عراق جنگ کے اہم کردار 20 سال بعد اب کہاں ہیں؟
- مصنف, فرنانڈو ڈوؤرٹ، مارک شی
- عہدہ, بی بی سی
امریکی قیادت والے اتحاد کے عراق پر حملے کو 20 سال ہو چکے ہیں، جس کے نتیجے میں خطے میں پرتشدد عدم استحکام پیدا ہوا جو آج بھی واضح طور پر محسوس کیا جا رہا ہے، نہ صرف مشرق وسطیٰ کے ملک کی سرحدوں کے اندر بلکہ اس سے باہر بھی۔
20 مارچ 2003 کو شروع ہونے والی یہ جنگ عراق کے صدر صدام حسین کی حکومت کو شکست دینے کے عمل میں تیزی لائی، لیکن اس کے بعد شورشوں کے خلاف ایک طویل جدوجہد اور سیاسی تقسیم در تقسیم کے عمل کا بھی کا آغاز ہوا جو آج تک برقرار ہے۔
صدام دسمبر 2003 میں پکڑے جانے سے پہلے تقریباً نو ماہ تک گرفتاری سے بچنے کے لیے زیرِ زمین چھپے رہے اور تین سال بعد نئی عراقی حکومت نے اسے پھانسی دے دی۔
لیکن اس جنگ میں دوسرے اہم کھلاڑیوں کے ساتھ کیا ہوا جو آج بھی شدید بحث کو ہوا دیتا ہے؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔
صدام حسین
صدام نے 1979 سے 2003 تک عراق پر آہنی گرفت کے ساتھ حکومت کی۔
1990 سے 1991 کی خلیجی جنگ میں امریکہ کی زیرِ قیادت اتحادی افواج کو زبردست شکست کے باوجود، جو اس کا تختہ الٹنے میں ناکام رہی تھی، امریکہ نے عراق کو اپنے پڑوسی ملک کویت سے اپنی فوجیں نکالنے پر مجبور کر دیا تھا جس پر صدام نے اگست 1990 میں حملہ کر کے قبضہ کیا تھا۔
لیکن پھر مارچ 2003 کا حملہ ہوا اور عراقی فوج شدید بمباری کا مقابلہ نہ کرسکی اور یہ تین ہفتوں کے بعد ہی ختم ہو گئی۔ آمر خود روپوش رہا، یہاں تک کہ اسی سال 13 دسمبر کو امریکی فوج نے اسے زیرِ زمین ایک پناہ گاہ سے گرفتار کر لیا۔
اسے 2006 میں بغداد میں پھانسی دے دی گئی۔ عراقی سرکاری ٹی وی نے صدام حسین کو پھانسی کے لیے استعمال ہونے والی انٹیلی جنس سروسز کی عمارت میں فجر سے پہلے پھانسی گھاٹ جانے کی تصاویر دکھائیں۔
اپنی سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صدام حسین نے پھانسی سے پہلے اپنے آخری وقت میں چہرے کو ڈھانپنے والا نقاب پہننے سے انکار کر دیا تھا۔
عراق میں 2003 کی جنگ کے فوری بعد صدام کی حکومت برقرار رہی لیکن پھر ریت کی دیوار کی طرح تیزی سے گرتی گئی
جارج ڈبلیو بُش
سال 2003 میں جارج ڈبلیو بش اپنے ہی والد جارج بش سینیئر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عراق کے خلاف جنگ کا آغاز کرنے والے دوسرے امریکی صدر بنے۔ سینیئر بش 1989 سے 1993 کے درمیان امریکی صدر رہے تھے۔
2001 کے 9/11 حملوں کے بعد کے ہفتوں میں بش جونیئر کسی بھی امریکی صدر کی نسبت سب سے زیادہ مقبول صدر بن گئے اور گیلپ کے مطابق رائے عامہ کے جائزوں میں ان کی تائید 91 فیصد عوام نے کی۔
لیکن عراق جنگ سے نمٹنے کے لیے، خاص طور پر 4,400 امریکی فوجیوں کی ہلاکت، امریکی محکمہ دفاع کے اعداد و شمار کے مطابق وہ غیر مقبول ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے امریکی انتخابات کے بعد جب 2009 میں حکومت چھوڑی تو وہ اس وقت امریکی تاریخ کے سب سے کم مقبول صدر تھے۔
75 برس کے جارج بش جونیئر صدارتی عہدہ چھوڑنے کے بعد سیاسی یا سماجی زندگی میں زیادہ فعال نظر نہیں آئے، لیکن جب بھی میڈیا میں نظر آئے تو انھوں نے عراق کے خلاف جنگ کے اپنے فیصلے کا ہمیشہ بھرپور دفاع کیا۔
