بوہو گروپ کا مالک کمانی خاندان کون ہے؟
’بوہو‘ ایک آن لائن فیشن برینڈ ہے
برطانوی آن لائن فیشن ریٹیلر ’بوہو‘ نے چند دن قبل 55 ملین پاؤنڈ میں برطانیہ کے 242 سال پرانے برانڈ ڈیبنیہمز اور اس کی ویب سائٹ کو خرید لیا ہے۔
تاہم اس نے کہا ہے کہ وہ برانڈ تو خرید رہا ہے لیکن اس میں 118 ہائی سٹریٹ سٹور شامل نہیں ہیں اور عملے کے 12 ہزار افراد پر مشتمل عملے کو بھی بیروزگاری کا سامنا ہوگا۔
بوہو گذشتہ چند برسوں سے برطانیہ کی مارکیٹ پر چھایا ہوا ہے اور انٹرنیٹ شاپنگ میں بڑھتے ہوئے رجحان نے اسے اور بھی طاقتور بنا دیا ہے۔ گذشتہ ایک سال میں کووڈ۔19 کی وجہ سے کئی مرتبہ لاک ڈاؤن لگنے سے لوگوں کے انٹرنیٹ شاپنگ میں بڑھتے ہوئے رجحان نے کئی ہائی سٹریٹ سٹورز پر بہت برا معاشی اثر ڈالا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بوہو پہلے ہی کئی بڑے برانڈ خرید چکا ہے۔ اس نے 2017 میں ’پریٹی لٹل تھنگ‘ اور ’ناسٹی گل‘ جیسے برانڈز بھی خریدے تھے۔
برطانیہ کا 242 سال پرانا برانڈ ڈیبنیہمز
خبر رساں ادارے رؤئٹرز کے مطابق بوہو اس وقت برطانیہ کے بند ہونے والے آرکیڈیا گروپ سے بھی بات کر رہا ہے تاکہ وہ ڈوروتھی پرکِنز، والیز اور برٹن جیسے ہائی سٹریٹ برانڈز خرید سکے جس کی وجہ سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مزید ہزاروں نوکریوں کو خطرہ ہے کیونکہ بوہو برانڈ کی ڈیل کی وجہ سے تو مشہور ہے لیکن ان کے سٹورز اور عملے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
لاک ڈاؤن کے دوران بوہو کی سیل 40 فیصد سے زیادہ بڑھی ہے۔ گذشتہ برس کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد مئی تک کے تین ماہ میں اس برینڈ کی سیلز 368 ملین پاونڈ تھی۔
یہ بھی پڑھیے
بوہو گروپ کے کمانی اور کیرول کین جنھوں نے 2006 میں بوہو کو قائم کیا تھا
بوہو کے مالک محمود کمانی کون ہیں؟
بوہو کو 2006 میں ایک بزنس مین محمود کمانی اور ڈیزائنر کیرول کین نے مانچیسٹر میں ایک آن لائن سٹور کے طور پر قائم کیا تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ وہ کپڑے سستے بیچیں جن کا اس وقت رواج تھا۔
اس سے قبل یہ دونوں اکٹھے ’پِنسٹرائپ کلاتھنگ کمپنی‘ میں کام کر چکے تھے جو کہ کمانی کے والد نے قائم کی تھی۔ کمانی کے والد عبداللہ کمانی نے 1960 کی دہائی میں کینیا سے ہجرت کر کے شمال مغربی انگلینڈ میں سکونت اختیار کی تھی۔ عبداللہ کمانی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے مارکیٹ میں سٹال لگا کر ہینڈ بیگ بیچتے تھے، لیکن بعد میں انھوں نے اپنا ایک ٹیکسٹائل بزنس شروع کیا اور ’نیو لُک‘ اور ’پرائم مارک‘ جیسے برانڈز کو کپڑے بیچنے لگے۔
اس وقت محمود کمانی اور ان کے خاندان کا شمار برطانیہ کے ارب پتیوں میں ہوتا ہے۔
