صدر ولادیمیر پوتن کو کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے روسی حکام کس حد تک جا رہے ہیں؟
- اینا پشکرسکیا، پاویل اکسینوف اور پیٹر کوزلوف
- بی بی سی رشیئن
کورونا کی وبا جب سے شروع ہوئی ہے، تب سے اب تک روسی حکام نے صدر ولادیمیر پوتن کو اس وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے انتہائی غیر معمولی اقدامات کیے ہیں۔
ان غیر معمولی اقدامات کو کیسے ممکن بنایا جاتا ہے اور اس پر کتنا خرچہ آتا ہے، یہ ایک دلچسپ کہانی ہے۔
گذشتہ سال سے اب تک روس میں سینکڑوں افراد کو صرف اس لیے قرنطینہ میں رہنا پڑا کیونکہ اُنھیں ولادیمیر پوتن سے قریبی رابطے میں آنا تھا۔ مگر کئی لوگوں کو تو اس وقت بھی خود ساختہ تنہائی اختیار کرنی پڑی جب اُنھیں صدر کے براہِ راست سامنے نہیں آنا تھا مگر وہ اُن لوگوں سے مل چکے تھے جن کی صدر پوتن سے مستقبل قریب میں ملاقات ہونا طے تھی۔
25 مارچ 2020 کو صدر پوتن نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا تھا کہ روس میں یکم اپریل سے ایک ہفتے کے لیے کام کاج بند کر دیا جائے گا کیونکہ کورونا ملک میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس اعلان کے بعد اپریل میں ایک جامع لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا جس میں غیر ضروری دکانیں بند کر دی گئی، عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی اور آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنے گھر سے کام کرنے لگا۔
اسی دوران صدر پوتن اور دیگر اعلیٰ روسی حکومتی عہدیداروں کو خدمات فراہم کرنے والے خصوصی فضائی عملے ’روسیا‘ کو بھی 26 مارچ 2020 کو پہلی بار ماسکو کے قریب ہی ایک ہوٹل میں قرنطینہ میں رکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
اس کے بعد سے اب تک سینکڑوں پائلٹس، طبی عملے کے ارکان، ڈرائیورز اور دیگر افراد سمیت صدر سے ملنے آنے والوں کو روس بھر کے درجنوں ہوٹلز میں قرنطینہ اختیار کرنا پڑا ہے تاکہ صدر پوتن کورونا کے انفیکشن سے محفوظ رہ سکیں۔
حال ہی میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ روسی صدر کو روس میں ہی تیار کی گئی ایک ویکسین لگائی گئی ہے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ اس ویکسین کا نام کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بظاہر ان ’قرنطینہ ہوٹلز‘ کے ساتھ معاہدے اگلے سال تک کے لیے کر لیے گئے ہیں۔
بی بی سی رشیئن سروس نے حساب لگایا ہے کہ صدارتی معاملات کو چلائے رکھنے کے ذمہ دار ادارے ’ڈائریکٹوریٹ آف دی پریزیڈینٹ آف دی رشیئن فیڈریشن‘ کو کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے ریاستی بجٹ سے 6.4 ارب روبلز (تقریباً آٹھ کروڑ 40 لاکھ ڈالر) دیے گئے ہیں۔
بی بی سی رشیئن کو معلوم ہوا ہے کہ روس میں اس قسم کے قرنطینہ کے لیے کم از کم 12 ہوٹل استعمال کیے گئے ہیں۔ یہ ہوٹل ماسکو اور مضافاتی خطے، قبضے میں لیے گئے کریمیا خطے اور جنوبی شہر سوچی کے قریب ایک جگہ میں واقع ہیں۔
سوچی وہ شہر ہے جہاں سنہ 2014 میں سرمائی اولمپکس منعقد ہوئے تھے اور یہ صدر پوتن کی پسندیدہ ترین جگہوں میں سے ہے۔
اس فہرست میں کوئی بھی نجی ہوٹل نہیں ہیں بلکہ صدر کے مہمانوں اور عملے کے ارکان نے جن بھی ہوٹلز میں قرنطینہ اختیار کیا وہ سب ہی صدارتی ڈائریکٹوریٹ کے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی بکنگز تو مارچ 2022 تک کے لیے کروا لی گئی ہیں۔
روسیا نامی فضائی عملہ ان ہوٹلز میں بظاہر سب سے زیادہ رہا ہے۔ یہ عملہ صدر ولادیمیر پوتن، وزیرِ اعظم میخائل مسہوستن اور کابینہ کے آٹھ دیگر وزرا کو خدمات فراہم کرتا ہے۔
