بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سری لنکا کا معاشی بحران خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی

سری لنکا کا معاشی بحران خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی

  • سرنجانا تیواری
  • نامہ نگار بزنس برائے ایشیا

Sri Lankan anti-government protester holds a placard during a protest demanding the Sri Lankan president Gotabaya Rajapaksa to resign at Colombo.

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سری لنکا ایشیا پیسیفِک کے خطے میں گزشتہ بیس برسوں میں بیرونی قرضوں پر ڈیفالٹ کرنے والا پہلا ملک ہے

سری لنکا کو گزشتہ کچھ عرصے سے شدید معاشی بحران کا سامنا ہے اور حکومت کے خلاف شدید ہنگاموں کے بعد صدر ملک سے فرار ہو چکے ہیں لیکن بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ کچھ دیگر ممالک کو بھی سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

16 جولائی کو آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹلینا جورجیوا کا کہنا تھا کہ وہ ممالک جنھوں نے بہت زیادہ قرض لے رکھا ہے اور ان کے پاس اپنی پالیسی بدلنے کی گنجائش کم ہے، انھیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ممالک سری لنکا کی مثال سے ہی سبق لے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی ماہ سے ترقی پزیر ممالک سے سرمایہ مسلسل بیرون ملک جا رہا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک کے اس خواب کو دھچکہ لگا کہ وہ بھی ترقی یافتہ معیشتوں کی صف میں شامل ہو سکتے ہیں۔

سری لنکا کو زرمبادلہ کے بحران کا سامنا ہے اور اسے اپنی دو کروڑ 20 لاکھ کی آبادی کے لیے خوراک، ایندھن اور ادویات جیسی بنیادی ضروریات درآمد کرنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

افراط زر میں 50 فیصد تک کا اضافہ ہو چکا ہے اور گزشتہ برس کے مقابلے میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 80 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ موجودہ سال میں امریکی ڈالر اور دنیا کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں سری لنکن روپے کی قدر میں بہت کمی ہو گئی ہے۔

اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ معاشی بحران کی ذمہ داری صدر راجا پکشے کی تباہ کن معاشی پالسیاں تھیں اور کورونا وائرس کی وبا نے بھی جلتی پر تیل کا کام کیا۔

گذشتہ کئی برسوں میں سری لنکا نے خود پر قرضوں کا بوجھ لاد لیا ہے۔ یہاں تک کہ گذشتہ ماہ سری لنکا ایشیا پیسیفِک خطے کا وہ پہلا ملک بن گیا جو پچھے بیس برس میں بیرونی قضے واپس نہ کرنے کی وجہ سے ڈیفالٹ کر گیا۔

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

سری لنکا کے حکام حالیہ عرصے میں قرضوں کے دلدل سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے لیے بات چیت کرتے رہے ہیں لیکن ملک میں جاری سیاسی افراتفری کی وجہ سے فی الحال یہ مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔

لیکن یہ مسائل اب سری لنکا تک محدود نہیں رہے بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی اب افراط زر اور شرح سود میں اضافہ، کرنسی کی قدر میں کمی، بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور زرمبادلہ کی شدید کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

خطے کے یہ ترقی پزیر ممالک ایک عرصے سے بیرونی قرضوں کے لیے زیادہ انحصار چین پر کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے اپنے اندرونی معاشی معاملات پر ان ممالک کی گرفت کمزور پڑتی رہی ہے۔ چین ان ممالک کو قرض دیتے وقت کیا شرائط طے کرتا ہے، اس حوالے سے صورتحال خاصی غیر واضح ہے اور یہ بھی واضح نہیں کہ ان قرضوں کی بروقت واپسی نہ ہونے کی صورت میں انھیں کیسے ریسٹرکچر کیا جاتا رہا ہے۔

انٹرنیشل کرائسِز گروپ سے منسلک ماہرڑ ایلن کینان کہتے ہیں کہ چین کی غلطی یہ ہے کہ وہ قرض دینے کے ساتھ ساتھ ایشیا پیسیفِک کے ترقی پزیر ممالک کو ایسے مہنگے ترقیاتی منصوبوں کی ترغیب دیتا رہا ہے، جن سے معیشت کو زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔

’اس کے علاوہ چین کی دوسری بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ سری لنکا کے حمکران پکشا خاندان اور اس کی پالیسیوں کی کھلی حمایت کرتا رہا ہے۔ سری لنکا کے معاشی بحران میں اس خاندان کی سیاسی ناکامیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور جب تک ملک میں آئینی تبدیلی کے ذریعے اس کا کوئی علاج نہیں کیا جاتا اور سیاسی کلچر کو فروغ نہیں دیا جاتا، اس بات کے امکانات کم ہیں کہ سری لنکا اس بحران سے نکل پائے گا جو اب اس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔‘

