سموگ: دہلی اور لاہور سانس لینے کی جنگ میں بیجنگ سے پیچھے کیوں ہیں؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
گذشتہ کچھ سالوں سے دُنیا کے گنجان آباد شہروں میں فضائی آلودگی کا مسئلہ خاص طور پر موسمِ سرما میں شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔
ان گنجان آباد شہروں کی اگر بات کی جائے تو شائد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ان میں رہنے والے نظام تنفس کی متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ موسمِ سرما میں فضائی آلودگی کی ایک شکل ’سموگ‘ کی صورت میں وارد ہوتی ہے۔
ایشیا کی بات کی جائے تو چین میں بیجنگ، انڈیا میں دلی اور پاکستان میں لاہور وہ شہر ہیں جہاں سرد موسم کے آتے ہی سموگ کا راج ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے، ان تینوں گنجان آباد ایشیائی ملکوں میں رہنے والے لوگ زہریلے دھوئیں کا شکار ہو رہے ہیں جو ان کے شہروں کو ڈھانپتا ہے۔
بعض دنوں میں جب دھواں ان تینوں شہروں کو نارنجی اور بھورے رنگ میں ڈھانپتا ہے اور فضا میں دھوئیں کی بو اور ذائقہ پھیل جاتا ہے تو لوگوں کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک ڈراؤنے خواب میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔
یہاں تک کہ بیجنگ کے رہائشیوں نے اس آفت کو ایک مشہور لقب بھی دیا ’ایئرپوکیلیپس۔‘
ہر سال کی طرح دلی اور لاہورپر سموگ کا راج ہے، لیکن بیجنگ کے حالات اس مرتبہ بہت بہتر ہیں۔
دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سے ایک لاہور کی فضا ان دنوں سموگ کی زد میں ہے۔
ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور کا اے کیو آئی 330 ریکارڈ کیا گیا جو غیر صحت مند کے زمرے میں آتا ہے۔ لاہور میں پائی جانے والی اس فضائی آلودگی میں انسانی جسم کے لیے انتہائی خطرناک اور زہریلا کیمیائی مادہ ’پی ایم 2.5‘ موجود ہے۔
اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایسے باریک ذرات ہوتے ہیں جو سانس کی نالی سے پھیپھڑوں اور پھر خون کے بہاؤ میں داخل ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں انسانی صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دہلی ماسٹر پلان کے تحت 80 فیصد سفر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کیے جائیں گے، لیکن میٹرو اور بس سسٹم کے درمیان انضمام کے فقدان کی وجہ سے اس ہدف کو حاصل کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے
لاہور اور صوبہ پنجاب کے چند دیگر بڑے اضلاع میں بھی صوبہ پنجاب کی انتظامیہ نے آئندہ سات دنوں کے لیے فیس ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دیا ہے اور ساتھ ہی جاری کردہ ہدایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بلاوجہ گھروں سے نکلنے سے گُریز کیا جائے۔ اسی کے ساتھ ہی انتظامیہ کی جانب سے سموگ کی شدت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو بند بھی رکھا گیا۔
انڈیا کے شمالی حصے اور پاکستان کے بعض حصے فضائی آلودگی سے شدید متاثر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے سرحد کی دونوں جانب الزامات کا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔
پاکستان کی جانب سے سرحد پار بڑے پیمانے پر فصلوں کی کٹائی کے بعد بچ جانے والی باقیات یا مڈھی جلانے کو پاکستانی شہروں، خاص کر کہ لاہور میں شدید فضائی آلودگی کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم اب یہی کام پاکستان میں بھی بڑے پیمانے پر ہونے لگا ہے۔
واضح رہے کہ سال کے اس حصے میں گندم کی فصل کی تیاری کے لیے پیال اور مڈھی کو ختم کرنے کے لیے اسے جلایا جاتا ہے جس سے فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔
مگر اس سب صورت حال کے برعکس وہ ایک شہر جو آج سے چند سال پہلے تک لاہور اور دلی کے ساتھ ایک ہی صف میں ہوا کرتا تھا وہ آج ان کے ساتھ نہیں ہے۔
بات کرتے ہیں بیجنگ کی کہ کیسے اس نے فضائی آلودگی پر قابو پایا اور آج جب دنیا کے مختلف ممالک کی فضا آلودہ اور سموگ کا سامنا کر رہی ہے تو بیجنگ کے آسمان نیلے اور آلودگی سے پاک کس طرح ہیں۔
