سپین: سرعام پیشاب کرنے کی ویڈیو پورن ویب سائٹ پر شائع کرنے کا مقدمہ، جج نے کیس ہی خارج کر دیا
خواتین کے حقوق کی کارکن سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہیں
ایک ہسپانوی جج نے خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروہ کو اس وقت حیرت میں ڈال دیا جب انھوں نے ایک ایسے مقدمے کو خارج کر دیا جس میں چپکے سے خواتین کو سرعام پیشاب کرتے ہوئے فلمایا گیا اور بعد ازاں ان ویڈیوز کو پورن ویب سائٹس پر پوسٹ کر دیا گیا۔
اس مقدمے میں تقریباً 80 خواتین اور لڑکیوں کی ویڈیوز بنائی گئی جو بیت الخلا کی ناکافی سہولیات کے باعث ایک گلی میں پیشاب کر رہی تھی۔ ان کی ویڈیوز شمال مغربی قصبے سرو میں ایک مقامی میلے کے دوران خفیہ کیمروں کی مدد سے بنائی گئی۔
ان بہت سے ویڈیوز میں خواتین کے چہروں اور مخصوص اعضا کو کلوز اپ کر کے دکھایا گیا۔ ان ویڈیوز کو مختلف پورن سائٹس پر ڈالا گیا جن میں سے کچھ ان ویڈیوز کو دیکھنے کے لیے رقم کا تقاضہ کرتی ہیں۔
اس کا علم ہونے پر بہت سی متاثرہ خواتین نے سنہ 2020 میں اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا اور ان ویڈیوز کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ ان کو بنانے والے نامعلوم افراد کے خلاف تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا اور موقف اپنایا کہ ان کی پرائیویسی کے حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
’میں شدید گھبراہٹ کا شکار تھی‘
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے تنظیم وویمن فار ایکویلیٹی کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر اس مقدمے کو ایک مقامی عدالت کے جج پبلو مونز وزکیوز نے مسترد کر دیا تھا۔
اب اسی جج نے اپنے ابتدائی فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے اس پر مزید کارروائی سے روک دیا ہے۔ اس کیس کو اس بنیاد پر رد کیا گیا ہے کہ یہ ویڈیوز عوامی مقامات پر ریکارڈ ہوئی ہیں اور ان کو مجرمانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق جج نے یہ بھی فیصلہ دیا کہ ان ویڈیوز کو فلمانے کے دوران متاثرہ خواتین کو ’جسمانی یا اخلاقی نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘
’میں شدید گھبراہٹ کا شکار تھی۔‘ یہ کہنا ہے جنیفر کا جو ان خواتین میں سے ایک ہیں جن کی سنہ 2019 میں ایک مقامی میلے کے دوران ویڈیو بنائی گئی تھی۔
انھیں یاد ہے کہ جب ان کی ایک دوست نے ان کی اس ویڈیو کے پورن سائٹ پر موجود ہونے کے بارے میں بتایا۔ وہ کہتی ہیں ’اور جب میں نے وہ ویڈیو دیکھی تو میں رونے لگی، میں بہت شرمندہ محسوس کر رہی تھی اور مجھے نہیں علم تھا کہ اب میں کیا کروں۔‘
ان ویڈیوز کی بہت سی متاثرہ خواتین کی طرح جینفر نے بھی اس کے بعد اپنا علاج کروایا۔ لیکن اب حالیہ فیصلے نے ان کے دکھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بات مجھے بہت غصہ دلاتی ہے، بنیادی طور پر وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی خفیہ طور پر گلی میں آپ کی ویڈیو بنائے اور پھر پورن ویب سائٹ پر پوسٹ کر کے پیسے کمائے تو یہ درست ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم بومائی ایسوسی ایشن کی انا گارشیا نے خبردار کیا ہے اس مقدمے سے ایک مثال قائم ہو سکتی ہے کہ جنھوں نے یہ ویڈیوز بنائی انھیں استثنیٰ حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ آپ عوامی مقامات پر ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی آپ کی قابل اعتراض ویڈیوز بنائے اور پھر اسے تقسیم کرتا پھرے اور یہ جرم نہیں ہے۔ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔‘
اس مقدمے کو مسترد کیے جانے کے فیصلے کے بعد ملک میں احتجاج اور سوشل میڈیا پر جسٹس موریکسیانہ کے خلاف ایک ٹرینڈ شروع ہو گیا ہے۔ اب یہ کیس سیاسی بن چکا ہے اور وزارت برابری کی وزیر ایرین مونٹیرو اس پر بات کر رہے ہیں۔
حالیہ برسوں کے دوران سپین کی دائیں بازو اور بائیں بازو کے حلقوں میں صنفی حقوق ہمیشہ سے بحث کا ایک موضوع رہے ہیں۔ اور یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی عدالتی فیصلے پر خواتین گروہوں کی جانب سے تنقید کی گئی ہو۔
خواتین کے حقوق کی کارکن
سنہ 2018 میں پاملونا میں ایک نوجوان خاتون کو پانچ مردوں کی جانب سے جنسی حملے میں اسے ریپ کی بجائے جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا فیصلہ دینے پر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ سپین کی سپریم کورٹ نے بالآخر اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان مردوں کو ریپ کرنے کا مجرم قرار دیا تھا اور ان کی قید کی سزاؤں کو نو سال سے بڑھا کر 15 سال کر دیا تھا۔
اس ویڈیو کیس کی متاثرہ خواتین بھی اب دوبارہ سے اس مقدمے کے فیصلے کے خلاف صوبائی عدالت میں اپیل دائر کر رہی ہیں اور انھیں امید ہے کہ اس مقدمے کی تفتیش کی جائے گی۔
Comments are closed.