امریکی صحافی تھامس ای رکس، پُلٹزر انعام جیتنے والی اپنی کتاب ’فیاسکو: دی امریکن ملٹریز اڈونچر اِن عراق‘ میں کہتے ہیں کہ ’بش انتظامیہ کی بعض شخصیات کی جانب سے یہ کہنے کی مسلسل کوشش کی گئی ہے کہ جو باتیں بھی بعد میں ظاہر ہوئیں ان کے باوجود عراق کے خلاف جنگ لڑنے کا فیصلہ درست تھا۔‘
سابق امریکی صدر اکثر یہ دلیل دیتے تھے کہ صدام کو ہٹانا اسی پالیسی کے صحیح ہونے کی دلیل تھی۔ لیکن رِکس، جنھوں نے عراق پر حملے کا احاطہ کیا تھا، وہ جارج بش کی دلیل سے قائل نہیں ہوئے۔
’اس قسم کے جواز عراقیوں اور امریکیوں دونوں کے لیے جنگ کی بھاری قیمت پر بات نہیں کرتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ امریکی حملے نے مشرق وسطیٰ کو کس طرح بدل دیا۔‘
بش صدارتی افتتاحی اور آخری رسومات جیسے سرکاری مواقع پر عوامی طور پر نمودار ہوتے رہتے ہیں، لیکن اب اپنا زیادہ تر وقت ٹیکساس میں اپنی زمینوں میں فارمنگ جیسے کاموں میں گزارتے ہیں۔
وہ اس کے علاوہ خود کو پینٹنگ جیسے مشاغل میں بھی مصروف رکھتے ہیں۔ انھوں نے 2021 میں پینٹنگز کی ایک کتاب بھی شائع کی۔
جارج ڈبلیو بش نے 2009 میں وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد سے نسبتاً غیر فعال زندگی گزاری ہے
ڈِک چینی
جارج ڈبلیو بش کے نائب صدر عراق کے خلاف فوجی کارروائی کی ایک حامی آواز تھے اور انھوں نے صدام حسین کی حکومت پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMDs) رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے متعدد عوامی بیانات دیے تھے۔ اُن کے ان بیانات نے امریکی حکومت کو عراق پر حملہ کرنے کے جواز کو مضبوط بنایا۔
جب عراق 2006 میں فرقہ وارانہ لڑائیوں کی زد میں آیا تو ڈِک چینی خود بھی تشدد کے ایک واقعے میں ملوث پایا گیا جب اس نے ایک شکار کے دوران اپنے ایک ساتھی پر گولی چلا دی اور وہ زخمی ہوا تھا۔
اس واقعے کے بعد اُسے دل کا ایک معمولی سا دورہ بھی پڑا تھا، لیکن اس کا زخمی ہونے والا یہ ساتھی، 78 سالہ ہیری وِٹنگٹن بچ گیا۔ بعد میں چینی نے فاکس ٹی وی کو بتایا کہ ’یہ ہیری کی غلطی نہیں ہے۔ آخر بندوق کی لبلبی تو میں نے ہی دبائی تھی۔‘
اب 82 سال کے ڈِک چینی نے حکومت چھوڑنے کے بعد سے بش سے یکسر مختلف رویہ اختیار کیا: وہ سیاسی مسائل پر تبصرہ کرتا ہے اور یہاں تک کہ انتخابی ریلیوں میں بھی شرکت کرتا ہے۔ اس نے جنوری 2021 کے کیپٹل ہِل کے فسادات کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ پر کھل کر تنقید کی۔
ڈِک چینی کو 2018 کی طنزیہ فلم ’وائِس‘ میں بہتر طور پر ’تبدیل شدہ‘ ڈِک چینی کے کردار کو کرسچن بیل نے ادا کیا تھا۔ اولیور اسٹون کی 2008 کے بعد بش انتظامیہ پر بنائی جانے والی فلم ڈبلیو دوسری ایسی فلم تھی۔
ڈک چینی دل کے دورے سے بچ گئے اور ایک بااثر ریپبلکن شخصیت رہے
ڈونلڈ رمز فیلڈ
ڈونلڈ رمزفیلڈ 2001 اور 2006 کے درمیان صدر بش کی حکومت میں وزیرِ دفاع تھے۔ انھوں نے افغانستان اور عراق پر حملوں میں اہم اور متنازع کردار ادا کیا تھا۔
دیگر باتوں کے علاوہ رمز فیلڈ پر صدام حسین کی برطرفی میں مدد کے لیے ’متبادل انٹیلی جنس جائزے‘ فراہم کرنے اور امریکی افواج کے ہاتھوں جنگی قیدیوں کو اذیت دینے کے واقعات کو درگزر کرنے کا بھی الزام لگایا جاتا ہے۔