بیجنگ نے سنہ 2013 سے فضائی آلودگی کے خلاف کمانڈ اینڈ کنٹرول کے متعدد اقدامات کا استعمال کرتے ہوئے ایک جنگ لڑی۔
ایک شاندار ایکشن پلان اور منصوبے میں کوئلے کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی، رہائشی عمارتوں میں کوئلے سے چلنے والی ہیٹنگ سسٹم کو بند کردیا گیا، ڈیزل کا استعمال سے چلنے والے ٹرکوں پر ایندھن اور انجن کے معیار میں اضافہ کیا، آلودگی پھیلانے والی کاروں کو ختم کردیا گیا۔
لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ الیکٹرک کاروں کو متبادل کے طور پر استعمال کریں اور صرف یہی نہیں بلکہ لوگوں سے بھی کہا گیا کہ مختصر سفر کے لیے اپنی سائیکلوں کا استعمال کریں۔
فن لینڈ کے دارلحکومت ’ہیلسنکی‘ میں قائم سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر کے تجزیہ کار لوری میلیورٹا کے مطابق بیجنگ نے شہر کے اندر ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کی، فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے بیجنگ کا بجٹ 2013 میں 43 0 ملین ڈالر (350 ملین پاؤنڈ) سے بڑھ کر 2017 میں 2.6 بلین ڈالر ہو گیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
نتائج متاثر کن رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پولوشن انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تیار کردہ ایئر کوالٹی لائف انڈیکس (اے کیو ایل آئی) کے مطابق 2013 کے بعد سے بیجنگ میں فضائی آلودگی میں تقریبا 50 فیصد اور ملک بھر میں تقریبا 40 فیصد کمی آئی ہے۔
بیجنگ (فضائی آلودگی کے انڈیکس میں) بہت اوپر تھا۔ لیکن اس میں ڈرامائی بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ کوئلے سے گیس اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع تک زبردست زور دیا جا رہا ہے۔
اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ میں چین کے تجزیہ کار چیم لی نے مجھے بتایا کہ پیٹرول کے مقابلے میں الیکٹرک کاریں خریدنا آسان ہے۔
ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے دہلی کی دو دہائیوں کی طویل کوششوں نے بھی کچھ نتائج دکھائے ہیں۔
شہر نے آلودگی پھیلانے والی باضابطہ صنعتوں کو ختم کر دیا ہے، کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو بند کر دیا ہے، دنیا کا سب سے بڑا قدرتی گیس پر مبنی پبلک ٹرانسپورٹ پروگرام متعارف کرایا ہے، پرانی کمرشل گاڑیوں کو جبراً سڑکوں سے ہٹا دیا ہے، اخراج کے سخت معیارات نافذ کیے ہیں اور ایک مؤثر میٹرو تعمیر کی ہے۔
کیا ان اقدامات نے شہر کی ہوا کے معیار کو متاثر کیا ہے؟ فضائی آلودگی کی ماہر اور دہلی کے سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، انومیتا رائے چودھری کہتی ہیں’ جی ہاں، انھوں نے کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دہلی میں طویل المدتی ہوا کے معیار کے رجحانات سے پتا چلتا ہے کہ آلودگی کی سطح ہر سال نہیں بڑھ رہی ہے۔ یہ اصل میں نیچے آ رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دہلی نے اس مسئلے پر قابو پا لیا ہے اور آلودگی کو کم کیا ہے۔‘
’لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ دہلی کو صاف ہوا کے معیار کو پورا کرنے کے قابل ہونے کے لیے پی ایم 2.5 کی سطح کو مزید 60 فیصد تک کم کرنے کی ضرورت ہے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کی جانب سے سرحد پار بڑے پیمانے پر فصلوں کی کٹائی کے بعد بچ جانے والی باقیات یا مڈھی جلانے کو پاکستانی شہروں، خاص کر کہ لاہور میں شدید فضائی آلودگی کا سبب قرار دیا جاتا ہے
اس کے باوجود، فضائی آلودگی کے خلاف دہلی کی جنگ ناکافی منصوبہ بندی، غلط طریقے سے تیار کردہ پالیسیوں اور جانبدارانہ سیاست کی وجہ سے اسے ٹھیں پہنچتی ہے۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ دہلی کی آدھی سے زیادہ آلودگی گاڑیوں کے اخراج سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد کوئلے سے چلنے والی صنعتوں سے دھواں نکلتا ہے، اور پھر تعمیراتی مقامات سے کچرا جلانے کا دھواں اور دھول اڑتی ہے۔
