بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سیاست کو اخلاقیات سے علیحدہ کر کے پیش کرنے والے میکاؤلی جنھیں ’شیطان صفت‘ کہا گیا

نیکولو میکاؤلی: سیاست کو اخلاقیات سے علیحدہ کر کے پیش کرنے والے پہلے سیاسی مفکر کون تھے؟

  • حسین عسکری
  • بی بی سی اردو، سروس لندن

میکاؤلی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

نیکولو میکاؤلی

یہ اگست 2008 کی بات ہے۔ پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آ چکی تھی اور مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور اُس وقت کے صدارتی امیدوار آصف علی زرداری سے اُن ججوں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے تھے جنھیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے برطرف کر دیا تھا۔

2008 کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری سمیت تمام برطرف کیے گئے ججوں کو پارلیمان کی ایک قرارداد کے ذریعے بحال کر دیا جائے گا۔

مگر مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد آصف زرداری اب ایسا کرنے پر آمادہ نہیں دکھائی دے رہے تھے۔

اور پھر آصف زرداری نے ایک تاریخی جملہ کہا جو پاکستان کی سیاست میں شاید ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

انھوں نے بی بی سی اُردو کے ساتھ انٹرویو میں کہا ’مسلم لیگ نون کے ساتھ ہونے والے معاہدے کوئی قرآن یا حدیث نہیں ہیں کہ اُن میں بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ تبدیلی نہ کی جا سکے۔‘

مجھے یاد ہے ایک سینیئر صحافی اور سیاسی امور کے تجزیہ کار نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ تو میکاؤلی کی سیاسی فکر کے عین مطابق ہے۔‘

16ویں صدی کے سیاسی مفکر نیکولو میکاؤلی کے بارے میں آصف زرداری جانتے تھے یا نہیں، یہ تو معلوم نہیں لیکن اپنی کتاب ’دی پرنس‘ میں میکاؤلی لکھتے ہیں ’ایک کامیاب حکمران کو اپنے الفاظ اور وعدے کو نبھانے سے اگر کسی طرح کا سیاسی نقصان ہو رہا ہو تو اسے ہرگز اپنے الفاظ کی پاسداری نہیں کرنی چاہیے۔‘

اٹلی سے تعلق رکھنے والے نیکولو میکاؤلی وہ پہلے سیاسی مفکر سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے سیاست کو اخلاقیات سے علیحدہ کر کے پیش کیا۔ ان کی توجہ کا مرکز غلط اور صحیح کے بجائے اس بات پر تھا کہ حقائق کیا ہیں اور کیا حاصل کرنا ضروری ہے۔ وہ فلسفیانہ خیالات کے بجائے عملی اور حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی پر زور دیتے تھے۔

اپنی کتاب میں انھوں نے کسی بھی کامیاب حکمران کو یہ مشورہ بھی دیا ’آپ کو اپنے لیے بچھائے گئے جال کو پہچاننے کے لیے لومڑی کی طرح ہونا چاہیے، اور بھیڑیوں کو ڈرا کر بھگانے کے لیے شیر کی طرح ہونا چاہیے۔ جو لوگ صرف شیر کی طرح بننے کی کوشش کرتے ہیں وہ بے وقوف ہوتے ہیں۔‘

’دی پرنس‘ میں ایک مقام پر وہ کہتے ہیں ’اگر آپ کو یہ انتخاب کرنا ہو کہ آپ ایک ایسا حکمران بنیں جس سے عوام خوفزدہ ہوں یا ایسا حکمران جس سے عوام محبت کریں، تو آپ کو خوفزدہ کرنے والا حکمران بننا چاہیے۔‘

دی پرنس کا پہلا ایڈیشن

،تصویر کا ذریعہKey’s Auction House

،تصویر کا کیپشن

’دی پرنس‘ کا انگریزی زبان میں ترجمہ: سنہ 1640 کا ایک نسخہ

سوال یہ ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جن سے گزر کر میکاؤلی نے اقتدار اور طاقت کے بارے میں یہ نظریات قائم کیے۔ وہ کون سے تجربات تھے جن کے نتیجے میں انھوں نے حکمرانوں کو یہ مشورے دیے۔ کیا وہ واقعی اخلاقیات سے عاری اور یہاں تک کے ایک ’شیطان صفت‘ انسان تھے جیسا کہ بہت سے لوگ انھیں پیش کرنا چاہتے ہیں۔

