لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کی آمدن سے زائد اثاثہ کیس میں ضمانت منظور کرلی ۔
آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت کی سماعت لاہور ہائیکورٹ میں ہوئی۔
لاہور ہائیکورٹ میں سماعت کے دوران عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ ہمیں شہباز شریف کی حد تک کیس بتائیں،جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی میں وہی وضاحت دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ وراثت میں ملی رمضان شوگر مل کے علاوہ ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں، جو بھی بنایا گیا باہر سے آنے والی ٹی ٹیز سے بنایا گیا، پاپڑ والے کے اکاؤنٹ سے 14 لاکھ ڈالر ان کے نام پر بھجوائے گئے، جبکہ پاپڑ والے نے بتایا کہ اس کا شہباز شریف فیملی سے کوئی تعلق ہی نہیں، نہ کبھی پیسے بھجوائے۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں کہا کہ سلمان شہباز نے 2003 ء میں اپنے 19 لاکھ کے اثاثے ڈکلیئر کیے، جو بھی اثاثے بنے 2005 ء کے بعد بنے جب ٹی ٹیز آنا شروع ہوئیں۔
وکیل شہباز شریف نے کہا کہ نیب کے 110 گواہوں میں سے ایک نے بھی شہباز شریف کا نام لیا ہو تو ضمانت واپس لے لیں گے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز شریف خود کو بےگناہ سمجھتے ہیں تو ٹرائل کورٹ میں بریت کی درخواست دائر کر دیں۔
عدالت نے کہا کہ ایف بی آر میں اثاثوں کی تفصیلات جمع کرائی گئی، ایف بی آر نے کیوں نہیں پوچھا کہ جائیداد آمدن سے زائد ہے، اگر ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تو نیب کیوں انکوائری کر رہا ہے۔
وکیل شہباز شریف نے عدالت کو بتایا کہ ایف بی آر کی رپورٹ لگائی ہے، مجھے 27 کروڑ کا حساب دینا ہے، میں نے زرعی زمین سے جھاڑ پیداوار اور ڈیری کی ٹیکس تفصیل دی ہے۔
عدالت نے کہا کہ ایف بی آر کو پوچھنا چاہیے تھا کہ آمدن اتنی زیادہ کیسے ہوگئی۔
وکیل شہباز شریف نے کہاکہ 6 سال سے زیادہ کا آڈٹ نہیں ہو سکتا، میرے مؤکل اتنی دیر تک رسیدیں نہیں سنبھال سکتے، 70 سال عمر ہے، اپوزیشن لیڈر ہیں،ان کے بے نامی داروں نے کوئی جواب ہی جمع نہیں کرایا۔
شہباز شریف کے وکیل نے مزید کہا کہ ایک گواہ بیان دیدے کہ شہباز شریف اس رقم کےمالک ہیں، کسی گواہ نے یہ بیان نہیں دیا کہ شہباز شریف ملزم ہے۔
فریقین کے دلائل سن لینے کے بعد عدالت نے شہباز شریف کی پچاس پچاس لاکھ روپے کے دو مچلکوں کے عوض درخواست ضمانت منظور کرلی اور انہیں 50،50 لاکھ روپے کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ۔
Comments are closed.