سوڈان میں گینگ ریپ کے واقعات: ’ان تینوں نے باری باری میرا ریپ کیا، پھر مجھے سڑک کنارے پھینک دیا‘
- مصنف, محمد عثمان
- عہدہ, بی بی سی نیوز عربی
انتباہ: اس مضمون میں ایسی تفصیلات شامل ہیں جو چند قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
جب چار پیرا ملٹری فوجی سوڈان کے جنگ زدہ دارفور علاقے میں کلثوم (فرضی نام) کا گینگ ریپ کر رہے تھے تو وہ ساتھ ہی ساتھ ان کو نسل کی بنیاد پر گالیاں بھی دے رہے تھے۔
فون پر بات کرتے ہوئے کلثوم کی آواز کانپ رہی تھی۔ انھوں نے کہا ’وہ بہت ظالم تھے۔ انھوں نے باری باری اس درخت کے نیچے میرا ریپ کیا جہاں میں لکڑیاں جمع کرنے گئی تھی۔‘
کلثوم 40 کے عشرے میں ہیں اور ان کا تعلق مغربی دارفور کی سیاہ فام افریقی ماسالت کمیونٹی سے ہے۔ ان کا ریپ کرنے والے ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) سے تعلق رکھنے والے عرب تھے۔
یہ ایک پیرا ملٹری گروپ ہے جس پر دارفور میں جاری تنازعے کے دوران متعدد مظالم ڈھانے کے الزامات ہیں۔
کلثوم الجنینیا میں رہتی ہیں جو دارفور میں سیاہ فام افریقی قوت کی تاریخی اعتبار سے علامت رہا ہے۔ یہ ماسالت سلطنت کا روایتی دارالحکومت بھی ہے۔ اپنے بیمار شوہر اور بچوں کے ساتھ اب کلثوم فرار ہو چکی ہیں۔
کلثوم کہتی ہیں کہ ان کا ریپ کرنے والوں نے انھیں کہا کہ وہ شہر چھوڑ دیں کیونکہ یہ عربیوں کی ملکیت ہے۔
مقامی سیاہ فام افریقی باشندوں کو خوف ہے کہ آر ایس ایف اپنے اتحادی جنجوید نامی عسکری گروپ کے ساتھ مل کر ان کے علاقے میں عرب اکثریت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
سوڈان اپریل کے مہینے میں اس وقت خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا تھا جب ملک کے دو طاقتور جنرل، آرمی چیف جنرل عبدالفتح البرہان اور آر ایس ایف کمانڈر جنرل محمد ہمدان کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی تھی۔
ان دو افسران کے عناد کی وجہ سے دارفور میں ایک بار پھر سے تنازع اٹھ کھڑا ہوا جہاں 2003 میں پہلی بار خانہ جنگی کی وجہ سے تقریبا تین لاکھ ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
حالیہ تنازعے کی وجہ سے ایک لاکھ 60 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق ماسالت کمیونٹی سے ہے جو چاڈ کا رخ کر رہی ہے۔
اب تک یہ واضح نہیں کہ علاقے میں کتنے لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ الجنینیا میں کم از کم ہلاکتوں کا تخمینہ 5000 لگایا گیا ہے۔
آر ایس ایف کے جنگجوؤں پر سوڈان کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست خرطوم میں بھی مظالم ڈھانے کے الزامات لگ چکے ہیں۔
آر ایس ایف ریاست کا سب سے زیادہ حصہ کنٹرول کرتی ہے اور اپریل کے وسط سے شروع ہونے والی لڑائی کے بعد اب تک 20 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔
خرطوم میں تشدد کی لہر نے نسلی رخ نہیں لیا جہاں تمام نسل کے لوگ بشمول عرب خانہ جنگی سے متاثر ہوئے ہیں۔
24 سالہ ابتسام (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنی آنٹی کے گھر جا رہی تھیں جب تین آر ایس ایف فوجیوں نے ان کو روکا۔
’انھوں نے اپنی بندوقوں کا رخ میری جانب کر دیا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کہاں جا رہی ہوں۔ جب میں نے ان کو بتایا کہ میں اپنی آنٹی کے گھر جا رہی ہوں تو انھوں نے الزام لگایا کہ میرا تعلق فوج کے خفیہ ادارے سے ہے۔‘