نیکولو میکاؤلی سنہ 1469 میں فلورنٹائن ریپبلک، آج کے اٹلی کے فلورنس شہر، میں پیدا ہوئے۔ یہ ایک ایسی سابق ریپبلک تھی جو اس وقت مشکلات کا شکار تھی لیکن اپنے آپ پر فخر کرتی تھی۔ اس وقت وہاں میڈیچی خاندان کی ایک مطلق العنان حکومت تھی۔

میکاؤلی کا ایک ممتاز خاندان تھا لیکن یہ شہر کا کوئی امیر خاندان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ اس خاندان کے ریپبلیکنز کے ساتھ کھلے عام تعلقات تھے۔ ریپبلیکن نظریات جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھے اور وہ بادشاہ کے بجائے ایک کونسل کے ذریعے خود مختار حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔

حکمران خاندان کے بانی کوسیمو ڈی میڈیچی کی مخالفت کرنے کی وجہ سے میکاؤلی کے دو رشتے دار بھائیوں کے سر قلم کیے گئے تھے۔ میڈیچی خاندان نے سنہ 1434 میں فلورنٹائن کا ایک ریپبلک کی حیثیت سے خاتمہ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔

سنہ 1512 میں یعنی جب میکاؤلی 43 سال کے تھے تو اُن کی سیاسی زندگی شدید مشکلات کا شکار ہو گئی۔ حکمران میڈیچی خاندان سے ان کے تعلقات خراب ہو گئے اور اُن پر سازش کرنے کا الزام لگا کر انھیں قید کر دیا گیا جہاں ان پر شدید تشدد ہوا۔ اس کے بعد انھیں جلا وطن کر دیا گیا۔ ان کی کتاب ’دی پرنس‘ بھی انھیں میڈیچی خاندان کی حمایت نہیں دلوا سکی بلکہ اس کتاب کی وجہ سے وہ فلورنٹائن کے عوام سے بھی دور ہو گئے۔

اس زمانے میں جیلوں میں ملزموں سے اعترافِ جرم کروانے کے لیے تشدد کا ایک طریقہ استعمال کیا جاتا تھا جسے ’اسٹریپیڈو‘ کہا جاتا تھا۔ ملزم کے بازوں کو پشت کی جانب کر کے کلائیوں سے باندھ کر لٹکا دیا جاتا تھا اور اس کے بعد ملزم کو اچانک فرش کی طرف گرایا جاتا تھا اور یہ عمل اتنی بار دہرایا جاتا تھا کہ ملزم اپنے جرم کا اعتراف کر لیتا تھا۔

تشدد کے اس بہیمانہ طریقے کے دوران زیادہ تر لوگوں کی شانے ٹوٹ جاتے، پٹھے بُری طرح زخمی ہو جاتے اور ایک یا دونوں بازو ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو جاتے تھے۔ اطلاعات کے مطابق میکاؤلی کو چھ مرتبہ گرایا گیا اور حیرت انگیز طور پر اس انتہائی تکلیف دہ مرحلے سے گزرنے کے بعد انھوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور اپنا اعترافِ جرم لکھنا شروع کیا۔ حالانکہ میکاولی کے پاس اعتراف کرنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ان کا نام ملزمان کی فہرست میں شامل تھا لیکن میڈیچی خاندان کے حال ہی میں بحال ہونے والے حکمرانوں میں سے بعض کے قتل کی ناکام سازش میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ بعض مؤرخین کے خیال میں جولیانو ڈی میڈیچی نامی حکمران کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔

میکاؤلی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

میکاؤلی کے ہاتھ سے لکھے خط کا ایک نسخہ

میکاؤلی تقریباً دو ہفتے تک قید میں رہے اور فروری 1513 میں انھوں نے معافی حاصل کرنے کی ایک مضطرب کوشش میں جولیانو میڈیچی کو مخاطب کرتے ہوئے کچھ اشعار لکھے۔

یہ اشعار رقت آمیزی، جراتِ اظہار اور اعلیٰ پائے کی ذہانت سے بھرپور تھے۔ ’جولیانو میرے پاؤں میں بیڑیاں ہیں، میرے سیل کی دیواروں پر رینگنے والی جوئیں تتلیوں جتنی بڑی ہیں اور چابیوں اور تالوں کی آوازیں مجھے رومن خداؤں کی آسمانی بجلیوں کی گڑگڑاہٹ کی طرح سنائی دیتی ہیں۔’

