حکومتِ سندھ کے محکمہ انسانی حقوق نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ صوبے میں بین الاقوامی کنونشنز پر من و عن عملدرآمد اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف اپنی زیرو ٹالرنس پالیسی کو مزید موثر اور نتیجہ خیز بنائے گی۔
سندھ کے محکمہ انسانی حقوق کی جانب سے مقامی ہوٹل میں ’بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں اور وفاقی و صوبائی سطح پر اس کے نفاذ کے طریقہ کار پر اورینٹیشن سیشن‘ کے موضوع پر ایک آگہی سیشن منعقد کیا گیا، جس میں ریونیو، پولیس اور قانون کے محکموں کے افسران اور نمائندوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں سمیت معاشرے کے کمزور طبقات کے تحفظ و حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے بھی شرکت کی۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سریندر ولاسائی نے کہا کہ سندھ صوبہ حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں کی روک تھام اور متاثرین کو تحفظ و انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دیگر صوبوں سے آگے ہے۔
انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا چوتھا دو سالہ GSP+ جائزہ 2022 کے آخر میں مکمل ہوا اور یورپی کمیشن نے یورپی پارلیمنٹ کو رپورٹ پیش کر دی۔ انہوں نے کہا کہ GSP+ اسکیم اس سال ختم ہو رہی ہے اور مذکورہ جائزے کی رپورٹ یورپی یونین کی جانب سے پاکستان کو اگلے GSP+ ایوارڈ دینے کے تعین میں اہم کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ GSP+ کے تحت پاکستان کی سالانہ 1.5 ارب ڈالرز سے 2 ارب ڈالرز تک کی آمدنی ہوتی ہے۔
سریندر ولاسائی نے کہا کہ GSP+ کے لیے بنیادی کام سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی زیرِ قیادت حکومت کے دوران کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا حقوقِ انسانی کے حوالے سے ہمیشہ دوٹوک موقف رہا ہے کہ کوئی بھی عوامی جماعت اور جمہوری حکومت حقوقِ انسانی پر مصلحت کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی محکمہ انسانی حقوق چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ویژن اور حکومتِ سندھ کی واضح پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
سریندر ولاسائی نے زور دیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے صرف وفاقی اور صوبائی سطح کا مکینزم کافی نہیں ہے، اسے ضلعی سطح پر لے جانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ انسانی حقوق کے دائرہ کار کو اب ڈویژنل سطح سے بڑھا کر ضلعی سطح تک لایا جا رہا ہے۔
سندھ کے محکمہ انسانی حقوق کے سیکریٹری جاوید صبغت اللّٰہ مہر نے اپنے خطاب میں محکمے کے دائرہ کار، کارکردگی اور مستقبل کی پلاننگ کے حوالے سے شرکاء کو تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی شکایات کے فوری ازالے اور انصاف کی فراہمی کے لیے ان کے محکمے کی جانب سے متعدد اقدامت کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکنالاجی کے توسط سے ایک آٹومیشن میکینزم تشکیل دیا جا رہا ہے، جس کے ذریعی متاثر فرد کی شکایت موصول ہونے کے بعد تمام متعلقہ ادارے ایک پیج پر آجائیں گے۔
جاوید صبغت اللّٰہ مہر نے کہا کہ متاثرین ی شکایات کے تدارک اور انصاف کی فراہمی کے لیے محکمہ پولیس اور محکمہ انسانی حقوق کے درمیان فوری و موثر مکینزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے محکمے کی جانب سے ڈسٹرکٹ ہیومن رائٹس کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی اور اس حوالے ڈپٹی کمشنرز کو توجہ دینے چاہیے۔
سیشن کے دوران ہیومن رائٹس کمیشن سندھ کے چیئرپرسن اقبال ڈیتھو نے حقوق انسانی کے حوالے سے سرکاری سطح پر انسٹیٹیوشنل مکینزم پر روشنی ڈالی۔
ڈی آئی جی جاوید جسکانی، سابق سیکریٹری سندھ عبدالرحیم سومرو، محکمہ انسانی حقوق سندھ کے ٹریٹی امپلیمینٹیشن سیل کے ایگزیکیو ٹو کوآرڈینیٹر جمیل جونیجو اور ہیومن رائیٹس کمیشن سندھ کے رکن ذوالفقار شاہ نے بھی خطاب کیا۔
سیشن میں شریک افسران اور مختلف محکموں کے نمائندوں نے محکمہ انسانی حقوق کی جانب سے آگہی سیشن کے انعقاد کو سراہا اور زور دیا کہ اس طرح کے پروگرامز انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ کے حوالے سے انتہائی ضروری ہیں۔
Comments are closed.