عباس علی سلیمانی: ایران کی طاقت ور کونسل کے سینیئر رکن کا بینک میں قتل

ایران

،تصویر کا ذریعہEPA

  • مصنف, ڈیوڈ گریٹین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

ایران کے شمالی علاقے میں ملک کی طاقت ور مجلس خبرگان رهبری کے رکن کو ایک بینک میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق عباس علی سلیمانی پر یہ حملہ مزندران صوبے میں بابولسر کے ایک بینک میں کیا گیا۔

مقامی گورنر کا کہنا تھا کہ حملہ آور بینک کا سکیورٹی گارڈ تھا جسے حراست میں لیا جا چکا ہے تاہم اس حملے کی وجہ واضح نہیں ہو سکی۔

واضح رہے کہ سلیمانی مجلس خبرگان رهبری کے 88 اراکین میں سے ایک تھے جو ملک کے سپریم لیڈر کی تقرری کرتی ہے۔

یہ مجلس ملک کے سپریم لیڈر کی کارکردگی کا بھی جائزہ لیتی ہے اور اس کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر رہبر اعلی اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے تو ان کو ہٹا دے۔

اس سے قبل سلیمانی 17 سال تک جنوب مشرقی صوبے سیستان بلوچستان میں ایران کے موجودہ رہبر علی خامنہ ای کے نمائندے کے طور پر تعینات رہے اور 2019 میں اس عہدے سے مستعفی ہوئے۔

بی بی سی فارسی کے مطابق سلیمانی ایران میں تمام مقامات پر خواتین اور مردوں کی صنفی علیحدگی کے حامی تھے۔

70 سالہ سلیمانی ذاتی کام کے سلسلے میں بینک میں موجود تھے جب ان پر بدھ کے دن حملہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

تسنیم نیوز ایجنسی کی جانب سے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی گئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سلیمانی روایتی لباس میں بینک کے اندر ایک کرسی پر بیٹھے ہیں۔

ایک درمیانی عمر کا شخص جس نے نیلے اور سفید رنگ کا یونیفارم پہن رکھا ہے، اور ایک سب مشین گن سے لیس لگتا ہے، ان کے پیچھے سے قریب آ کر کئی گولیاں چلاتا ہے۔

اس شخص کو دو لوگ حراست میں لیتے ہیں جن میں سے ایک نے سبز رنگ کا یونیفارم پہن رکھا ہے۔

مقامی گورنر کا کہنا ہے کہ حملہ آور ایک مقامی شخص تھا اور ان متعدد سکیورٹی گارڈز میں شامل تھا جن کو ایک نجی کمپنی نے بینک کی حفاظت پر تعینات کیا ہوا تھا۔

انھوں نے سرکاری ٹی وی کو بتایا کہ اب تک اس قاتلانہ حملے کی وجہ واضح نہیں ہو سکی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کی تفتیش جاری ہے لیکن ’ہماری اطلاعات اور دستاویزات کے مطابق یہ سکیورٹی یا دہشت گردی کا واقعہ نہیں لگتا۔‘

ایران کی ایک اور ویب سائٹ نے ایک عینی شاہد کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ حملہ آور بینک کا گارڈ نہیں تھا بلکہ اس نے بینک گارڈ سے بندوق چھین کر گولی چلائی۔

یاد رہے کہ اپریل کے مہینے میں بھی دو سینیئر شیعہ اراکین پر مشہد میں حملہ کیا گیا تھا جبکہ جون میں اس حملے میں ملوث ایک ازبک شخص کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