میکاولی نے اپنی شاعرانہ شکایت میں سوال کیا ’کیا شاعروں سے اس طرح پیش آتے ہیں؟‘

کوئن میری یونیورسٹی میں ایڈیٹنگ لائیوز اینڈ لیٹرز کے سینٹر کی ڈائریکٹر لیزا جارڈن کہتی ہیں کہ اپنے سیاسی نظریات میں انھوں نے نہ صرف تشدد کا سہارا لینے کا مشورہ دیا بلکہ خود بھی شدید تشدد سے گزرے۔

کوئن میری یونیورسٹی میں نشاۃ ثانیہ یا ’رینیساں‘ کی پروفیسر ایولِن ویلش بتاتی ہیں کہ میکاؤلی کی نوجوانی کے زمانے میں ان کے والد نے انھیں دانشوروں کے حلقوں میں متعارف کروا دیا تھا جہاں لورینزو ڈی میڈیچی کی مرکزی حیثیت تھی۔

لورینزو ڈی میڈیچی نے کئی دہائیوں تک فلورنٹائن پر اس طرح حکومت کی کہ وہاں کے لوگوں کو شرم کا احساس نہیں ہونے دیا کہ ان پر حکومت کی جا رہی ہے۔ لیکن سنہ 1492 میں لورینزو کا انتقال ہو گیا اور دو برس کے بعد میڈیچی خاندان کو بھی شہر سے نکال دیا گیا۔ اس وقت میکاؤلی 25 برس جبکہ لورینزو کے سب سے چھوٹے بیٹے جولیانو ڈی میڈیچی 15 برس کے تھے۔

میڈیچی خاندان کی جگہ لینے والی مذہبی حکومت میں میکاؤلی کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ اس نئی حکومت کی ریپبلیکن اصلاحات کی تعریف تو کرتے تھے لیکن اس کے مذہبی جھوٹ اور طرز حکومت کو ناپسند بھی کرتے تھے۔

جلد ہی یہ شہر اس نئی حکومت کے سربراہ اور مبلغ سیوونیرولا کے خلاف ہو گیا، جس نے میڈیچی خاندان سے اس کی جان چھڑائی تھی، اور سیوونیرولا پر بھی ٹارچر کا طریقہ اسٹریپیڈو استعمال کیا گیا۔ انھیں ہاتھ باندھ کر 14 مرتبہ گرایا گیا اور اس کے بعد پھانسی دے دی گئی۔

فلورینٹائن ایک مرتبہ پھر ریپبلیکن بن چکا تھا۔ حالات بدل گئے اور سنہ 1498 میں میکاؤلی کو نوکری مل گئی۔ اگلے 14 برس تک انھوں نے فخر کے ساتھ ایک آزاد ریاست کے لیے خدمات انجام دیں جو اپنی ریپبلیکن شکل میں واپس آ گئی تھی لیکن اپنی سرحدوں کے پاس منڈلاتے ہوئے میڈیچی عناصر اور دیگر امیر خاندانوں سے محتاط تھی جو کسی بھی وقت خطرہ بن سکتے تھے۔

شہر کی آزادی کا سب سے بڑا حفاظتی پشتہ گریٹ کونسل تھی جس کے اراکین کی تعداد تین ہزار تھی۔ اس وقت فلورنس کی کل آبادی تقریباً پچاس ہزار تھی اور وہاں اپنے زمانے کی سب سے کثیر النمائندہ حکومت تھی۔

ایولِن ویلش کہتی ہیں کہ میکاؤلی کی صلاحتیوں کی وجہ سے ان کی ذمہ داریوں میں اضافہ کیا جاتا رہا۔ وہ 14 سال فلورنٹائن کی اس کونسل کے سیکریٹری رہے جو سفارتکاری اور جنگی حکمتِ عملی کی ذمہ دار تھی۔ اس کے علاوہ وہ کئی کمیٹیوں کے رکن رہے جہاں وہ اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے رہے۔

