صدر بائیڈن کی اسرائیل جا کر اسرائیل مخالف ’ترقی پسند ڈیموکریٹس‘ کی مذمت
اسرائیل آمد پر صدر جو بائیڈن کا گرمجوش استقبال۔
صدر جو بائیڈن نے اسرائیل میں اپنی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کے اُن ارکان پر کڑی تنقید کی ہے جو ‘ترقی پسند ڈیموکریٹس’ کہلاتے ہیں اور اسرائیل کی مذمت کرتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے بدھ کے روز اسرائیل پر تنقید کرنے والے اپنی ہی پارٹی کے ارکان کو برطرف کر دیا، ایک اسرائیلی نیوز سٹیشن کو بتایا کہ وہ ترقی پسند قانون ساز ‘غلط’ ہیں۔ بائیڈن نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ‘اسرائیل ایک جمہوریت ہے۔ اسرائیل ہمارا اتحادی ہے۔’
جو بائیڈن کا انٹرویو
صدر بائیڈن سے اسرائیل میں این 12 نیوز کو انٹرویو دے رہے تھے۔ اُن سے اُن ڈیموکریٹس کے بارے میں سوال کیا گیا تھا جنہوں نے اسرائیل کو ایک ‘نسل پرستی کی بنیاد پر امتیازی سلوک’ کرنے والی ریاست کہا ہے اور اسرائیل کے لیے غیر مشروط امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ‘ان میں سے چند اس قسم کے لوگ ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ غلط ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ غلطی کر رہے ہیں۔ اسرائیل ایک جمہوریت ہے۔ اسرائیل ہمارا اتحادی ہے۔ اسرائیل ایک دوست ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں معذرت خواہ نہیں ہوں۔’
بائیڈن نے کہا کہ وہ ‘میرے خیال میں ڈیموکریٹک پارٹی یا ریپبلکن پارٹی کا ایک اہم حصہ اسرائیل سے الگ ہونے کا کوئی امکان نہیں دیکھ رہے ہیں۔’
امریکی چینل اے بی سی کے مطابق، صدر بائیڈن نے اسرائیل میں آئرن ڈوم میزائل ڈیفنس سسٹم کے بارے میں بریفنگ حاصل کی، اور ان سے اور اسرائیلی لیڈروں سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایک لیزر ڈیفنس سسٹم میں سرمایہ کاری پر بات کریں گے جو موجودہ آئرن ڈوم پر اپ گریڈ ہو گا۔
ڈیموکریٹس کی ’دی سکواڈ‘ کہلانے والی ارکانِ کانگریس جو ’ترقی پسند ڈیموکریٹس‘ کا حصہ ہیں۔ نیویارک سے الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، مشیگن سے راشدہ طلیب، مینیسوٹا سے الہان عمر اور میزوری سے رکن کانگریس کوری بش۔
اسرائیل کے خـلاف ڈیموکریٹس ارکان
نیویارک کے سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ کے سیاہ فام رکنِ کانگریس جمال بومن سمیت کم از کم چھ ارکان نے ایک قرارداد پر دستخط کیے ہیں جس میں امریکہ سے ‘نکبہ’ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
‘نکبہ’ دراصل سنہ 1948 میں 15 مئی کے اس واقعے کا نام ہے جب فلسطینیوں کے مطابق، ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا تھا۔ جبکہ اسرائیل کے یہودی اس دن اسرائیل کے قیام کے اعلان کا دن مناتے ہیں۔
اس ہفتے کے شروع میں شائع ہونے والے پیو ریسرچ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 53 فیصد امریکی جو خود کو ڈیموکریٹس کہتے ہیں، اسرائیل کے بارے میں منفی سوچ رکھتے ہیں۔
اسرائیل پر تنقید بڑی حد تک ‘ترقی پسند ڈیموکریٹس’، اور خاص طور پر ‘دی اسکواڈ’ کے اراکین کی طرف سے کی جا رہی ہے آئی ہے، اس میں نیویارک سے ڈیموکریٹس کی رکن کانگریس الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز، مینیسوٹا سے ڈیموکریٹس کی رکن کانگریس الہان عمر، مشیگن سے راشدہ طلیب اور میزوری سے رکن کانگریس کوری بش شامل ہیں۔
سنہ 2018 میں الہان عمر اور رشیدہ طلیب کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی دو مسلم خواتین بنیں۔
امریکی کانگریس میں منتخب ہونے والی دو مسلم خواتین، الہان عمر اور رشیدہ طلیب۔
الہان عمر عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اسرائیل کی ایک کھلے عام نقاد رہی ہیں۔ رشیدہ طلیب جو فلسطینی نژاد امریکی ہیں اور ان کے خاندان کا مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے سے تعلق ہے، نے گزشتہ سال ایک امریکی چینل پر انٹرویو میں کہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں پر نسلی امتیاز کر رہا ہے۔
امریکہ میں اسرائیل کا زوال پذیر خوف
اگرچہ امریکہ میں کئی دہائیوں سے اسرائیل پر تنقید کرنا سیاسی طور پر بہت خطرناک سمجھا جاتا تھا، لیکن اس وسط مدتی انتخابات کے دور میں ڈیموکریٹک امیدواروں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے اسرائیل کی بعض پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرنا شروع کر دیا ہے۔ وسط مدتی انتخابات اس سال نومبر میں ہوں گے۔
الیگزینڈریا اوکاسیو کارٹیز جب نیویارک سے پہلی بار ڈیموکریٹس کی امیدوار بنی تھیں تو انھوں نے ڈیموکریٹک کی پرائمری میں دس مرتبہ منتخب ہونے والے ڈیموکریٹ حریف جوزف کرولی کو شکست دی تھی۔
امریکی انتخابات 2020 میں سینیٹر برنی سینڈرز ڈیموکریٹ پارٹی میاں صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل تھے۔
انھوں نے اسرائیل کے اقدامات پر تنقید کو اپنی انتخابی مہم میں شامل کیا، جس کو انہوں نے غزہ میں حالیہ ‘قتل عام’ قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ اس نے کہا تھا کہ ڈیموکریٹس کو فلسطینیوں کی جدوجہد پر توجہ دینی چاہیے۔
اس سے پہلے امریکی سیاتدان اسرائیل کے خلاف بات کرنے سے گریز کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود اوکاسیو کورٹیز نے پرائمری جیت لی، جس سے پوری ڈیموکریٹک پارٹی کو ایک جھٹکا لگا۔ وہ ان متعدد ترقی پسندوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اسرائیل کے اقدامات کو تیزی سے چیلنج کیا ہے۔
سنہ 2016 کی صدارتی مہم کے دوران، ورمونٹ سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ کے ایک اہم رہنا سینیٹر برنی سینڈرز نے بھی اسرائیل کی مذمت کی، جس سے ڈیموکریٹک امیدواروں کے لیے پارٹی کی روایت کو توڑنے اور امریکی-اسرائیلی اتحاد پر تنقید کرنے کا راستہ ہموار ہوگیا تھا۔
Comments are closed.