11 ستمبر 2001: نائن الیون سے متعلق سازشی نظریات جو بیس سال بعد بھی پھیل رہے ہیں
- شایان سرداریزادے
- بی بی سی مانٹرنگ
9/11 ٹروتھ موومنٹ کی جانب سے ہر سال ریلیاں نکالی جاتی ہیں
11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر ہونے والے حملوں کے چند گھنٹوں کے بعد ہی 9/11 کے متعلق سازشی نظریات انٹرنیٹ پر نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے اور پھر آہستہ آہستہ سوشل میڈیا کے عروج کے بعد ان کے دائرہ کار اور پیمانے میں اضافہ ہوا ہے۔
9/11 کمیشن، امریکی حکومتی ایجنسیوں اور ماہرین کی وسیع رپورٹوں نے ہمیشہ ان سازشوں کے وجود کی تردید کی ہے۔
لیکن امریکہ اور دیگر جگہوں پر سرگرم 9/11 ٹرتھ موومنٹ جیسے گروہ کہتے ہیں کہ حقائق چھپائے گئے ہیں۔
تحریک کے کچھ سرکردہ ارکان نے کووڈ۔19 اور ویکسین کے بارے میں بھی سازشی نظریات کو اپنایا ہے۔
اور کچھ سینیئر سیاستدانوں، مشہور شخصیات اور میڈیا کے لوگوں نے بھی سرکاری موقف پر اختلاف کا اظہار کیا ہے۔
’عالمی حکومت‘
کیو اینون جیسی آن لائن نئی سازشی تحریکوں کے عروج نے، جن کے پیروکار دوسرے نظریاتی خیالات کے علاوہ اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ حملوں کی ذمہ دار امریکہ کی ’ڈیپ سٹیٹ‘ ہے، ان سازشی نظریات کو گردش میں رکھا ہے اور وہ انھیں بہت زیادہ سامنے بھی لائے ہیں۔
اور ’لوز چینج‘ جیسی فلموں کے آن لائن کلپس نے گردش کرنے والی اس طرح کی جھوٹی سازشوں کو بہت تقویت دی ہے۔
کچھ کا دعویٰ ہے کہ امریکی حکومت نے یہ حملے خود کروائے تھے یا انھیں پہلے سے ان کا علم تھا اور انھوں نے یہ ہونے دیے۔
اور اس طرح کے جھوٹ ان حالیہ آن لائن تحریکوں کے عقیدے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں کہ عالمی اشرافیہ کا منصوبہ تھا کہ حملوں کے ردِ عمل کے طور پر شہری آزادیوں کو کم کیا جائے اور ایک آمرانہ عالمی حکومت کے قیام کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
آن لائن سازشی نظریات میں اکثر کہا جاتا ہے کہ امریکہ نے خود ہی یہ حملے کروائے تھے
’جیٹ فیول سٹیل کو پگھلا نہیں سکتا‘، ایک ایسا دعویٰ ہے جسے بڑے پیمانے پر آن لائن شیئر کیا گیا۔ اس دعوے سے یہ تاثر دیے جانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کیا گیا تھا۔
لیکن ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ٹکر مارنے والے طیاروں نے دونوں ٹاورز کے سپورٹ کالموں کو شدید نقصان پہنچایا تھا اور ان کی آگ کو روکنے (فائر پروفنگ) کی صلاحیت کو ختم کر دیا تھا۔
اس کے علاوہ کچھ حصوں میں آگ ایک ہزار سینٹی گریڈ تک پہنچ گئی تھی، جس کی وجہ سے سٹیل پگھلنا شروع ہو گیا اور عمارتیں منہدم ہو گئیں۔
نائن الیون حملوں کے 20 برس بعد بھی ان حملوں کے بارے میں سازشی نظریات کی کمی نہیں
بے قابو شعلے
جڑواں ٹاورز کے قریب ہی ایک 47 منزلہ فلک بوس عمارت سیون کے تباہ ہونے نے بھی کئی سازشی نظریات کو جنم دیا ہے، جن میں سے کچھ گزشتہ سال 9/11 کی برسی کے موقع پر اہم سوشل نیٹ ورکس پر ٹرینڈ چلتے رہے تھے۔
یہ عمارت جس میں سی آئی اے، ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اور آفس آف ایمرجنسی مینجمنٹ کے دفاتر تھے، جڑواں ٹاورز کے تباہ ہونے کے کچھ گھنٹوں بعد منہدم ہو گئی تھی، حالانکہ اس کو کسی طیارے نے ٹکر نہیں ماری تھی یا براہ راست نشانہ بنایا تھا۔
دوسری عمارت سیون کے گرنے کی فوٹیج
لیکن 2008 میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹینڈرڈز اینڈ ٹیکنالوجی کی تین سالہ تحقیقات نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ عمارت شدید اور بے قابو آگ کی وجہ سے گری تھی، جو تقریباً سات گھنٹے تک جاری رہی۔ یہ آگ قریبی نارتھ ٹاور کے گرنے والے ملبے سے شروع ہوئی تھی۔
سیون اپنی نوعیت کا پہلا ٹاور تھا جو آگ کی وجہ سے گر گیا تھا۔
لیکن 2017 میں ایران کے دارالحکومت تہران میں بھی پلاسکو ٹاور آگ کی وجہ سے گرنے والا دوسرا ٹاور بن گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ سیون کے گرنے کی خبر بی بی سی نیوز کی نامہ نگار جین سٹینلے نے براہ راست اپنی رپورٹ میں پیش کی تھی جبکہ یہ ابھی تک واضح طور پر ان کے پیچھے کھڑا ہوا نظر آ رہا تھا۔