میکاولی کو ایک سفارت کار کی حیثیت سے روم کے دربار اور کئی ریاستوں میں بھیجا گیا جہاں وہ ان کی سفارت کاری زیادہ تر آمنے سامنے بیٹھ کر ہوتی تھی۔ وہ لوگوں کا نفسیاتی جائزہ لینے اور بہترین گفتگو کے ماہر تھے۔ ’وہ اپنی بات کہنے اور سمجھانے میں بہت مہارت رکھتے تھے۔ دوسروں کی بات سننے اور حالات کا بغور جائزہ لینے میں بھی ماہر تھے اور شدید بحران کے دنوں میں بھی وہ کچھ نہ کچھ ایسا راستہ نکال لیتے تھے جو فلورنٹائن کے حق میں بہتر ہو۔‘

میکاولی کا مجسمہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

میکاولی کا مجسمہ

سفارت کار کی حیثیت سے اپنے دوروں میں وہ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے تھے کہ فلورنٹائن کے بہترین مفاد میں کیا ہے اور دوسروں کو بھی ایسے کاموں پر قائل کرتے تھے جن سے فلورنٹائن کو فائدہ ہو۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی وہ کوئی عوامی عہدہ حاصل کرنے کے قریب پہنچ جاتے تھے تو فلورنٹائن کی حکومت کہتی تھی کہ وہ اشرافیہ کا اتنا حصہ نہیں ہیں کہ انھیں ایسا کوئی عہدہ دیا جائے اور وہ کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کے نائب کی حیثیت سے ہی جا سکتے ہیں۔

اس زمانے میں جنگ کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا تھا۔ فرانس، سپین اور مقدس سلطنتِ روما کے درمیان جنگیں ہو رہی تھیں اور ان کی فوجیں میلان، فلورنس، وینس اور نیپلس جیسی اٹلی کی کمزور ریاستوں پر فوج کشی کرتی رہتی تھیں۔

ایک متحدہ فوجی قوت کے نہ ہونے کی وجہ سے ان ریاستوں کے لیے اپنا دفاع کرنا مشکل تھا۔ اس کے علاوہ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ یہ چھوٹی ریاستیں اپنے دفاع کے لیے کرائے کے فوجیوں پر بھی انحصار کرتی تھی جو کسی بھی جانب سے زیادہ معاوضہ ملنے کی صورت میں اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے تھے۔

میکاولی نے اس کا حل یہ نکالا کہ انھوں نے ایک ’سیٹیزن آرمی‘ تیار کی جس میں کئی سو مقامی کسان شامل تھے۔ صرف تین سال کے عرصے میں ان کی اس ایک ہزار کی تعداد والی فوج نے ریاست پیسا کو شکست دی جس کے ساتھ گذشتہ 15 برس کے دوران فلورنٹائن کی کئی بے نتیجہ جنگیں ہو چکی تھیں۔

میکاولی نے اپنی کتاب ’دی ایکٹ آف وار‘ میں اپنے جنگی اصولوں اور حکمتِ عملیوں کا ذکر کیا ہے لیکن یہ کتاب انھوں نے ایک فلسفیانہ ذہنی کیفیت میں لکھی ہے۔

ان کی جنگی صلاحیتوں کی ساکھ سنہ 1512 تک برقرار رہی جب ان کی یہ فوج جو پڑوسی قصبے پریٹو کا ہسپانوی فوج کے خلاف دفاع کر رہی تھی اچانک کرائے کے فوجیوں کی طرح میدانِ جنگ سے بھاگ گئی۔ اس شکست کے نتیجے میں اور فرانس اور سپین اور اس کے اتحادی پوپ جولیس دوئم کے درمیان ایک بڑی جنگ میں چھوٹا سے فلورنٹائن پھنس گیا۔

موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میڈیچی خاندان نے ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ریپلیکن حکومت کا تختہ ایک مرتبہ پھر الٹ دیا گیا۔ اس طرح ستمبر 1512 میں 18 سال بعد میڈیچی خاندان کی حکومت دوبارہ قائم ہو گئی۔

باتھ سپا یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات اور تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر افتخار ملک کا کہنا ہے کہ پچھلے تقریباً 500 سال سے میکاؤلی سے نفرت کرنے والے اور انھیں چاہنے والے موجود ہیں۔ اس کی وجہ ان کے مرنے کے چند برسوں کے بعد چھپنے والی ان کی کتاب ‘دی پرنس’ ہے۔

‘میکاؤلی ریپبلیکن دور میں اچھے عہدوں پر رہے اور اس دور میں انھوں نے ‘ڈسکورسس’ کے نامی کتاب لکھی جو رومن دور کے بارے میں تھی جب انھوں نے ریپبلک قائم کی تھی۔