رمزفیلڈ نے 2006 میں جنگ کے بعد عراق سے نمٹنے کے لیے امریکہ میں بڑھتی ہوئی عوامی اور سیاسی مخالفت کے درمیان وزارت سے مستعفی ہوگئے تھے۔
اس نے عوامی تقریبات میں شرکت سے گریز نہیں کیا۔ اس نے ایک سوانح عمری لکھی، اپنے کیریئر کے بارے میں ایک دستاویزی فلم میں حصہ لیا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست کو الٹنے کی کوشش کرنے کے خلاف انتباہ کرنے میں دیگر سابق وزرائے دفاع کی آواز میں آواز ملائی۔
رمزفیلڈ کی وفات جون 2021 میں کینسر سے ہوئی۔
کونڈولیزا رائس
بش انتظامیہ کے خاتمے کے بعد ڈاکٹر رائس تدریس اور شوقیہ گالف میں واپس آگئی
رائس نے بش کے آٹھ سالوں کے دوران پہلے قومی سلامتی کی مشیر اور پھر وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں اور اس طرح امریکی حکومت کی تاریخ میں کسی بھی سیاہ فام خاتون کے اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوئیں۔
عراق جنگ کی حامی ہونے کے ساتھ ساتھ، اس نے صدام کی حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے مبینہ خطرے کے بارے میں امریکی میڈیا میں فعال طور پر رائے عامہ بنائی۔
یہاں تک کہ امریکی خبر رساں ادارے سی این این (CNN) کو بھی قائل کیا کہ عراقی رہنما جلد ہی جوہری ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں۔
بش کے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد رائس نے اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں اپنا تدریسی کیرئیر دوبارہ سے شروع کیا اور وہیں ہوور انسٹی ٹیوشن تھنک ٹینک کی ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔
ماضی میں ان کی سیاست میں واپسی کے بارے میں افواہیں آتی رہی ہیں۔
پال بریمر
بریمر کو مئی 2003 میں صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق کا عارضی اتحادی ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا تھا، جو اُس وقت ایک مفتوع عراق کا اعلیٰ ترین شہری اتھارٹی والا عہدہ بن گیا۔
عراق کی فوج کو ختم کرنے کے ان کے فیصلے کو کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں تعمیرِ نو کی کوششوں میں فنڈز کے غلط استعمال کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
بریمر جو اب 81 سال کے ہیں، امریکی ریاست ورمونٹ کے ایک دیہی علاقے میں پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔
2018 میں اُن کا امریکی اخبارات کی سرخیوں میں نمایاں ذکر آیا تھا جب یہ بات سامنے آئی کہ وہ ایک تفریحی مقام میں سکینگ کے انسٹرکٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔
(ایک ریزورٹ میں سکینگ لباس پہنے ہوئے پال بریمر کی تصویر دکھاتے ہوئے ٹویٹ)
کولِن پاول
امریکی افواج کے سابق سربراہ جنرل پاول عراق جنگ کے وقت امریکی وزیر خارجہ تھے – اس کردار پر تقرر ہونے والے وہ پہلے سیاہ فام تھے – اور 1990-91 کی خلیجی جنگ کے دوران جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔
جارج ڈبلیو بش کی کابینہ کے دیگر اراکین کے برعکس پاول ابتدا میں عراق پر حملہ کرنے کے منصوبے کے خلاف تھا، لیکن فروری 2003 میں انہوں نے ہی اقوام متحدہ سے فوجی مداخلت کی وکالت کی، حتیٰ کہ صدام کی حکومت کے وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں (WMDs) کو چھپانے کے الزام کے ’شواہد‘ بھی پیش کی۔