فکرمندی کی بات یہ ہے کہ خطے کے کچھ دیگر ممالک بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔

A freight train carrying containers departs for Vientiane following the opening of the China-Laos Railway

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

لاؤس چین سے گزشتہ برسوں میں قرضے لیتا رہا ہے اور اب اسے ڈیفالٹ کے خطرے کا سامنا ہے

لاؤس

چاروں اطراف سے خشکی سے گھرے ہوئے 75 لاکھ آبادی کے اس ملک کو بھی گذشتہ کئی ماہ سے قرضوں کی عدم ادائیگی اور زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے ڈیفالٹ کر جانے کے خطے کا سامنا ہے۔

حالیے عرصے میں یوکرین پر روسی حملے کے بعد عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لاؤس میں بھی خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ لاؤس کی تقریباً ایک تہائی آبادی خط غربت سے نیچے ہے اور یہ لوگ مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق پیٹرول اور ڈیزل کے لیے گاڑیوں کی طویل قطاریں اب معمول بنتی جا رہی ہیں اور کئی خاندان توانائی کے بِل ادا کرنے سے قاصر ہیں۔

لاؤس کی کرنسی ( کِپ) کی قدر مسلسل کم ہوتی رہی ہے اور اس سال ڈالر کے مقابلے میں اس کی قیمت ایک تہائی سے زیادہ گر چکی ہے۔

امریکہ میں شرح سود میں اضافے سے ڈالر مضبوط ہو گیا ہے جس سے ترقی پزیر ممالک کی کرنسیاں مزید کمزور پڑ گئی ہیں اور ان ممالک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے اور درآمدات مہنگی ہو گئی ہیں۔

لاؤس، جو کہ پہلے سے ہی قرضوں میں ڈوبا ہوا تھا اب اسے قرضے واپس کرنے اور بیرون ملک سے ایندھن خریدنے میں شدید مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال دسمبر تک لاؤس کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر محض ایک اعشیارہ تین ارب ڈالر رہ گئے تھے۔ سنہ 2025 تک لاؤس کو تقریباً اتنی ہی رقم بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مدد میں درکار ہوگی، اور یہ رقم مجموی ٹیکس کے نصف کے برابر ہے۔

اس معاشی عدم توازن کا نتیجہ یہ ہے کہ گذشتہ ماہ قرضوں کی ادائیگی کی اہلیت کا جائزہ لینے والے ادارے ’موڈیز‘ نے لاؤس کی درجہ بندی میں کمی کر کے اسے ’جنک‘ کی فہرست میں ڈال دیا یعنی وہ ممالک جنھیں قرض دینا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے۔

پن بجلی اور ریلوے کے بڑے بڑے منصوبوں کے لیے چین نے لاؤس کو گذشتہ چند برسوں میں بڑے قرضے دیے۔ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے لاؤس کے سرکاری حکام کا کہنا تھا کہ چین کی مدد سے صرف گذشتہ ایک سال میں ملک میں 813 منصوبوں کا آغاز کیا گیا جن کی کل مالیت 16 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔

عالمی بینک کے مطابق سنہ 2021 میں لاؤس کے قرضوں کی کل مالیت اس کی مجموعی قومی پیداوار کے 88 فیصد کے برابر ہو چکی تھی، جس میں سے تقریباً نصف رقم چینی قرضوں پر مشتمل تھی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ لاؤس کی معاشی بدحالی کی ذمہ دار حکمران جماعت، لاؤس پیپلز ریوولوشنری پارٹی (عوامی انقلابی جماعت) کی ناقص حکمت عملی ہے جو سنہ 1975 سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے۔

لیکن مُوڈیز کے خیال میں چین کے ساتھ لاؤس کی تجارت، خاص طور پر چین کی جانب سے پن بجلی کی فراہمی ایک مثبت چیز ہے کیونکہ اس سے ’لاؤس کو یہ وقع مل گیا ہے کہ وہ اپنی معیشت کو خطرناک حدود میں جانے سے روک سکے اور اسے آئی ایم ایف کے پیکج کی ضرورت نہ پڑے۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان

حکومت کی جانب سے رعایت ختم کیے جانے کے نتیجے میں مئی کے آخری دنوں کے مقابلے میں آج پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں تقریباً 90 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔

پاکستانی معیشت مشکل میں ہے اور اشیائے صرف کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے۔ جون میں سالانہ افراط زر کی شرح تیرہ سال کی بلند ترین شرح ( 21 اعشاریہ تین فیصد) تک پہنچ چکی تھی۔

