر خارجہ کولن پاؤل کی اقوام متحدہ میں دی جانے والی پریزنٹیشن میں شامل کیا گیا۔ حالانکہ امریکی حکومت کے اندر کچھ لوگوں نے پہلے ہی یہ کہتے ہوئے ’برن نوٹس‘ جاری کر دیا تھا کہ ان معلومات پر بھروسہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
ایک اور خفیہ ذریعہ جس کا کوڈ نام ’کروو بال‘ تھا، جس پر امریکہ اور برطانیہ نے بھروسہ کیا تھے، وہ بھی ان لیبارٹریوں کے بارے میں غلط تفصیلات بتا رہا تھا۔
یاد رہے کہ صدام حسین کے پاس کبھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تھے۔ سنہ 2003 کی جنگ سے چند ہفتے پہلے، میں نے شمالی عراق کے گاؤں حالابجا کا دورہ کیا، اور مقامی لوگوں کو سنہ 1988 کے اس دن کے بارے میں بتاتے سنا جب صدام حسین کی فوج نے ان پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ ان ہتھیاروں کا کیا ہوا اس کی حقیقت جنگ کے بعد ہی سامنے آئے گی۔
عراق کے ایک سرکردہ اور اعلیٰ ترین سائنسدان نے مجھے بعد میں بتایا تھا کہ صدام حسین نے پہلی خلیجی جنگ کے بعد 1990 کی دہائی کے اوائل میں اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے معائنہ کاروں سے کلین چٹ حاصل کرنے کی امید میں اپنے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام کو تباہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ عراقی رہنما نے بعد میں اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی امید کی ہو۔ لیکن اس نے ہر چیز کو خفیہ طور پر تباہ کر دیا تھا۔
صدام حسین نے جزوی طور پر اس فریب کو برقرار رکھا کہ اس کے پاس اب بھی کوئی ایسی چیز ہے جسے وہ پڑوسی ملک ایران کے خلاف استعمال کر سکتا ہے، جس کے ساتھ اس نے کچھ عرصہ پہلے جنگ لڑی تھی۔ چنانچہ جب بعد میں اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے عراق سے یہ ثابت کرنے کو کہا کہ اس نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے، وہ ایسا نہیں کر سکا۔
بعدازاں ایک عراقی سائنسدان نے انکشاف کیا تھا کہ انھوں نے ایک مہلک کمپاؤنڈ کو زمین میں ڈال کر اسے ٹھکانے لگایا تھا جس کے بارے میں مغربی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے کہا تھا کہ اس کا کوئی حساب نہیں ملا۔ لیکن انھوں نے صدام حسین کے محلات میں سے ایک کے قریب ایسا کیا تھا، اور انھیں خدشہ تھا کہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی وجہ سے وہ عراقی صدر کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ مگر اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق کبھی بھی یہ ثابت نہیں کر سکا کہ اس کے پاس مہلک ہتھیار نہیں ہیں۔
سنہ 2002 کے آخر تک اقوام متحدہ کے معائنہ کار بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تلاش میں عراق واپس آ گئے تھے۔ ان میں سے کچھ معائنہ کار پہلی بار بی بی سی سے بات کرتے ہوئے، ان سائٹس کے معائنے کے بارے میں یاد کرتے ہوئے جہاں مغرب کی طرف سے انٹیلیجنس معلومات نے تجویز کیا تھا کہ وہاں موبائل لیبارٹریاں ہو سکتی ہیں بتاتے ہیں کہ وہاں انھیں صرف مکڑی کے جالوں میں ڈھکے ہوئے ’بڑے آئس کریم ٹرک‘ ہی ملے تھے۔
اس وقت تک عوام کو کچھ علم نہیں تھا اور جیسے جیسے جنگ قریب آ رہی تھی انٹیلیجنس کے ذرائع اس متعلق معلومات فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے تھے اور معائنہ کاروں کو بھی کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ اور اس بارے میں خدشات بڑھ رہے تھے۔
ایک اندرونی ذرائع کے بیان کے مطابق عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے شواہد سے متعلق بڑھتے دباؤ کے پیش نظر برطانوی وزیر اعظم نے سنہ 2003 جنوری کو ’گبھرائے‘ ہوئے سر رچرڈ سے کہا کہ ’میرا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔‘
سر رچرڈ اب یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اس وقت یہ بہت مایوس کن تھا۔‘ وہ معائنہ کاروں پر کچھ نہ ڈھونڈ نکالنے پر ’نااہل‘ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کیمیائی اور بائیولوجیکل معائنے کی قیادت کرنے والے ہینس بلکس نے بی بی سی کو بتایا کہ 2003 کے آغاز تک انھیں یقین تھا کہ وہاں ہتھیار موجود ہیں، لیکن خفیہ اطلاعات کے سامنے آنے کے بعد ان کی موجودگی پر شک ہونے لگا۔ انھوں نے اس کا جواب حاصل کرنے کے لیے مزید وقت مانگا تھا لیکن انھیں مزید وقت نہیں ملا۔
’ہتھیار‘ تلاش کرنے میں ناکام مارچ 2003 میں جنگ نہیں روک سکی۔
سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے آخری لمحے تک فوجی کارروائی سے بچنے کی کوشش کی۔ صدر جارج بش نے جنگ کی شام کو ایک ویڈیو کال میں اس خوف سے کہ ان کے اتحادی پارلیمنٹ میں ووٹ ہار جائیں گے انھیں حملے سے پیچھے ہٹنے اور صرف جنگ کے بعد کے حالات میں شامل ہونے کی پیشکش کی تھی، لیکن وزیر اعظم نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔‘
انھوں نے اپنے فیصلہ کا دفاع نہ صرف صدام حسین سے نمٹنے کے اصولی فیصلے کی وجہ سے کیا بلکہ برطانیہ کے امریکہ سے تعلقات قائم رکھنے کی وجہ سے بھی کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کا دونوں ممالک کے تعلقات پر خاصا اثر پڑتا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب میں وزیر اعظم تھا تو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ چاہیے صدر کلنٹن ہو یا صدر بش، جو بھی امریکی صدر جس کو پہلا ٹیلی فون کرتے تھے وہ برطانوی وزیر اعظم تھا۔ آج ہم یورپ سے باہر ہیں اور کیا جو بائیڈن سب سے پہلا فون رشی سونک کو کریں گے؟ میرا نہیں خیال۔‘
لیکن اس کے بعد عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کوئی ہتھیار نہیں ملے۔ ایم آئی سکس کے ایک سابق افسر نے جنگ کے بعد ادارتی سطح پر انٹیلیجنس ذرائع کے جائزے کو یاد کرتے ہوئے کہا ’ یہ سب ناکام ہوا۔‘ اور اس نے جاسوسوں اور سیاستدانوں دونوں کے لیے گہرے اور دیرپا نتائج چھوڑے۔
Comments are closed.