ہائپر سونک میزائل: عالمی طاقتوں میں ہتھیاروں کا دوڑ کا سبب بننے والے جدید میزائل کتنے خطرناک ہیں؟
گذشتہ ماہ چین کے آسمان پر راکٹ جیسی کوئی چیز بہت تیز رفتار کے ساتھ اڑتی دیکھی گئی تھی۔ تقریباً پوری زمین کا چکر لگانے کے بعد مبینہ طور پر یہ اپنے ہدف سے تقریباً 40 کلومیٹر پہلے گر گئی۔
ماہرین کے مطابق یہ ایک نئی قسم کا ہائپر سونک میزائل تھا، تاہم چین نے اس کی تردید کی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آواز کی رفتار سے کئی گنا زیادہ تیزی سے چلنے والے یہ میزائل امریکہ، چین اور روس کے درمیان ہتھیاروں کی دوڑ کا باعث بن چکے ہیں۔
آئیے اس بات کی تحقیق کرتے ہیں کہ ہائپر سونک میزائل کیا ہیں اور وہ ہمارے لیے کیوں باعثِ تشویش ہو سکتے ہیں؟
پہلا حصہ: راکٹ سائنس
ڈاکٹر گستاؤ گریسل آسٹریا کی وزارت دفاع میں کام کر چکے ہیں اور اس وقت یورپی کونسل برائے خارجی امور میں سینیئر پالیسی فیلو ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جنگ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ ہوا میں چیزیں پھینک کر حملہ کرنا۔ پہلے زمانے میں پتھر یا لوہے کے گولے پھینکنے کے لیے بڑی غلیل اور توپ جیسے ہتھیار ہوتے تھے۔‘
’ٹریبوچ‘ غلیل کی شکل کا بڑا ہتھیار تھا جس کے ذریعے پتھر اور لوہے کے بڑے بڑے ٹکڑے دشمن کی فوج پر یا قلعہ کی دیوار پر پھینکے جاتے تھے۔ بارود کی دریافت سے پہلے یہ میدان جنگ میں بہت اہم ہتھیار ہوا کرتا تھا
وہ کہتے ہیں کہ انجن لگا کر چیزوں کو زیادہ طاقت کے ساتھ دور تک پھینکنے کے قابل ہونے کے احساس نے میزائل ٹیکنالوجی کو جنم دیا، اس تکنیک کو سنہ 1930 کی دہائی میں جرمنی نے مزید بہتر کیا۔
گریسل کا کہنا ہے کہ ’راکٹ یا میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی جرمنی کی ریشور فوج کے دور میں ہوئی تھی۔ جرمنی نیا ہتھیار بنانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس نے سینکڑوں سائنسدانوں کو اکٹھا کیا اور اس ٹیکنالوجی سے وابستہ انجینیئرنگ کی زیادہ تر رکاوٹیں دور کر دی گئیں۔‘
پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر ’ورسائے معاہدے‘ کے جرمنی پر فضائیہ رکھنے اور فوجی ٹیکنالوجی میں پیش رفت کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی لیکن راکٹ ٹیکنالوجی کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا کیونکہ اس وقت یہ ٹیکنالوجی اپنا کوئی خاص وجود نہیں رکھتی تھی۔
جرمنی نے اس پر کام شروع کیا اور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک نئے ہتھیار بنا لیے۔
جہاں دریائے پین بحیرہ بالٹک سے ملتا ہے اس کے قریب ’پین میونڈے‘ نامی جگہ پر جرمنی نے دنیا کا پہلا سب سے بڑا اور جدید ترین ہتھیاروں کا تحقیقی مرکز بنایا۔ اس جگہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہاں 400 کلومیٹر کی ٹیسٹنگ رینج میسر تھی۔
گریسل کہتے ہیں ’جرمنی نے دو بالکل مختلف تحقیقی پروگرام ترتیب دیے، ’وی ون‘ اور ’وی ٹو‘ کے تحت کم فاصلے تک مار کرنے والے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل بنائے گئے۔ اور یہ دونوں بالکل مختلف قسم کے ہتھیار تھے۔‘
انھیں اس زمانے میں ’انتقامی ہتھیار‘ کہا جاتا تھا۔ ’وی ون‘ کو جیٹ انجن کی مدد سے دور تک پھینکا جا سکتا تھا۔ انھیں کروز میزائلوں کی ابتدائی شکل کہا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف تیز رفتار ’وی ٹو‘ طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل تھا۔
تاہم دونوں میں خامیاں بھی تھیں۔ ’وی ون‘ داغے جانے کے بعد جلد ہی زیادہ گرم ہو جاتا تھا اور راستہ بھٹک جاتا تھا اور ’وی ٹو‘ میں ایک خامی کی وجہ سے ہٹلر اسے کبھی بھی امریکہ کے خلاف استعمال نہیں کر پائے۔
ورنر وون براؤن کو جرمن راکٹ سائنس کا ’باپ‘ کہا جاتا ہے۔ ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، براؤن ان 120 سائنسدانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے بعد میں فوجی ٹیکنالوجی تیار کرنے کے لیے پیپر کلپ نامی خفیہ امریکی مہم میں کام کیا