آر ایس ایف فوجیوں نے ان کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھایا اور ایک قریبی مکان میں لے گئے۔
’وہاں میں نے ایک اور شخص کو دیکھ جس نے صرف انڈرویئر پہن رکھا تھا۔ میں نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن ایک فوجی نے مجھے اتنی زور سے دھکا دیا کہ میں زمین پر گر گئی۔ انھوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے پھر ہلنے یا چلانے کی کوشش کہ تو وہ مجھے مار دیں گے۔‘
’ان تینوں نے باری باری میرا ریپ کیا، ایک سے زیادہ بار۔ پھر انھوں نے مجھے گاڑی کے پیچھے بٹھا کر سڑک کے کنارے پھینک دیا۔‘
ایک وقفہ لے کر انھوں نے بتایا کہ اس واقعے کے بعد وہ کیسے بے عزتی اور غصے کے احساسات سے دوچار تھیں۔
’میں خودکشی کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے خود کو سنبھالا۔ میں واپس گھر چلی گئی اور میں نے کسی کو نہیں بتایا کہ کیا ہوا ہے۔‘
سوڈان میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے جولائی میں کہا تھا کہ ان کو 57 خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جنسی تشدد کے 21 واقعات کی رپورٹ ملی ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ترک نے کہا کہ ان تمام واقعات میں آر ایس ایف کو نامزد کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ اور مقامی انسانی حقوق کے گروپس کا ماننا ہے کہ یہ تعداد جرائم کی اصل تعداد سے بہت کم ہے۔
اہلم ناصر سوڈان میں انسانی حقوق پر کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کو اس بات میں ’کوئی شک نہیں کہ ریپ کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو دہشت زدہ کیا جائے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’دارفور میں ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور اب خرطوم میں بھی ہو رہا ہے خصوصا آر ایس ایف کی جانب سے۔‘
اہلم ناصر بھی اب سوڈان سے فرار ہو چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے خواتین سے ایسی بہت سی کہانیاں سنی ہیں۔
’چند واقعات میں ماؤں کو ان کے بچوں کے سامنے ریپ کیا گیا۔‘
آر ایس ایف ان الزامات کی تردید کرتی ہے کہ اس کے اہلکار ایسے واقعات میں ملوث ہیں۔
بی بی سی کو پیغام میں آر ایس ایف کے ترجمان محمد المختار نے کہا کہ ان کے فوجیوں کو ان کی فتوحات کے بعد بدنام کرنے کی سوچی سمجھی مہم چلائی جا رہی ہے۔
جب میں نے ان کو بتایا کہ میری ایسی خواتین سے بات ہو چکی ہے جنھوں نے آر ایس ایف اہلکاروں کی شناخت کی ہے تو آر ایس ایف کے ترجمان محمد المختار نے کہا کہ کچھ لوگ آر ایس ایف کے اہلکار بن کر ایسے کام کرتے ہیں۔
تاہم اس تنازعے میں ریپ اور جنسی تشدد کے متاثرین کسی مدد کے بغیر جی رہے ہیں۔ زیادہ تر ہسپتال فعال نہیں اور ایسے ہسپتال جو اب تک فعال ہیں، ان تک رسائی آسان نہیں۔
کلثوم اور ابتسام نے مجھے بتایا کہ ان کا درد ہمیشہ ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔
کلثوم کہتی ہیں کہ ’میں اسے کبھی نہیں بھولوں گی۔ یہ شرم کا نشان ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا، میرے سائے کی طرح۔‘
Comments are closed.