جنرل پاول نے 2004 میں کانگریس کے سامنے یہ تسلیم کرنے کے بعد استعفیٰ دے دیا کہ ایک سال قبل پیش کی گئی انٹیلی جنس ’غلط‘ تھی اور بش انتظامیہ کے حق میں نہیں تھی۔
انہوں نے لوگوں کو لیکچرز دینے کے طور پر اپنا کیریئر شروع کیا اور 2008 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ کے سیاہ فام صدارتی امیدوار براک اوباما کی حمایت کے لیے ریپبلکن پارٹی سے اپنا تعلق توڑ لیا تھا۔
پاول کی وفات 2021 میں 84 سال کی عمر میں کووڈ 19 کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوئی۔
پاول (بائیں) وزیر خارجہ کے طور پر خدمات انجام دینے والے پہلے سیاہ فام امریکی تھے
ٹونے بلیئر
عراق جنگ کے لیے ان کی حمایت کی وجہ سے سابق برطانوی وزیر اعظم کی ساکھ کو جارج ڈبلیو بش سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
بلیئر کو اس جنگ کی سرکاری انکوائری کی طرف سے بہت زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس نے 2016 میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس نے صدام حسین کی طرف سے لاحق خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا، غیر تیار فوجیوں کو جنگ میں بھیج دیا تھا اور اس کے بعد کے حالات سے نمٹنے کے لیے ’مکمل طور پر ناکافی‘ منصوبے تھے۔
بلیئر جو اب 69 سال کے ہیں، نے 2007 میں استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کے بعد سے انہوں نے اپنا زیادہ تر وقت اپنی این جی او ٹونی بلیئر انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل چینج، کے لیے وقف کیا ہے۔
لیکن عراق اب بھی اس کی میراث پر ایک سیاہ دھبہ ہے: گذشتہ سال جنوری میں، 500,000 سے زیادہ لوگوں نے بلیئر کو برطانوی حکومت سے ’نائٹ ہڈ‘ ملنے کے خلاف ایک پٹیشن پر دستخط کیے تھے۔
ہنس بلِکس
اقوام متحدہ کے سابق انسپکٹر ہنس بلکس امریکی صدر جاعج بش انتظامیہ کے لیے ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتے تھے
سویڈن کے سفارت کار اور سیاست دان نے اقوام متحدہ کے نگرانی، تصدیق اور معائنہ کمیشن کی قیادت کی۔
اس کمیشن نے 2003 میں امریکی قیادت میں حملے سے پہلے عراق میں وسیع سطح پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کے لیے تحقیقات کی اور بالآخر انھیں ایسا کوئی ہتھیار نہیں ملا۔
بلِکس اس وقت سٹاک ہوم میں رہتا ہے اور اب بھی بین الاقوامی سیکورٹی پالیسی پر بحث میں سرگرم ہے۔
وہ 94 سال کی عمر میں ایک نئی کتاب ’اے فیئر ویل ٹو وار‘ (A Farewell to Wars) بھی مکمل کر کے شائع کرنے جا رہے ہیں۔
علی حسن الماجد ’کیمیکل علی‘
سابق عراقی فوجی کمانڈر نے کرد باغیوں کے خلاف زہریلی گیس کے حملوں کی تعیناتی میں اپنے مبینہ کردار کی بدولت کیمیکل علی کا مشہور لقب حاصل کیا، ان کیمیائی حملوں میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
الماجد کو اگست 2003 میں امریکی افواج نے پکڑ لیا تھا، اس پر نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کا الزام لگایا گیا تھا اور جنوری 2010 میں اسے پھانسی دے دی گئی تھی۔
محمد سعید الصحاف ’کومیکل علی‘
الصحاف اس وقت عراقی حکومت کے ترجمان تھے