گریسل کا کہنا ہے کہ ’اس کی ٹیکنالوجی میں خامی تھی، اگر رینج بڑھائی جاتی تو ٹیکنالوجی اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی اور ہدف سے بھٹکنے کا خطرہ رہتا ہے۔ نیو یارک پر حملے کے لیے میزائل کا سائز بڑھانا پڑتا۔ اور یہ بھی طے نہیں تھا کہ یہ ہدف کو نشانہ بنانے کے قابل ہو گا۔ درست نشانہ لگانے کے بارے میں یہ جرمنی کی توقعات پر پورا نہیں اُترا۔‘
جنگ کے دوران جرمنی نے لندن، اینٹورپ اور پیرس پر میزائل حملے کیے لیکن اس سے جنگ کا رُخ نہیں بدلا، بعد میں ان منصوبوں میں کام کرنے والے سائنسدان ہتھیاروں کی تحقیق اور خلائی مشن پر کام کرنے کے لیے امریکا اور سوویت یونین گئے۔ دونوں ممالک نے اپنی فوج کی طاقت بڑھانے کے لیے میزائل ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے کام کیا۔
ہائپر سونک میزائل
سادہ الفاظ میں کہیں تو جرمنی کے یہ دو ہتھیار آج کے کروز اور بیلسٹک میزائل ہیں۔ کروز میزائل زمین کی سطح کے قریب سے پرواز کرتے ہیں اور کم فاصلے تک مار کرتے ہیں، جبکہ بیلسٹک میزائل فضا سے باہر نکل کر ہزاروں کلومیٹر دور ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر لورا گریکو میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں ریسرچ فیلو ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہدف کو درست طریقے سے نشانہ بنانے اور دشمن سے چھپنے کے لیے میزائل کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہوا میں اپنی حرکت کو کنٹرول کرے۔ جدید ہائپر سونک میزائل ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اپنا راستہ بدلنے کے لیے وہ ’ایرو ڈائنیمک‘ قوت کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اُن کا ڈیزائن خاص طور پر اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ فضا میں انتہائی تیز رفتاری سے اڑتے ہوئے اوپر، نیچے یا بائیں اور دائیں مڑ سکیں۔
یہ صلاحیت اسے دشمن کی نظروں سے چھپ کر حملہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ تاہم لورا کا کہنا ہے کہ میزائل کو ٹریک کرنا مشکل نہیں ہے۔
لورا گریگو کہتی ہیں کہ ’یہ میزائل نہ صرف روشنی کو منعکس کرتے ہیں بلکہ گرمی بھی پیدا کرتے ہیں اور حساس سینسرز اُن کا پتہ لگا سکتے ہیں۔ بیلسٹک میزائلوں کا پتہ لگانے کے لیے امریکہ اور روس نے خلا میں انفراریڈ سینسرز کے ساتھ سیٹلائٹ سسٹم بنا رکھا ہے۔ گرمی اور روشنی کی وجہ سے انفراریڈ سسٹم ان کے پورے راستے کا پتہ لگا سکتا ہے۔ میزائل کی رفتار گرنے سے پہلے کم ہو جاتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب یہ ریڈار پر بھی نظر آ سکتے ہیں۔‘
لورا کے مطابق یہ کہنا غلط ہو گا کہ ہائپر سونک میزائل دشمن کی نظروں سے چھپ سکتے ہیں۔ لیکن یہ میزائل کروز میزائلوں کی ایک بڑی خرابی کو پار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’فضا میں ہوا کے ساتھ رگڑ سے میزائل گرم ہو جاتے ہیں اور اس درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے اس کی رفتار کو کم کرنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں ہائپرسونک میزائل اس لیے بہتر ہیں کیونکہ وہ اپنے راستے کا ایک بڑا حصہ فضا سے باہر طے کرتے ہیں اور زیادہ گرم نہیں ہوتے۔‘
لورا بھی اس دعوے کی تائید نہیں کرتیں کہ ہائپر سونک میزائل ایک بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’کچھ ممالک کا دعویٰ ہے کہ وہ ایسے میزائل بنا رہے ہیں، کیونکہ وہ تیز رفتار ہیں۔ لیکن تکنیکی طور پر یہ غلط ہے کہ بیلسٹک میزائل ان کی برابری کر سکتے ہیں۔ یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ وہ چھپ کر حملہ کر سکتے ہیں۔ اگر وہ ہوا میں اپنی سمت بدلنے کی بات کریں تو جدید میزائل بھی یہ کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