سری لنکا اور لاؤس کی طرح پاکستان کو بھی غیر ملکی کرنسی ( خـاص طور پر ڈالرز) کی کمی کا سامنا ہے اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر گذشتہ برس اگست کے مقابلے میں نصف ہو چکے ہیں۔

A man drinks tea from a saucer at a restaurant in Islamabad

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

پاکستان دنیا میں چائے درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور وہ اس پر سالانہ 515 ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے

اخراجات اور آمدن میں فرق کو کم کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پاکستانی حکومت نے بڑی صنعتوں پر ایک سال کے لیے 10 فیصد کا اضافی ٹیکس عائد کیا۔

ایس این پی گلوبل کے تجزیہ کار اینڈریو وُڈ کہتے ہیں کہ ’اگر پاکستان ان فنڈز تک رسائی حاصل کر لیتا ہے، تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے قرضہ دینے والے ممالک بھی پاکستان کو مزید قرضہ فراہم کر سکتے ہیں۔‘

پاکستان کے معاملے میں بھی چینی قرضوں کا کردار دکھائی دیتا ہے کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا ایک چوتھائی چین کے جانب سے دیئے گئے قرضوں پر مشتمل ہے۔

تجزیہ کار اینڈریو وُڈ کے مطابق ’لگتا ہے کہ پاکستان نے چینی بینکوں سے تجارتی قرضوں کے سلسلے کو بحال کر لیا ہے جس کے بعد اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئی ہے اور اس بات کے اشارے موجود ہیں کہ پاکستانی حکام جولائی سے دسمبر کے عرصے میں ایک مرتبہ پھر چین سے مدد مانگیں گے۔‘

مالدیپ

حالیہ عرصے میں مالدیپ کے قرضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اب اس کے بیرونی قرضوں کا حجم اس کی مجموعی قومی پیداوار سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔

سری لنکا کی طرح، مالدیپ کی سیاحت پر منحصر معیشت کو بھی کورونا کی وبا نے کاری ضرب لگائی ہے۔

وہ ممالک جن کی معیشت کا بڑا انحصار سیاحت پر ہوتا ہے وہاں قرضوں کے خلاف عوامی مظاہروں کا رجحان زیادہ ہوتا ہے تاہم عالمی بینک کا کہنا ہے کہ مالدیپ کے جزیرے میں پیٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے پر معمول سے زیادہ بے چینی دیکھنے میں آتی ہے۔

عالمی بینک کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مالدیپ کی معیشت میں تنوع نہیں اور اس کا انحصار سیاحت پر بہت زیادہ ہے۔

سرمایہ کاری کے لیے مشہور امریکہ بینک ’جے پی مورگن‘ کا کہنا ہے کہ اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ مالدیپ سنہ 2023 کے آخر تک ڈیفالٹ کر جائے گا اور وہ اپنے بیرونی قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔

بنگلہ دیش

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بنگلہ دیش میں اس برس مئی میں افراط زر کی شرح آٹھ برسوں کی بلند ترین سطح (سات اعشاریہ چا دو فیصد) تک پہنچ گئی تھی

بنگلہ دیش

بنگلہ دیش میں اس برس مئی میں افراط زر کی شرح آٹھ برسوں کی بلند ترین سطح (سات اعشاریہ چا دو فیصد) تک پہنچ گئی تھی۔

زرمبادلہ کے ذخائر کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے فوری اقدامات کرتے ہوئے غیرضروری برآمدات پر پابندی لگا دی، بیرون ملک سے بھیجی جانے والی رقوم میں اضافے کے لیے قوانین میں نرمی کی اور سرکاری حکام کے بیرون ملک دوروں میں کمی کا اعلان کر دیا۔

ایس این پی گلوبل سے منسلک ماہر معاشیات، کِم اینگ ٹین کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے ممالک جنھیں کرنٹ اکاؤٹ میں خسارے کا سامنا رہتا ہے، وہاں اگر حکومتیں سبسڈی میں اضافہ کرنا چاہیں تو انھیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انھیں قرضوں کے لیے لامحالہ آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک کا رخ کرنا پڑتا ہے تاہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’بنگلہ دیش کو حکومتی اخراجات کی ترجیحات میں تبدیلی کرنا پڑی اور صارفین پر مختلف پابندیاں لگانا پڑیں۔‘

کورونا سے شدید متاثر ہونے والی عالمی معیشت ابھی تک خطروں میں گھری ہوئی ہے اور کئی ممالک کو خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے مسائل کا سامنا ہے۔

ایسے میں وہ ترقی پزیر ممالک جنھوں نے گزشتہ کئی برسوں میں بہت زیادہ قرضے لے لیے تھے، ان کے لیے عالمی معیشت کے اس طوفانی دور میں خود کو بچائے رکھنا زیادہ مشکل دکھائی دے رہا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.