لیکن وہ مشہور یا بدنام اپنی کتاب ‘دی پرنس’ کی وجہ سے ہوئے جس میں وہ ایک مضبوط اور مطلق العنان حکمران کی بات کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آزادی، حقوق، مذہب یا اخلاقی اقدار کی سیاست میں گنجائش نہیں ہے۔ بلکہ آہنی ہاتھوں کی پالیسی ہونی چاہیے۔

اسی لیے زیادہ تر لوگوں نے انھیں ایک منفی سیاسی مفکر کے طور پر دیکھا ہے۔ ان کے بارے میں مثبت خیالات رکھنے والے اور ان کی تحریروں کو سیاق و سباق میں دیکھنے والے بہت کم لوگ ہیں۔

ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ آج بھی موجودہ سیاست میں اور کئی ممالک میں، جن میں مغربی ممالک بھی شامل ہیں، ایسا لگتا ہے کہ سیاستدان کہتے تو نہیں ہیں لیکن عملی طور پر کئی سیاستدان میکاؤلی کے مطلق العنان، خود غرض اور مفادات پر مبنی سیاسی نظریات پر عمل کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جب میکاؤلی اپنے سیاسی خیالات اور نظریات مرتب کر رہے تھے تو وہ زمانہ تو اٹلی میں نشاۃ ثانیہ کا تھا جب سائنس، آزادی، روشن خیالی اور حقیقت پسندی پروان چڑھ رہی تھی۔ تو اسی معاشرے میں وہ کس طرح ایک ایسی سیاسی فکر کو تحریر کر رہے تھے جو اخلاقیات اور ہمدردی سے عاری ہو۔

ٹسکنی میں میکاولی خاندان کی زمین

،تصویر کا ذریعہSarah Dunant

،تصویر کا کیپشن

ٹسکنی میں میکاولی خاندان کی زمین

کیمبرج یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کوئنٹن سکینر کہتے ہیں کہ میکاؤلی جب پیدا ہوئے تو فلورنس اپنی عظیم تہذیبی کامیابیاں حاصل کر چکا تھا۔ لیکن یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ میکاؤلی اس سے بالکل بیگانہ نظر آتے ہیں۔ ’آپ میکاؤلی کا تمام کام پڑھ لیں لیکن آپ کو اس کے شہر کی تہذیبی عظمت کا کوئی تذکرہ یا حوالہ نظر نہیں آئے گا۔ صرف ایک جگہ پر وہ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ لوگوں کو یہ پرانے مجسمے پسند آتے ہیں حالانکہ انھیں سٹیٹ کرافٹ یا ریاست چلانے کے فن کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔‘

تاہم ڈاکٹر افتخار ملک کا کہنا ہے کہ جہاں تک میکاؤلی کی تاریخ بینی اور انسانیت کی خصوصیات سے متعلق سوچ کا تعلق ہے تو ایک لحاظ سے وہ نشاۃ ثانیہ کے آدمی نظر آتے ہیں۔ ’نشاتۃ ثانیہ کے نتیجے میں کئی خیالات نے جنم لیا تھا اور ان میں سے ایک خیال تھا انسان کی سربلندی، مذہب اور عقیدے کے مقابلے میں عقل کی سربلندی، تو میکاولی کا آئیڈیل خواہ ایک بادشاہ اور پرنس ہے لیکن وہ اس دھرتی اور اس دنیاوی زندگی کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور جدید سیاست میں مذہب کو ایک رکاوٹ سمجھتے تھے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ میکاولی صرف پولیٹیکل سائنس کے ہی بانی نہیں بلکہ سیکولر سیاست کے بھی بانی تھے۔’

‘اس زمانے میں مذہب اور سیاست آپس میں ملے ہوئے تھے اور اسی وجہ سے رومن پوپ کا سیاست میں اثر بہت زیادہ تھا۔ تو میکاؤلی کا بڑا کام یہ ہے کہ انھوں نے انسان کو، عقل کو اور انسان کے اختیار کو اہمیت اور عزت دی اور دوئم یہ کہ سیاست کو مذہب سے آزاد کرنے کی کوشش کی۔’