کمانی کے تین بیٹے ہیں جو سبھی ان کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں۔ عمر کمانی ’پریٹی لٹل تھنگ ڈاٹ کام‘ کے مالک ہیں جس کے بوہو نے گذشتہ سال 260 ملین پاؤنڈ کے حصص خریدے تھے۔ آدم کمانی کی اپنی انویسٹمنٹ کمپنی بھی ہے اور وہ پراپرٹی کے کاروبار میں بھی بڑھ چڑھ کر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
دائیں سے بائیں: سمیر کمانی، ڈیزائنر کیرول کین، ریپر سنوپ ڈاگ اور محمود کمانی
ان کے تیسرے بیٹے 21 سالہ سمیر مردوں کے لیے مختص برینڈ ’بوہو مین‘ چلاتے ہیں۔ محمود کمانی کے بھائی جلال کمانی بھی بوہو میں ڈائریکٹر تھے۔
یہ خاندان سیلیبریٹیز کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے بھی بہت مشہور ہے اور ان کی شوبز کی مشہور شخصیات اور ماڈلز کے ساتھ بھی تصاویر آتی رہتی ہیں۔
عمر کمانی اپنے انساٹاگرام صفحے پر خاندان سے متعلق پوسٹس ڈالتے رہتے ہیں جن میں میڈیا میں آنے والے بیانات سے لے کر مشہور شخصیات کے ساتھ شاندار پارٹیاں اور نجی جہازوں کی تصاویر بھی شامل ہوتی ہیں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پہلے تینوں بھائی سیلیبریٹی پارٹیوں میں باقاعدگی سے نظر آتے تھے اور پی ڈِڈی، جی جی حدید، جیڈن سمتھ اور کائلی جینر جیسی شخصیات کے ساتھ ان کی تصویریں دکھائی دیتی تھیں۔
کمانی خاندان کے پاس کتنی دولت ہے؟
ویسے تو کمانی خاندان نے بہت سے کاروباروں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے لیکن بی بی سی کے نامہ نگار ڈومینیک او کونل کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف بوہو کے حصص کی قیمت ساڑھ چار ارب پاؤنڈ کے قریب ہے اور یہ دولت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
مِرر اخبار میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمانی خاندان اپنی امارت اور شان و شوکت دکھانے میں ذرا بھی بخل سے کام نہیں لیتا اور وہ ایسی زندگی جیتے ہیں جسے شاید بہت سے صرف خواب میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔
اخبار کے مطابق محمود کمانی کے پاس رولز روئس فینٹم ہے جس کی قیمت 3 لاکھ 50 ہزار پاؤنڈ بتائی جاتی ہے، جبکہ ان کے پاس لیمبگینی ایوانٹیڈور اور رینج روور بھی ہے۔
کیسے کمائی اتنی دولت؟
مانچیسٹر کی سڑکوں پر لگنے والی مارکیٹ کے سٹال پر ہینڈ بیگ بیچنے سے ارب پتی ہونے کا سفر کوئی آسان سفر نہیں ہے۔ لیکن اس کے پیچھے محمود کمانی کی محنت کے علاوہ ان کا ایک تیز کاروباری دماغ بھی ہے کہ کہاں اور کس وقت کون کا سا فیصلہ کرنا ہے اور کس چیز کو کب اور کیسے بیچنا ہے۔ مثال کے طور پر کمانی خاندان کی سوشل میڈیا حکمتِ عملی کو ہی دیکھ لیں۔
ان کی کامیابی کے پیچھے اس بات کا کافی عمل دخل ہے کہ انھوں نے اپنی مصنوعات کی سیل میں 30 سال سے کم عمر افراد کو ٹارگٹ کیا، جو سٹائل ٹِپس کے لیے سوشل میڈیا انفلواینسرز پر انحصار کرتے ہیں اور اپنے فونز پر آرڈر دے کر گھر بیٹھے بیٹھے چیزیں خرید لیتے ہیں۔
