نیو کاسل یونائیٹڈ: سعودی عرب کا انگلش فٹبال کلب لینے کا فیصلہ متنازع کیوں ہے؟
جمال خاشقجی کی منگیتر نے سعودی عرب کے کنسورشیم کے نیو کاسٹل یونائیٹڈ کو حاصل کرنے کے فیصلے کو ’دل توڑنے والا‘ کہا ہے
انگلینڈ کے نیو کاسل یونائیٹڈ فٹ بال کلب کو سعودی عرب کی سربراہی والے کنسورشیم کے خریدنے کو جہاں بہت سے شائقین نے خوش آمدید کہا ہے وہیں خلیجی ریاست کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے ناقدین نے اس کی مذمت بھی کی ہے۔
یہاں کچھ وجوہات پیش کی جا رہی ہیں کہ یہ فیصلہ کیوں متنازع ہے۔
بدنام زمانہ قتل
سعودی عرب کی بین الاقوامی ساکھ کو اس وقت شدید نقصان پہنچا تھا جب اکتوبر 2018 میں امریکہ میں مقیم سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قتل کیا گیا۔ خاشقجی سعودی حکومت کے اہم ناقدین میں سے ایک تھے۔
اقوام متحدہ کے مقرر کردہ انسانی حقوق کے ایک ماہر نے کہا کہ خاشقجی کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں سعودی ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے ’بے دردی سے قتل کیا‘ تھا۔ سعودی عرب کے ڈی فیکٹو (حقیقت میں) حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور دیگر اعلیٰ حکام کو بھی اس قتل کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ ولی عہد نے کسی بھی حوالے سے اس قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا لیکن بیرون ملک ان کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔
جمال خاشقجی قتل کا ایک سال: ’خاشقجی کی موت ریاستی قتل ہے‘
خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے نیو کاسل کے سعودی قبضے کو ’دل توڑنے والا‘ قرار دیا ہے۔
سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ، جس کا نیو کاسل میں 80 فیصد حصہ ہے، کی صدارت ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کرتے ہیں، اگرچہ پریمیئر لیگ نے کہا کہ اسے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ سعودی حکومت کلب کو کنٹرول نہیں کرے گی۔
انسانی حقوق کی خواتین کارکنوں کو قید کرنا
لجين الهذلول کو تین سال حراست میں رکھنے کے بعد فروری میں رہا کیا گیا تھا
2018 میں سعودی حکام نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی 13 کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان سرگرم کارکنوں نے خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی ختم کرنے کی مہم کی قیادت کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق کم از کم چار خواتین کو تفتیش کاروں نے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا اور جنسی طور پر ہراساں بھی کیا تھا۔
2020 میں دہشت گردی کے ایک ٹربیونل نے سب سے نمایاں کارکن لجين الهذلول کو ریاست کے خلاف جرائم کا مجرم پایا تھا۔ لجين نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے الزامات کو ’ جعلی‘ قرار دیا تھا۔
اگرچہ جج نے ان کی پانچ سال قید کی سزا کا کچھ حصہ معطل کر کے فروری میں ان کی رہائی کی راہ ہموار کی، لیکن ان پر سفری اور دیگر پابندیاں لگا دی گئی تھیں۔
دیگر کارکنوں میں سے ایک کے علاوہ باقی سب اب ضمانت پر جیل سے باہر ہیں یا معطل سزائیں بھگت رہے ہیں۔
اختلافِ رائے پر بندشیں
عریج السادھان کہتی ہیں کہ ان کے بھائی کو حکام پر تنقید کرنے والےطنزیہ ٹویٹس کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد 20 سال قید کی سزا دی گئی
سعودی عرب میں صرف خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد کو ہی کریک ڈاؤن کے بعد حراست میں نہیں لیا جاتا، یہاں سیاسی جماعتوں، ٹریڈ یونینوں اور انسانی حقوق کے آزاد گروپوں پر بھی پابندیاں عائد ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق انسانی حقوق کے درجنوں محافظ، دانشور، ماہرینِ تعلیم، علما اور اصلاح پسند بھی 2017 سے اظہار رائے کی آزادی کے اپنے حق کو استعمال کرنے پر گرفتار کیے گئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بہت سے لوگوں نے دہشت گردی اور سائبر کرائم کے مبہم الزامات کی بنیاد پر انتہائی غیر منصفانہ مقدمات کا سامنا کیا ہے اور انھیں سخت سزائیں ملی ہیں، جن میں سزائے موت بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیے
نیو کاسل کو لینے سے کچھ دن پہلے ایک سعودی عدالت نے سعودی نژاد امریکی امدادی کارکن عبدالرحمان السادھان کو حکام پر تنقیدی ٹویٹس لکھنے پر دی جانے والی 20 سال قید کی سزا برقرار رکھی تھی۔
ان کی بہن اریج نے کہا کہ سزا سنانے سے پہلے ان پر ’وحشیانہ تشدد‘ کیا گیا تھا اور یہ کہ نیو کیسل کا کنٹرول سعودی زیادتیوں کو ’وائٹ واش‘ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
یمن میں جنگ
اقوامِ متحدہ کے مطابق یمن میں جنگ کی وجہ سے بدترین انسانی بحران پیدا ہوا ہے
سعودی عرب کو اپنے ہمسایہ ملک یمن پر فوج کشی کی وجہ سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔ اس فوجی مہم کی وجہ سے یمن میں بدترین انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔
سعودی قیادت والے اتحاد نے 2015 میں یمن میں اس وقت مداخلت کی تھی جب یمنی باغیوں نے ملک کے بیشتر مغربی حصے پر قبضہ کر لیا تھا اور صدر کو مجبوراً بیرون ملک فرار ہونا پڑا تھا۔
مزید پڑھیئے
اس لڑائی میں اب تک مبینہ طور پر ایک لاکھ سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ ایک مانیٹرنگ گروپ کے مطابق اتحادیوں کی طرف سے ہونے والے فضائی حملوں میں تقریباً آٹھ ہزار 700 عام شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ دسیوں ہزار افراد بالواسطہ وجوہات جیسے خوراک میں کمی، صحت کی سہولیات اور انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے بھی ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ اتحادی افواج کی جانب سے جزوی ناکہ بندی نے دو کروڑ لوگوں کو انسانی امداد پہنچانے کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تنازع کے دونوں فریق جنگی جرائم کے مرتکب ہو سکتے ہیں، اگرچہ اتحادی افواج نے اصرار کیا ہے کہ وہ جنگ کے اصولوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔
سزائے موت
اطلاعات کے مطابق سعودی عرب میں 2021 کے پہلے چھ مہینوں میں 2020 کے پورے سال کی نسبت زیادہ لوگوں کو سزائے موت دی ہے
سعودی عرب دنیا میں موت کی سزا دینے والے سرِ فہرست ممالک میں شامل ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق جنوری اور جولائی 2021 کے درمیان ملک میں کم از کم 40 افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے۔
جون میں ایک شخص کو ان جرائم کے لیے موت کی سزا دی جو اس نے مبینہ طور پر 17 سال کی عمر میں کیے تھے، اگرچہ مملکت نے بارہا یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ اس نے نابالغ مجرموں کی سزائے موت ختم کر دی ہے۔
مصطفیٰ الدرویش کو حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت سے متعلق کئی الزامات پر سزا سنائی گئی، حالانکہ انھوں نے مقدمے میں گواہی دی تھی کہ انھوں نے یہ اعتراف اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے بعد کیا تھا۔
ایل جی بی ٹی لوگوں کے ساتھ سلوک
اگرچہ سعودی عرب میں جنسی رجحان یا صنفی شناخت کے حوالے سے کوئی قوانین نہیں ہیں، لیکن جن لوگوں پر یہ شک ہوتا ہے کہ ان کے شادی کے باہر جنسی تعلقات ہیں، جن میں زنا اور ہم جنس افراد کے درمیان سیکس یا دیگر ’غیر اخلاقی‘ کام شامل ہیں، تو انھیں سزا دی جاتی ہے۔
اینٹی سائبر کرائم قانون ان آن لائن سرگرمیوں کو بھی جرائم گردانتا ہے جن کی وجہ سے ’پبلک آرڈر، مذہبی اخلاقیات اور پرائیویسی‘ متاثر ہوتی ہے۔
جولائی 2020 میں ایک عدالت نے ایک یمنی بلاگر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کرنے پر، جس میں ہم جنس پرستوں سمیت سب کے لیے مساوی حقوق کا مطالبہ کیا گیا تھا، دس ماہ قید اور پھر جلا وطن کرنے کی سزا سنائی تھی۔
Comments are closed.