ڈاکٹر افتخار ملک کا کہنا ہے کہ فلورنس اور پیسا، جو اب اٹلی میں ٹسکنی کے خطے میں شامل ہیں، نشاۃ ثانیہ کا گڑھ تھے۔ اس علاقے میں فنونِ لطیفہ، سائنس، حقیقت پسندی اور روشن خیالی کے حوالے سے تو بہت ترقی ہوئی لیکن سیاسی حالات بہت خراب رہے۔

‘اٹلی کوئی ایک سیاسی وحدت نہیں تھا اور بہت سی ریاستوں میں تقسیم تھا جو آپس میں لڑتی رہتی تھیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے کے لوگ رومن کیتھولک ہیں تو پوپ کی اپنی ہی ایک حکومت ہوا کرتی تھی اور ان ریاستوں کے معاملات میں ان کی بہت مداخلت تھی۔’

فلورینس میں میڈیچی بادشاہ کو اقتدار میں لانے کے لیے پوپ کی حمایت موجود تھی۔ اس صورتحال کی وجہ سے بہت سیاسی عدم استحکام تھا۔ لیکن اس سب کے باوجود فلورینس احیائے علوم کی تحریکوں کا گڑھ تھا۔

‘ایک طرف تو سماجی علوم، آرٹ اور سائنس میں کارنامے ہو رہے تھے، لیونارڈو ڈا ونچی اور مائیکل اینجلو نظر آتے ہیں جو کئی صدی قبل گیلیلیو کے کلچر کو آگے بڑھا رہے تھے تو دوسری طرف خانہ جنگی بھی جاری تھی۔’

ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ یہی تضادات میکاؤلی میں بھی نظر آتے ہیں اور ان کی تحریروں میں فلورینس یا ٹسکنی کی متضاد تہذیبی روایات کی جھلک نظر آتی ہے۔ ’وہ چاہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں سیاسی استحکام ہو، وحدت ہو اور لوگوں کو سکیورٹی ملے اور دوسری طرف وہ پرانے روم کی طرف دیکھتے ہیں اور اپنی معرکتہ آراء کتاب ‘ڈسکورسس’ لکھتے ہیں تو اس میں وہ ایک مؤرخ دکھائی دیتے ہیں اور ریپبلیکن طرزِ حکومت کے حق میں دلائل دیتے ہیں۔ یہ تضادات اس علاقے میں بھی موجود تھے اور ان کی ذات میں بھی۔’

مؤرخین کی رائے میں میکاؤلی اسی سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار ہوئے۔ اس طرح کی صورتحال میں آپ کو کسی ایک سیاسی فکر کا ساتھ دینے کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ وہ جس جسمانی تشدد کا شکار ہوئے اس نے بھی ان کے سیاسی نظریات پر اثرات مرتب کیے۔

انھوں نے انسان کی عقل اور اختیار کو تو بہت اہمیت دی لیکن سیاسی اہداف کے حصول کے لیے جو راستے بتائے وہ ظالمانہ اور احساسات سے عاری ہیں۔

میکاؤلی کی قبر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

میکاؤلی وہ پہلے سیاسی مفکر تھے جنھوں نے کُھل کر لکھا ہے کہ سیاست اصل مقاصد، اہداف اور مفادات پر مبنی ہونی چاہیے، سیاست کو آئیڈئلز کے تابع نہیں ہونا چاہیے۔ وہ سیاست میں حقیقت پسندی کے بھی بانی ہیں لیکن عوامی سطح پر اسے موقع پرستی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

آج کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا صرف مفادات مستقل ہوتے ہیں۔ نیکولو میکاؤلی کو بظاہر برا کہنے والے اکثر لوگ سیاست میں ان ہی کے مشوروں پر ہی تو عمل کرتے ہیں۔ بہرحال انھیں جو کچھ بھی سمجھا جائے ان کے اپنے الفاظ اور اہداف بہت واضح ہیں۔

انھوں نے اپنی کتاب ‘دی پرنس’ میں لکھا ہے ‘چونکہ لوگ اپنے بارے معاملات خود طے کرنا پسند کرتے ہیں، لیکن انھیں خوف یہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کے حاکم ان کے معاملات نہ طے کرنا شروع کر دیں، اس لیے ایک عقلمند شہزادے (حکمران) کو اس بات پر بھروسہ کرنا چاہیے کہ وہ خود کیا کچھ کنٹرول کر سکتا ہے، نہ کہ دوسرے کیا کچھ کنٹرول کر سکتے ہیں۔‘

میکاؤلی کی وفات 21 جون 1527 میں ہوئی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.