روس کا نیا 9M729 میزائل زمین سے سطح پر مار کرنے والا کروز میزائل سسٹم ہے۔ روس نے کہا کہ اس کی رینج 500 کلومیٹر ہے جب کہ امریکا نے دعویٰ کیا کہ اس کی رینج اس سے زیادہ ہے
یہ بھی پڑھیے
ہائپر سونک ہتھیاروں کی دوڑ
فرانس، انڈیا، جاپان، چین اور آسٹریلیا ہائپر سونک ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں امریکہ، روس اور چین کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی ہے۔
ڈاکٹر مرینا فاوارو انسٹیٹیوٹ فار پیس ریسرچ اینڈ سکیورٹی پالیسی، یونیورسٹی آف ہیمبرگ میں ریسرچ فیلو ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ملٹری ٹیکنالوجی کے معاملے میں ایک دوسرے سے آگے رہنے کا مقابلہ کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ میزائل جتنا تیز ہو، اتنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ہتھیار بھی ملک کی عزت کا سوال بن جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ ممالک بہتر ہتھیار اس لیے بنا رہے ہیں کہ وہ انھیں استعمال کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ جدید ہتھیار بنا سکتے ہیں۔‘
مطلب یہ کہ چین کا حالیہ ہائپر سونک میزائل کا تجربہ یہ دکھانے کی کوشش ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے معاملے میں امریکہ کے برابر ہے۔
ڈاکٹر مرینا کہتی ہیں ’امریکہ کہتا رہا ہے کہ مستقبل میں ممکنہ خطرات کو کم کرنے اور ضرورت پڑنے پر جوابی کارروائی کرنے کے لیے وہ ہائپر سونک ٹیکنالوجی پر کام کر رہا ہے۔ بہت سے رہنماؤں کو یقین ہے کہ روس اور چین اس طرح کے ہتھیار بنا رہے ہیں اس لیے امریکہ کو بھی ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
اگر دیکھا جائے تو اسلحہ کی دوڑ ایسی ہے کہ جو ٹیکنالوجی ایک ملک نے بنائی ہے، دوسرا وہی یا اس سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہائپرسونک ٹیکنالوجی پر امریکہ کے کام کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ روس اور چین میں اس پر کام ہو رہا ہے۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین نے ایٹمی ہتھیار بنائے لیکن انھیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے ہتھیار استعمال کرنے والوں کو اس کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ باہمی نقصان کا یہ اصول ممالک کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے روکتا ہے اور توازن برقرار رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روس اور چین ہائپر سونک ٹیکنالوجی بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔ انھیں خدشہ ہے کہ جنگی صورتحال پیدا ہونے پر روایتی میزائل حملوں کو ناکام بنانے میں امریکی دفاعی نظام ان سے بہتر ہے۔
ڈاکٹر مرینا کہتی ہیں ’جب ہم باہمی نقصان کے اصول کی بات کرتے ہیں تو ہم سٹریٹجک استحکام کی بھی بات کرتے ہیں۔ اگر امریکہ چینی اور روسی میزائل حملوں سے بچا رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ کو کوئی نقصان نہیں ہوا، لیکن چین اور روس کو خطرہ ہو گا۔‘
تاہم مرینا کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ روس اور چین امریکہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم کا غلط اندازہ لگا رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسی وجہ سے چین نے ہائپرسونک ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہو۔
تاہم چین نے ابھی تک اس کے ٹیسٹ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں دی ہیں۔ چین کا دعویٰ تھا کہ یہ پرانے خلائی جہاز کے دوبارہ استعمال سے متعلق ایک ٹیسٹ تھا۔
روس کا روڈنک ملٹری سیٹلائیٹ
وہ کہتی ہیں ’چین کے پاس ہائپرسونک ہتھیار ہونے سے انکار نہیں، وہ پہلے بھی اس بارے میں دنیا کو بتاتا رہا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ قدرے عجیب ہے کیونکہ ممالک کے لیے اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر ملک ہائپر سونک ہتھیار چاہتا ہے۔ اور یہی ہتھیاروں کی دوڑ کی وجہ ہے۔‘