الصحاف 2003 کے حملے کے وقت عراق کے وزیر اطلاعات تھے اور جلد ہی انھوں نے روزانہ کی پریس بریفنگ میں رنگا رنگ کامیابی کے دعوؤں کی وجہ سے مغربی میڈیا کی طرف سے مزاحیہ لقب ’کومیکل علی‘ یعنی ’مضحکہ خیز علی‘ حاصل کر لیا۔
وہ صورتحال پر بہت زیادہ مسخ شدہ بیانات پیش کرتے تھے۔ ان کے دعوؤں میں یہ وعدے بھی شامل ہوتے تھے کہ امریکی افواج کو شکست دی جائے گی۔
اس کا موجودہ ٹھکانہ ایک معمہ ہے – خیال کیا جاتا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات فرار ہو گیا ہے۔
مقتدہ الصدر
امریکہ کی قیادت میں حملے کے بعد یہ نوجوان شیعہ مسلم عالم کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، کیونکہ اس کی طاقتور مہدی آرمی ملیشیا نے غیر ملکی فوجیوں کا مقابلہ کیا اور ان پر فرقہ وارانہ ’ڈیتھ اسکواڈز‘ (قاتل جتّھے) منظم کرنے کا الزام لگایا گیا۔
اس کے بعد اس نے خود کو ایک قوم پرست اور انسداد بدعنوانی مہم چلانے والے کے طور پر پیش کیا ہے، اور ایک سیاسی ’بادشاہ گر‘ کے طور پر ابھرا ہے۔
سائرون کہلانے والے ان کی دوست سیاسی جماعتوں کے سیاسی اتحاد نے 2018 اور 2021 کے عراقی پارلیمانی انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔
مقتدا الصدر عراقی سیاست میں ایک بادشاہ گر بن کر اُبھرے
نوری المالکی
المالکی صدام کے خاتمے کے بعد عراق کے پہلے مکمل مدت کے وزیر اعظم تھے، جنہوں نے مئی 2006 میں اقتدار سنبھالا۔
ناقدین نے ان پر سنی اور کرد سیاست دانوں کو قومی دھارے سے الگ کرنے کا الزام لگایا اور 2007 کے اوائل میں ہی ان کی علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا۔
72 سالہ بزرگ نوری المالکی آج بھی ملکی سیاست میں شامل ہیں۔
آیت اللہ سید علی السیستانی
عراق کی اعلیٰ ترین شیعہ علما کی اتھارٹی کے طور پر، السیستانی نے حملے کے بعد عراق کی سیاست اور مذہب میں کلیدی کردار ادا کیا۔ الصدر کے برعکس اس نے بغاوت یا سرکشی کے بجائے سیاسی مصلحت پسندی کا انتخاب کیا۔
92 سال کی عمر میں سید علی السیستانی اب بھی عراق میں ایک انتہائی بااثر شخصیت ہیں۔
آیت اللہ علی السیستانی نے عراق کی منقسم سیاست میں ایک معتدل شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں
منتظر الزیدی
عراق کے ٹیلیوژن کے صحافی منتظر الزیدی نے عجیب و غریب حالات میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔
دسمبر 2008 میں اس نے بغداد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جارج ڈبلیو بش پر اپنے جوتے پھینکے۔ یہ پریس کانفرنس امریکی صدر کے عراق کے آخری دورے کے موقع پر منعقد کی گئی تھی۔
الزیدی نے پہلا جوتا پھینکتے ہوئے چیخ کر کہا تھا کہ ’یہ عراقی عوام کی طرف سے الوداعی بوسہ ہے، اوہ کتے۔‘
صحافی نے چھ ماہ قید کاٹی، جس کے دوران اس نے دعویٰ کیا کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور رہائی کے بعد وہ لبنان چلا گیا۔
الزیدی بعد میں عراق واپس آئے اور 2018 کے عراقی پارلیمانی انتخابات میں ناکام مہم چلائی۔
انھوں نے حال ہی میں روئٹرز نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ’یہ منظر اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک دن ایک سادہ آدمی اس قابل تھا کہ وہ تمام تر طاقت، ظلم، اسلحے، میڈیا، پیسے اور اختیار کے والے اُس متکبر شخص کے سامنے انکار کر سکے۔‘
Comments are closed.