سویڈن میں قرآن نذرآتش: ’نیٹو رکنیت پر ترکی کی حمایت بھول جائیں، ہم سے رحم کی توقع نہ رکھیں‘

  • مصنف, میٹے بوبالو
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

رجب طیب اردوغان

،تصویر کا ذریعہReuters

ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے سویڈن سے کہا کہ اس کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کیے جانے کے بعد وہ نیٹو میں شمولیت کی اپنی کوشش میں ترکی سے حمایت کی توقع نہ رکھے۔

خیال رہے کہ گذشتہ سال یوکرین اور روس کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سویڈن اور فن لینڈ امریکہ اور یورپی ممالک کی فوجی تنظیم نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان دونوں یورپی ممالک نے نیٹو کی رکنیت کے لیے باقاعدہ درخواست بھی دے رکھی ہے۔

لیکن ترکی نے نیٹو کے رکن کے طور پر اپنے ویٹو پاور کا استعمال کرتے ہوئے اُن کی درخواست کو روک دیا تھا۔ ترکی کے اس اقدام کے بعد سے سویڈن میں ترکی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

ان مظاہروں کے دوران سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر مذہب اسلام کی مقدس ترین کتاب قرآن مجید کا نسخہ بھی نذر آتش کیا گیا جس کے بعد سعودی عرب اور پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک نے اس عمل کی سخت مذمت کی ہے۔

اس سے چند روز قبل سویڈن میں کچھ کرد مظاہرین نے ترک صدر اردوغان کا پتلا الٹا لٹکا دیا تھا۔

ترکی کے خلاف مظاہرہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ترکی کے خلاف مظاہرہ

اردوغان نے کیا کہا؟

دنیا کے کئی ممالک نے سٹاک ہوم میں قرآن پاک کے نسخے کو نذر آتش کرنے کی مذمت کی ہے۔ ان ممالک میں ترکی بھی شامل ہے۔

ترک صدر اردوغان نے کہا کہ ’سویڈن کو اب ہم سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ترکی نیٹو میں شمولیت کی اس کی کوششوں میں تعاون کرے گا۔ جن لوگوں نے سفارت خانے کے سامنے ہمارے ملک کی توہین کی ہے، وہ اپنی درخواست کے حوالے سے ہم سے کسی رحم کی توقع نہیں کر سکتے۔‘

واضح رہے کہ سویڈش حکومت نے گذشتہ اتوار کو ہونے والے احتجاج کی اجازت پہلے ہی دے رکھی تھی۔ تاہم مظاہرین کی جانب سے اس بات کو کوئی عندیہ نہیں دیا گیا تھا کہ ان کا منصوبہ بطور احتجاج قرآن کے نسخے کو جلانا تھا۔

اسے مذہب کی توہین قرار دیتے ہوئے اردوغان نے کہا ہے کہ آزادی اظہار کی آڑ میں اس عمل کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔

سویڈن کی حکومت نے بھی اس احتجاج کی مذمت کی ہے۔

سویڈن کے وزیر خارجہ ٹوبیاس بل سٹورم نے اسے ’خوف پیدا کرنے والا‘ واقعہ قرار دیا۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’سویڈن میں اظہار رائے کی آزادی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں یہاں کی حکومت یا مظاہرے میں جن جذبات کا اظہار کیا گیا ان کی حمایت کروں۔‘

اردوغان کے بیان پر سویڈن کا ردعمل

سویڈن کی حکومت نے اردوغان کے اس بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔ سویڈن کے وزیر خارجہ بل سٹورم نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر کچھ کہنے سے پہلے اردوغان کے بیان کو پوری طرح سمجھنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’سویڈن نیٹو کی رکنیت کے معاہدے کا احترام کرے گا جو سویڈن، فن لینڈ اور ترکی کے درمیان طے پایا ہے۔‘

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے بھی اس معاملے پر کہا ہے کہ نیٹو ممالک میں اظہار رائے کی آزادی ایک قیمتی چیز ہے اور ایسی کارروائیاں یقیناً نامناسب ہیں لیکن یہ خود بخود غیر قانونی نہیں ہو جاتیں۔

