farnham thai to love someone like you some say i am sweety girls with long blonde hair beauty asian online dating yahoo i hate liars poems

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روس کے انتخابات میں دھاندلی کے دعوے، پوتن کی جماعت ایک بار پھر حکومت بنانے کے لیے پرامید

روس انتخابات میں دھاندلی کے دعوے، صدر ولادیمیر پوتن کی جماعت ایک بار پھر حکومت بنانے کے لیے پرامید

روس

،تصویر کا ذریعہEPA

انتخابی عمل میں دھاندلی اور فراڈ کے الزامات کے باوجود ایسے لگ رہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جماعت ہی ملک میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں کامیاب ہوگی۔

ایک جائزے کے مطابق حکمران جماعت کو واضح اکثریت حاصل ہوگی۔

یاد رہے کہ روسی حکومت کے ناقدین کو اس الیکشن میں شامل ہونے کی اجازت نہیں تھی اور کئی علاقوں سے بیلٹ بھرنے اور جبری ووٹنگ کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

تاہم ملک کے الیکشن کمیشن نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔

کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ابتدائی نتائج کے مطابق اب تک 33 ووٹوں کی گنتی ہو چکی ہے جس میں سے پوتن کی ‘متحدہ روس’ جماعت نے 45 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔

روس کے الیکشن

،تصویر کا ذریعہEPA

روسی خبر رساں ادارے ریہ پر شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق بھی کل ووٹوں میں سے 45 فیصد حکمران جماعت کے حصے میں آئے ہیں۔

حکمران جماعت نے اتوار کو ووٹنگ کے اختتام کے کچھ دیر بعد ہی فتح کہ اعلان کر دیا تھا۔ سرکاری ٹی وی پر متحدہ روس پارٹی کے رہنما اینڈرے ترچاک کو ماسکو میں اپنے حامیوں کو ایک ‘صاف شفاف’ جیت پر مبارک باد دیتے دیکھا گیا۔

Presentational grey line 1

تجزیہ: ’سب مغرب کروا رہا ہے‘

سٹیو روزنبرگ، ماسکو نامہ نگار

روس کا اہم انتخابی مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ مگر پہلا ووٹ کاسٹ ہونے سے قبل سے ہی یہ انتخابات شفاف نہیں لگ رہے تھے۔

متعدد حـزب اختلاف کے رہنماؤں اور سماجی کارکنوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے۔ ان میں سر فہرست جیل میں اپوزیشن لیڈر الیکسی ناوالنی کے حمایتی شامل ہیں۔

کورونا وائرس کی وبا ووٹنگ کے عمل کو تین دن تک لے جانے کی وجہ بنی۔ تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ پولنگ میں توسیع میں شفافیت میں کمی اور اس سے دھاندلی کے امکانات بھی بڑھ گئے۔

روس میں ہر طرف سے انتخابات میں بے قاعدگیوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

الیکشن کمشین کے سربراہ کا کہنا ہے کہ تنقید ایک سوچی سمجھی مہم کا حصہ تھی، جس کے لیے بیرون ملک سے فنڈنگ ہوئی۔ اور اب یہ سب اس کا ہی نتیجہ ہے جو سامنے آ رہا ہے۔

اس طرح ماسکو انتخابات پر کسی بھی بین الاقوامی تنقید کا جواب دے گا: مغرب کو نشانہ بنا کر اور یہ دعویٰ کر کے کہ یہ سب روس کو بدنام کرنے کی غیر ملکی سازش کا حصہ ہے۔

Presentational grey line 1

پوتن کی جماعت کی مقبولیت میں کمی

غیر حتمی نتائج کے مطابق صدر پوتن کی جماعت نے باآسانی اکثریت حاصل تو کر لی تاہم اس کی مقبولیت میں واضح کمی آئی ہے۔ یاد رہے کہ 2016 میں ہونے والے انتخابات میں حکمران جماعت 54 فیصد ووٹ لے کر اقتدار میں رہی تھی۔الیکسی ناوالنی جیسے ناقدین کی جانب سے صدر کے رہن سہن پر تنقید اور کرپشن کے الزامات بھی حکمران جماعت کی مقبولیت پر اثر انداز ہوئے ہیں۔

تاہم اب بھی روسی آبادی کا ایک بڑا حصہ پوتن کو اِس لیے پسند کرتا ہے کیونکہ اُن کے خیال میں وہ مغرب کے سامنے ڈٹ گئے ہیں اور قومی وقار کو بحال کر رہے ہیں۔

روس کے الیکشن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس انتخاب میں کئی شہروں میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین بھی متعارف کرائی گئی ہیں۔

سنہ 1993 سے پہلی بار روسی حکام کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے آرگنائزیشن فار سیکورٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ (او ایس سی ای) کے مبصرین ان انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے نہ آ سکے۔

اتوار کی شام تک انتخابات کی آزادانہ مانیٹرنگ کرنے والے ادارے گولوز، جسے روسی حکام غیرملکی ایجنٹ قرار دیتے ہیں، نے ان انتخابات میں ہونے والی مبینہ طور پر 45 ہزار خلاف ورزیاں رپورٹ کی ہیں۔

تاہم روس کی وزارت داخلہ کے حکام نے صحافیوں کو بتایا کہ انھیں کوئی قابل ذکر خلاف ورزیوں کی شکایات نہیں موصول ہوئی ہیں۔

سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ کچھ پولنگ سٹیشنز کے باہر لمبی قطاریں بنائے کھڑے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

انٹرفیکس نیوز ایجنسی کے مطابق پولیس سٹیشنز کے باہر بھی یہی صورتحال دیکھنے کو آئی۔ کریملین کے ترجمان نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں پر ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے دباؤ میں ہیں۔

گولوز کا کہنا ہے کہ انھیں عوام کی طرف سے ایسی متعدد شکایات اور انتخابی دھاندلی سے متعلق الزامات موصول ہوئے ہیں۔ لوگوں نے اپنے پیغامات میں کہا ہے کہ ان پر ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے ان کے دفاتر کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

روس

،تصویر کا ذریعہReuters

روس کی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیر انتظام مشرقی یوکرین کے کچھ حصوں میں، روسی شہریت کے حامل شہریوں کو بھی ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ ان میں سے کچھ لوگ سرحد پار کر کے روسی پولنگ سٹیشنز تک پہنچے۔

جس دن روس کے شہریوں نے ووٹ کاسٹ کرنے شروع کیے تھے اس دن سے جیل میں قید روسی حزب مخالف کے رہنما الیکسی نوالنی کی وضع کردہ سمارٹ ووٹنگ ایپ کو اس دن ایپل اور گوگل سٹورز سے ہٹا دیا گیا تھا۔

روسی حکام نے دونوں کمپنیوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے ایپ کو ہٹانے سے انکار کیا تو انھیں بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس ایپ میں لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ وہ حکمران جماعت کے امیدواروں کو شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔

الیکسی نوالنی کے اتحادی لیونڈ وولکوف نے ٹیکنالوجی کی ان بڑی کمپنیوں پر الزام عائد کیا کہ وہ حکومت کی بلیک میلنگ میں آ گئیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.