سپریم کورٹ کورٹ آف پاکستان نے 16 ہزار سے زائد برطرف ملازمین کو حکم امتناع پر بحال کرنے اور فیصلے تک میڈیکل الاؤنس دینے کی استدعا مسترد کردی۔
سیکڈ ایمپلائز ایکٹ 2010 کالعدم قرار دینے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں کی سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ملازمین کی بحالی اور مراعات کا قانون موجود ہے، کیا کام کیے بغیر کسی کو 12 سال کی تنخواہ دینے کا قانون بن سکتا ہے؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ عدالت نے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین سے متصادم ہونے پر قانون کالعدم قرار دیا، حکومت خود ملازمین کی بحالی کے لئے عدالت آئی ہے، اگر ملازمین کو غلط نکالا گیا ہے تو حکومت بحال کردے۔
وکیل افتخار گیلانی نے کہا کہ ان کے 173 موکل ایکٹ نہیں آرڈیننس کے تحت بحال ہوئے تھے، سپریم کورٹ نے بحالی ایکٹ کالعدم قرار دیا ہے آرڈیننس نہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ حکومت خود ملازمین کی بحالی کیلئے عدالت آئی ہے، اگر ملازمین کو غلط نکالا گیا ہے تو حکومت بحال کردے، بعض اداروں نے ملازمین کے کنٹریکٹ ختم ہونے پر انہیں نکالا اس کا مطلب ہے ملازمین مزید ملازمت کے قابل نہیں تھے، کیا ایسے ملازمین کو قانون بناکر زبردستی بحال کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بارہ سال بعد برطرف ملازمین کی بحالی نئے امیدواروں کی حق تلفی ہے، ملازمت کے لئے اپلائی کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے، برطرف ملازمین بحالی سے پہلے 11 سال کیا کرتے رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ایسے ملازمین کو بھی بحال کیا گیا جن کی اپیلیں سپریم کورٹ سے مسترد یا کنٹریکٹ ختم ہوچکے تھے۔
وکیل ملازمین وسیم سجاد نے کہا کہ لوگوں کی عمر زیادہ ہوچکی ہیں، ان کے بچے اسکول جارہے ہیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نےکہا کہ عدالت میں صرف قانون کی بات کریں۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ مخصوص افراد یا فرد واحد کے لئے بنائے قوانین ماضی میں بھی کالعدم ہوچکے ہیں۔
عدالت نے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.