یہ رپورٹ بہت سے سازشی نظریات کی وجہ بنی اور ان کو ماننے والوں نے کہا کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ’بڑے بڑے میڈیا کے ادارے اندرونی سازش کا حصہ تھے۔‘
سیون ابھی گرا بھی نہیں تھا لیکن بی بی سی ورلڈ نیوز کی رپورٹر نے غلطی سے اس کے گرنے کی خبر دے دی تھی
دراصل ہوا یہ تھا کہ خبر رساں ادارے روئٹرز نے غلطی سے عمارت کے منہدم ہونے کی اطلاع دی تھی، جسے سی این این نے بھی بی بی سی کی لائیو رپورٹ سے پہلے چلایا تھا۔
رؤئٹرز نے بعد میں اس کی تردید کی اور غلطی تسلیم بھی کی۔ لیکن 9/11 والے دن اس رپورٹ کے کلپس وائرل ہوتے رہے ہیں۔
بزنس جیٹ
کچھ آن لائن سازشی نظریات کے مطابق ایک سرکاری سازش کے تحت پینٹاگون پر امریکی میزائل داغے گئے تھے اور عمارت میں ہونے والا سوراخ اتنا چھوٹا تھا کہ وہ کسی مسافر طیارے کے ٹکرانے سے نہیں بن سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
نائن الیون حملوں میں امریکہ میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے
لیکن امریکن سوسائٹی آف سول انجینیئرز کے ایک رکن نے جریدے ’پاپولر مکینکس‘ کو بتایا کہ سوراخ کا سائز اور شکل اس لیے اتنے تھے کہ طیارے کا ایک ونگ زمین سے ٹکرایا تھا اور دوسرا عمارت سے ٹکرانے کے بعد علیحدہ ہو گیا تھا۔
دریں اثنا، یونائیٹڈ ایئرلائنز کی فلائٹ 93 پنسلوینیا کے علاقے شینکسویل کے قریب گر کر اس وقت تباہ ہو گئی جب طیارے کے مسافروں نے ہائی جیکروں سے طیارے کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔
آن لائن سازشی نظریات کے مطابق اسے ایک سفید بزنس جیٹ نے مار گرایا جو قریبی ہوائی اڈے پر اترا تھا۔
کئی سازشی نظریات کے مطابق پینٹاگن سے طیارہ نہیں بلکہ میزائل ٹکرایا تھا
لیکن ہوا بازی کے حکام نے جیٹ سے اس علاقے کے معائنے کی درخواست کی تھی، جو اس نے کیا، اور واپس یہ رپورٹ بھیجی کہ زمین پر ایک بڑے سوراخ کے شواہد ہیں اور وہاں سے دھواں نکل رہا ہے۔
اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی نے بعد میں اپنی سوانح عمری میں انکشاف کیا تھا کہ جڑواں ٹاورز پر حملے کے بعد انھوں نے حکم دیا تھا کہ کوئی بھی تجارتی ہوائی جہاز اگر ہائی جیک ہو تو اسے مار گرایا جائے۔
لیکن 9/11 کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، حملوں کے بعد ایسا انتشار پھیلا اور الجھن پیدا ہو گئی کہ ان کا حکم لڑاکا طیاروں کے پائلٹوں تک ہی نہیں پہنچایا گیا۔
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یونائیٹڈ ایئرلائنز فلائٹ 93 کو مار گرایا گیا تھا
’یہودی اشرافیہ‘
ایک اور سازشی نظریے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ حملوں میں ’کوئی یہودی نہیں مارا گیا کیونکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں کام کرنے والے 4000 یہودی ملازمین کو پیشگی اطلاع ملی تھی کہ وہ کام پر نہ آئیں۔‘
اس سازشی نظریے کو ماننے والوں کو یقین ہے کہ اسرائیلی حکومت نے یہ حملے اس لیے کروائے کہ امریکہ اس کے علاقائی دشمنوں پر حملہ کرے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان حملوں کی ذمہ داری ’طاقتور یہودی اشرافیہ پر عائد ہوتی ہے جو پسِ پردہ عالمی واقعات کو کنٹرول کرتی ہے۔‘
لیکن نائن الیون میں ورلڈ ٹرینڈ سینٹر میں ہلاک ہونے والے 2071 میں سے 119 لوگوں کے یہودی ہونے کی تصدیق ہوئی اور کم از کم مزید 72 کے بارے میں یقین ہے کہ وہ یہودی تھے۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم ’کانسپریسی فائلز‘ کی ایک تحقیق کے مطابق یہ اس میں مرنے والوں کا 9.2 فیصد ہو گا، جو کہ کافی حد تک اس وقت نیو یارک میں رہنے والی 9.7 فیصد آبادی سے ملتا جلتا ہے جن سے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ یہودی تھی۔
اور کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دن 400 کے قریب یہودی ہلاک ہوئے تھے۔
اسی طرح کے نظریات عراق اور ایران سمیت دیگر ریاستوں کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں، لیکن ان کے براہ راست ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔
Comments are closed.