لیکن کیا یہ دوڑ دنیا کو ایک خطرناک جگہ بنا رہی ہے؟
سفارت کاری، کشیدگی اور اسلحہ
سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایٹمی حملے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے تھے ۔ ان میں سے بیشتر معاہدوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے اور آخری معاہدہ 2026 میں ختم ہونے والا ہے۔
لیکن امریکہ کا چین کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر کیرمرون ٹریسی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ کوآپریشن میں ریسرچ سکالر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہائپر سونک میزائل ملکوں کے درمیان کشیدگی کو بڑھاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس واضح حقائق ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کئی ممالک ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہیں اور مستقبل میں ان کے درمیان کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔‘ لیکن ایسا نہیں لگتا کہ ہائپر سانک میزائل کے ہونے سے ممکنہ جنگ کا خطرہ بڑھے گا۔
اس وقت نئی میزائل ٹیکنالوجی امریکا اور چین کو جنگ کی طرف دھکیلنے کے بجائے ان کے درمیان کشیدگی کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ لیکن یہ صورتحال بدل سکتی ہے۔
کیمرون ٹریسی کا کہنا ہے کہ ’اگر ہائپر سونک میزائل ٹیکنالوجی کے حامل دستے دوسرے ممالک کی سرحد کے قریب تعینات کیے جائیں گے تو تشویش بڑھے گی۔ ایسا کرنے سے ہی دوسرا ملک پریشان ہو گا۔ وہ حملے کی توقع میں پہل بھی کر سکتا ہے۔ لیکن ایسا کرنا زیادہ تر دھمکی دینے جیسا ہوتا ہے نہ کہ حملہ کرنے جیسا۔‘
چین اور روس کے ہائپرسونک ہتھیار بنانے کی وجہ یہ ہے کہ دونوں کو لگتا ہے کہ امریکی میزائل ڈیفنس سسٹم بہت مضبوط ہے۔ لیکن کیا امریکہ انھیں روک سکتا ہے؟
کیمرون ٹریسی کہتے ہیں کہ ‘اگر امریکہ اپنے دفاعی نظام کے بارے میں بات کرنے اور اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تیار ہے جس میں میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب پر پابندیاں ہیں تو روس اور چین بھی ہائپر سونک ہتھیاروں کو لگام دے سکتے ہیں۔ انھوں نے ہتھیار اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائے ہیں کہ وہ دفاعی نظام کو توڑ سکیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ ایسا ہو گا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اپنے دفاعی نظام پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنے کا یہ ایک موثر طریقہ ہو سکتا ہے لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہو گا۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اب مزید کئی قسم کے ہائپر سونک ہتھیار بنائے جائیں گے۔ ہر ملک اس ٹیکنالوجی پر یہ سوچ کر کام کر رہا ہے کہ ضرورت پڑی تو کیا ہو گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ دوڑ جلد ختم ہونے والی ہے۔‘
اپنے سوال پر واپس آتے ہیں، ہائپر سونک میزائل کیوں باعث تشویش ہیں؟
یہ خاص قسم کے میزائل دیگر میزائلوں کے مقابلے اپنی رفتار کو کنٹرول کرنے اور راستہ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ روایتی کروز میزائلوں کے مقابلے میں بہت تیز رفتاری سے چلتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ دشمن کی نظروں سے چھپ سکتے ہیں اور ایک بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔
چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی پہلے ہی اپنے عروج پر ہے اور یہ میزائل اس کشیدگی کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
لیکن نہ تو یہ ٹیکنالوجی حتمی ہے اور نہ ہی یہ دوڑ کبھی ختم ہوتی ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں ایسی صورتحال سے بچنے کی کوشش کریں جہاں تصادم کا امکان ہو۔
Comments are closed.