بوہو نے گذشتہ برس 29 فروری تک اپنی مارکیٹنگ پر 116.8 ملین پاؤنڈ خرچ کیے تھے جو کہ اس کی کل سیل کا 10 فیصد تھا۔
عمر کمانی گلوکار ’وِل آئی ایم‘ کے ہمراہ
وہ لوگوں کو اپنی ویب سائٹ پر لانے کے لیے مشہور سوشل میڈیا انفلواینسرز کو استعمال کرتے ہیں جن میں ’لو آئلینڈ‘ میں حصہ لینے والی موئرا ہگنز اور مشہور آر اینڈ بی سنگر آشانتی بھی شامل ہیں۔
تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ بوہو کی کامیابی کی کنجی اس کا بہترین آن لائن ماڈل ہے۔
16 سے 24 سال کے نوجوانوں کے پاس چیزیں خریدنے کی استتاعت کم ہوتی ہے لیکن وہ اپنے بڑوں کی نسبت ٹیکنالوجی سے کافی زیادہ جڑے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے آن لائن ماڈل کا خیال دراصل ان ہی کے لیے ہے۔
اس کے برعکس ان کے مقابلے کے دوسرے سٹور چاہے نوجوانوں کو کتنے ہی پسند ہوں لیکن اپنے ہائی سٹریٹ پر مہنگے مہنگے سٹورز چلانے کے لیے بہت سے اخراجات ہوتے ہیں۔
بوہو ہر روز اپنی ویب سائٹ پر نئے ڈریسز، ٹاپس، جوتے اور دوسری چیزیں لگاتا ہے جو کہ ابھی تک ان کے لیے ایک کامیاب حکمتِ عملی ثابت ہوئی ہے۔ اس کے لیے چاہے اسے نئی چیزوں کی تعداد تھوڑی ہی رکھنی پڑے لیکن وہ ایسا کرتا ضرور ہے اور اس کی 40 فیصد چیزیں برطانیہ میں بنتی ہیں۔
بوہو نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اگر بہت تیز کام کریں تو ان کا کپڑا مارکیٹ میں ڈیزائن سے لے کر سیل کے لیے دو ہفتے میں تیار ہو جاتا ہے جبکہ عام طور پر یہ دورانیہ چار سے چھ ہفتوں کا ہوتا ہے۔
بوہو فیشن پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے
کم اجرت دینے کا الزام
بوہو کی مصنوعات تو دو ہفتوں کے ریکارڈ وقت میں ڈیزائن سے سیل تک تو پہنچ جاتی ہیں لیکن الزام یہ ہے کہ بوہو کو یہ مصنوعات سپلائی کرنے والی ایک فیکٹری میں مزدوروں کا استحصال اس طرح سے کیا گیا کہ ایک تو انھیں انتہائی کم اجرت پر رکھا گیا اور ان کی حفاظت کے لیے فیکٹری میں کووڈ سے متعلق احتیاطی اقدامات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔
یہ الزامات گذشتہ برس جولائی میں سنڈے ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں لگائے تھے۔
اس وقت بوہو کا کہنا تھا کہ یہ ’ناقبل قبول‘ ہے اور تحقیقات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ بوہو نے تسلیم کیا تھا کہ اس کی سپلائی چین میں ناکامیاں تھیں اور یہ کہ وہ مستقبل میں اپنے سپلائرز کے معیار کو قریب سے مانیٹر کرے گا۔
ان الزامات کے سامنے آنے کے بعد گذشتہ برس نومبر میں بوہو نے اپنے کاروباری نظام کا جائزہ لینے کے لیے ہائی کورٹ کے ایک معروف سابق جج سر برائن لیویسن کی خدمات حاصل کی تھیں۔
Comments are closed.