بی بی سی رشیئن کو معلوم ہوا ہے کہ صدر پوتن نے اپنے گذشتہ سال کا زیادہ تر حصہ سوچی میں اپنی رہائش گاہ سے کام کرتے ہوئے گزارا ہے۔ قرنطینہ کے حالات سے واقف ایک ذریعے نے بتایا کہ درجنوں کی تعداد میں پائلٹس اور فضائی عملے کے دیگر ارکان کو سوچی کے قریب قرنطینہ میں رکھا گیا تاکہ صدر، وزیرِ اعظم، وزیرِ خارجہ اور کئی دیگر اہم شخصیات کو ٹرانسپورٹ خدمات فراہم کی جا سکیں۔
قرنطینہ میں رکھے گئے افراد میں طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے پائلٹس شامل تھے۔
دوسری عالمی جنگ میں فتح کی 75 ویں سالانہ تقریب پر روس میں ایک بڑا جشن ہونا چاہیے تھا۔ اس آخری جنگ کی یادیں اور نازی ازم کی شکست میں روس کا کردار وہ عناصر ہیں جسے ملا کر روسی حکومت کا حب الوطنی کا بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ یہ جشن روس کے یومِ فتح (وکٹری ڈے) کے موقع پر نو مئی کو ریڈ سکوائر میں منایا جانا تھا۔
مگر اسے 24 جون 2020 تک ملتوی کر دیا گیا اور بہت چھوٹے پیمانے پر منایا گیا تاہم اس میں فوجی پریڈ پھر بھی منعقد کی گئی۔ جنگ میں حصہ لینے والے فوجیوں اور مشہور شخصیات نے صدر پوتن سے ہاتھ ملائے اور ایوارڈز بھی حاصل کیے۔
بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق صدر سے آمنا سامنا ہونے سے پہلے 200 لوگوں بشمول جنگ میں شریک ہونے والے 80 اور 90 سال سے زیادہ عمر کے سابق اہلکاروں کو اس ایونٹ سے دو ہفتے قبل تنہائی (قرنطینہ) میں رہنا پڑا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جون میں ہونے والی اس پریڈ سے پہلے تصدیق کی تھی کہ ’جنگ میں شریک سابق فوجیوں کا ایک گروہ بہترین حالات میں قرنطینے میں ہے‘ تاہم اُنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اُن ہی کی خاطر احتیاطی طور پر کیا جا رہا ہے۔
روسی سرکاری خبر رساں اداروں تاس اور ریا نوووستی نے بھی ایسی ہی ملتی جلتی خبریں شائع کیں کہ کیسے ’ماسکو کے ہوٹلوں میں سے ایک‘ کو تقریباً 20 صحافیوں کے لیے قرنطینہ مرکز میں تبدیل کیا گیا ہے۔ ہر شخص کو الگ کمرہ دیا گیا جسے وہ صرف کمرے کی صفائی کے وقت ہی چھوڑ سکتے تھے۔ وہ ایک دوسرے سے دوبدو بات نہیں کر سکتے تھے بلکہ صرف انٹرنیٹ یا فون کے ذریعے ہی رابطہ کر سکتے تھے۔
اُنھیں سگریٹ یا شراب پینے کی اجازت نہیں تھی اور اس ہوٹل کے باہر سے آنے والے پیکج یا پارسل اُنھیں صرف معائنے اور جراثیم سے پاک کرنے کے بعد ہی پہنچائے جاتے۔
تنہائی میں موجود ان رپورٹرز کو دن میں تین مرتبہ کھانا دیا جاتا اور ان کی خوراک اور مشروبات کمرے کے باہر رکھ دیے جاتے۔ اُنھیں کھانے کے لیے پلاسٹک کے چمچ اور کانٹے بھی دیے جاتے۔ اُن سے ملنے کے لیے جو بھی شخص آتا، وہ مکمل طور پر حفاظتی لباس (پی پی ای) میں ملبوس ہوتا۔
اس حوالے سے بھی خبریں عام تھیں کہ کیسے علاقائی حکومتی عہدیدار صدر پوتن کے دوروں سے قبل خود ساختہ تنہائی میں چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر نژنی نوفغرود کے خطے میں مقامی حکام نے ’روس کے صدر کے دورے کے دوران کورونا کی وبا پھیلنے سے روکنے کے اقدامات کے لیے‘ 10 لاکھ روبل (تقریباً 13 ہزار ڈالر) مختص کیے ہیں۔
بی بی سی رشیئن کو معلوم ہوا ہے کہ ساروف کی مقامی انتظامیہ کے 20 اہلکاروں کو جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجیوں کے لیے بنائے گئے ہوسٹل میں تنہائی میں رکھا گیا۔ ان افراد کے یہاں رہنے کے لیے اخروٹ کی لکڑی کے بیڈ، چادریں اور چار تجوریاں بھی استعمال میں آئیں۔
جب بی بی سی نے کریملن کے ترجمان سے صدر پوتن کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے حفاظتی اقدامات کے وسیع پیمانے کے بارے میں سوال کیا اور استفسار کیا کہ کیا اُن کے علم میں کسی اور ممالک کے ایسے حفاظتی اقدامات ہیں، تو دمتری پیسکوف نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
Comments are closed.