موسم سرما کے دوران، پاکستان کے صوبہ پنجاب اور ہریانہ میں فصلوں کی مڈھی جلانا جو کٹائی کے موسم کے دوران ایک عام رواج ہے کچھ دنوں میں دہلی کی فضائی آلودگی کا ایک چوتھائی حصہ بن سکتا ہے اور یہ ہوا کی رفتار اور سمت پر منحصر ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت اب اس مسئلے سے نمٹنے میں ناکامی کے لیے پاکستان کے صوبہ پنجاب کی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔
پرانی گاڑیوں پر پابندی لگا کر دہلی نے اپنی سڑکوں پر کاروں کی تعداد کو 2015 کے مقابلے میں ایک تہائی سے زیادہ کم کر دیا ہے ۔ اس کے باوجود، گاڑیوں کا اخراج ایک ایسے شہر میں آلودگی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے جس کا شہری ڈیزائن کاروں کی طرف دوستانہ ہے اور پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے خلاف ہے۔
تقریبا 400 کلومیٹر (248 میل) طویل دہلی میٹرو انڈیا کا سب سے لمبا اور مصروف ترین میٹرو نیٹ ورک ہے لیکن اس کا گھروں اور کام کی جگہوں رابطہ غیر واضح ہے۔
اگرچہ شہر کی 7,000 پبلک بسوں میں سے تقریباً 14 فیصد الیکٹرک ہیں ، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ استعمال میں دشواریوں کی وجہ سے بس مسافروں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
2013 کے بعد سے بیجنگ میں فضائی آلودگی میں تقریبا 50 فیصد اور ملک بھر میں تقریبا 40 فیصد کمی آئی ہے
دہلی ماسٹر پلان کے تحت 80 فیصد سفر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے کیے جائیں گے، لیکن میٹرو اور بس سسٹم کے درمیان انضمام کے فقدان کی وجہ سے اس ہدف کو حاصل کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔
رائے چودھری کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کے پاس کوئی حل بھی ہے تو آپ اسے کام میں نہیں لا سکتے کیونکہ آپ نے اسے صحیح طریقے سے ڈیزائن نہیں کیا ہے۔ علاقائی منصوبہ بندی کا فقدان بھی پیش رفت میں رکاوٹ ہے۔ جہاں دہلی میں آلودگی کے گرد بحث چل رہی ہے، وہیں شمالی ہندوستان، مشرقی پاکستان اور نیپال اور بنگلہ دیش کے کچھ حصوں میں پھیلے گنگا کے وسیع میدانی علاقے کے ہمسایہ شہر بھی دھوئیں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔‘
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بہار میں فضائی آلودگی کی سطح اکثر دہلی کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے پھر بھی اس معاملے پر محدود بحث ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’بات چیت صرف دہلی کے بارے میں نہیں ہو سکتی۔ اسے پورے خطے میں بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی چیز ہے جو بیجنگ نے سمجھ لی۔ اس نے 2017 تک فضائی آلودگی کو ایک چوتھائی تک کم کرنے کا ہدف مقرر کیا اور ایک علاقائی منصوبہ تیار کیا جس میں پڑوسی صوبے شامل تھے۔
2013 اور 2017 کے درمیان، بیجنگ اور آس پاس کے علاقوں میں فائن پارٹیکلز کی سطح بالترتیب تقریبا 35 فیصد اور 25 فیصد تک گر گئی۔
اقوام متحدہ کے جائزے کے مطابق دنیا کے کسی بھی دوسرے شہر یا خطے نے ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ بیجنگ دہلی کے مقابلے میں کوئلے اور ڈیزل سے بہت تیزی سے دور ہوا۔
رائے چودھری کہتی ہیں کہ ’بیجنگ نے جو فیصلے کیے ہیں وہ (انڈیا جیسی جمہوریت میں) مشکل ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ دہلی اور انڈیا کو یہ دیکھنا چاہیے کہ امریکہ اور یورپی شہروں نے فضائی آلودگی کو کس طرح کنٹرول کیا۔
اے کیو ایل آئی کے مطابق، ترقی کے باوجود، بیجنگ لاس اینجلس کے مقابلے میں تین گنا زیادہ آلودہ ہے۔ جو سب سے زیادہ آلودہ امریکی شہر ہے اور زمین پر سب سے کم آلودہ شہروں میں سے ایک ہے۔
رائے چودھری کہتی ہیں ’دہلی کے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمیں اگلے چند سالوں میں سب کچھ شروع کرنا ہے۔ ‘
Comments are closed.