مسلم اکثریتی ملک ترکی نے اس احتجاج کی اجازت دینے کے سویڈش حکومت کے فیصلے کو مکمل طور پر ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

مظاہرے

،تصویر کا ذریعہERDEM SAHIN/EPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK

احتجاجی مظاہرے

اردوغان نے کہا ہے کہ ’کسی کو بھی مقدس چیزوں کی بے عزتی کرنے کا حق نہیں ہے۔ جب ہم کچھ کہتے ہیں تو پورے خلوص کے ساتھ کہتے ہیں۔ اور جب کوئی ہماری بے عزتی کرتا ہے تو ہم اسے ان کی جگہ دکھاتے ہیں۔’

بتا دیں کہ اس واقعے کے بعد ترکی نے سویڈن کے وزیر دفاع پال جانسن کا دورہ منسوخ کر دیا ہے۔ ترکی نے کہا کہ یہ دورہ اب ’اپنی اہمیت اور معنی کھو چکا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

اپنی حکومت کے اس فیصلے پر ترک وزیر دفاع خلوصی آقار نے بتایا ہے کہ اس فیصلے سے پہلے ’یہ دیکھا گیا کہ اس نفرت انگیز احتجاج کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘

گذشتہ دنوں سویڈن کے سینیئر وزرا کے انقرہ پہنچنے کے بعد یہ امیدیں پیدا ہونے لگی تھیں کہ سویڈن جلد ہی نیٹو ممالک کا رکن بن سکتا ہے۔

مظاہرے

،تصویر کا ذریعہEPA

نیٹو کی رکنیت

ترکی پہلے ہی نیٹو کا رکن ہے۔ اس وجہ سے وہ کسی دوسرے ملک کو نیٹو کا رکن بننے سے روکنے میں کامیاب ہے۔

سویڈن کی نیٹو کی درخواست کو روکنے کے ساتھ ساتھ اس نے سویڈن سے مختلف مطالبات بھی کیے ہیں۔ ان میں کچھ کردوں کی حوالگی بھی شامل ہے جنھیں ترکی ’دہشت گرد‘ کہتا ہے۔

ایک ماہ قبل سویڈن کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ کرد مظاہرین جنھوں نے سٹاک ہوم میں اردوغان کے پتلے کو الٹا لٹکایا تھا وہ نیٹو کا رکن بننے کی ان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

سویڈن کے ایک وزیر نے احتجاج کو قابل مذمت قرار دیا لیکن ترکی نے کہا کہ مذمت کافی نہیں ہے۔

سویڈن کا پرچم

،تصویر کا ذریعہEPA

پاکستان اور سعودی عرب کی جانب سے مذمت

پاکستان کے وزیر اعظم شہباز اور سپیکر و ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی نے بھی سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور نذر آتش کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔

شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سویڈن میں ایک دائیں بازو کے انتہا پسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے فعل کی مذمت کے لیے الفاظ کافی نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کا لبادہ دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ناقابل قبول ہے۔

سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے بھی سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور نذر آتش کرنے کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی اور نذر آتش کرنے کے گھناؤنے فعل سے دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں کے احساسات و جذبات بری طرح مجروح ہوئے ہیں، اس گھناؤنے فعل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

سابق وزیراعظم اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بھی سویڈن میں احتجاج کے دوران قرآنِ نذرِ آتش کیے جانے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔

او آئی سی کے سیکریٹری جنرل حسین برہیم طحہ نے بھی سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کے واقعے کی مذمت کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ سب سویڈش حکام کی اجازت سے ہوا۔

سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بھی ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس واقعہ پر احتجاج کیا ہے۔

وزارت خارجہ نے کہا ’سعودی عرب بات چیت، رواداری کو فروغ دینے، بقائے باہمی کی اہمیت کو سمجھنے پر یقین رکھتا ہے اور نفرت، انتہا پسندی کو مسترد کرتا ہے۔‘

قطر نے مظاہروں کی اجازت دینے پر سویڈش حکام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ دنیا کے دو ارب مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کا ایک انتہائی سنگین واقعہ ہے۔ قطر مذہب کی بنیاد پر ہر قسم کی نفرت انگیز تقاریر کو مسترد کرتا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