روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف کا انٹرویو: ’حالات جیسے دکھائے جا رہے ہیں ویسے نہیں ہیں‘
- سٹیو روزنبرگ
- روس ایڈیٹر، ماسکو
چار ماہ قبل روسی افواج کے یوکرین پر حملے کے بعد سے ہزاروں شہری ہلاک اور شہر کے شہر تباہ ہو چکے ہیں جب کہ لاکھوں یوکرینی شہری بے گھر ہیں۔
لیکن جمعرات کو روس کے وزیر خارجہ سرگئی لیوروف نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ حالات جیسے دکھائے جا رہے ہیں ویسے نہیں۔
انھوں نے دعوی کیا کہ ’روس نے یوکرین پر حملہ نہیں کیا۔‘
’ہم نے ایک خصوصی فوجی آپریشن کا اعلان کیا کیوں کہ ہمارے پاس مغرب کو یہ بات سمجھانے کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا کہ یوکرین کو نیٹو میں گھسیٹنا ایک مجرمانہ فعل تھا۔‘
24 فروری کو یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے اب تک روسی وزیر خارجہ نے مغربی میڈیا کو بہت کم انٹرویو دیے ہیں۔
انھوں نے روس کے سرکاری بیانیے کو دہرایا کہ ’یوکرین میں نازی موجود ہیں۔‘ روسی حکام نے متعدد بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی فوج یوکرین سے نازیوں کا خاتمہ کر رہی ہے۔
وزیر خارجہ سرگئی لیوروف کے ایک حالیہ بیان پر کافی ردعمل سامنے آیا تھا جب انھوں نے یوکرین کے صدر، جو یہودی مذہب کے پیروکار ہیں، ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ایڈولف ہٹلر میں بھی یہودی خون تھا۔‘
میں نے سرگئی لیوروف کو اقوام متحدہ کے ایک اہلکار کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس کے مطابق روسی فوجیوں نے یوکرین کے یاہڈنی گاؤں کے 360 باشندوں، جن میں 74 بچے اور پانچ معزور افراد شامل تھے، کو 28 دن تک ایک سکول کے تہہ خانے میں رہنے پر مجبور کیا جہاں پانی اور بیت الخلا کی سہولیات نہیں تھیں۔۔۔ یہاں 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
میں نے سوال کیا کہ ’کیا یہ نازیوں کے خلاف لڑائی تھی؟‘
سرگئی لیوروف نے جواب دیا کہ ’یہ بہت افسوس ناک بات ہے لیکن بین الاقوامی سفارت کار بشمول اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق، سیکریٹری جنرل اور دیگر اقوام متحدہ کے نمائندے، مغرب کے دباو میں ہیں۔ اور اکثر وہ مغرب کی جانب سے پھیلائی جانے والی جھوٹی خبروں کو پھیلانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘
’روس بلکل صاف نہیں ہے۔ روس وہی ہے جو نظر آتا ہے۔ اور ہمیں اپنا آپ دکھانے میں کوئی شرمندگی نہیں۔‘
72 سالہ سرگئی لیوروف گزشتہ 18 سال سے بین الاقوامی سٹیج پر روس کی نمائندگی کرتے رہے ہیں لیکن اب ان کو مغرب کی پابندیوں کا سامنا ہے جن کا شکار ان کی بیٹی بھی بنی ہیں۔
امریکہ نے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ یوکرین کو جارح کے طور پر دکھانے کے جھوٹے بیانیے کو بڑھا رہے ہیں اور روس کی سیکیورٹی کونسل کے رکن کے طور پر روسی حملے کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں۔
میں نے انٹرویو کا رخ روس اور برطانیہ کے درمیان تعلقات کی جانب موڑا۔ اس وقت برطانیہ روس کے لیے غیر دوستانہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے، اور میں نے کہا کہ یہ کہنا کہ تعلقات اچھے نہیں درست نہیں ہو گا کیوں کہ حالات زیادہ خراب ہیں۔
وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ ’میرے خیال میں اب تو کوشش کا بھی کوئی امکان نہیں باقی بچا کیوں کہ وزیر اعظم بورس جانسن اور لز ٹرس دونوں ہی کھل کر کہہ چکے ہیں کہ روس کو شکست دینی ہے، روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے۔ تو پھر کریں، کر کے دکھائیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
گزشتہ ماہ برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ نے بیان دیا تھا کہ ’روسی صدر ولادیمیر پوتن بین الاقوامی سٹیج پر اپنی بے عزتی کروا رہے ہیں اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کو یوکرین میں شکست کا سامنا کرنا پڑے۔‘
جب میں نے سرگئی لیوروف سے پوچھا کہ اب وہ برطانیہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ایک بار پھر برطانیہ اپنی عوام کے مفادات کو سیاسی خواہشات کے لیے قربان کر رہا ہے۔‘
میں نے ان سے دو برطانوی شہریوں کے بارے میں سوال کیا جن کو حال ہی میں روس کے حامی علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرین میں موت کی سزا سنائی ہے۔
جب میں نے اس جانب اشارہ کیا کہ مغرب کی نظر میں ان دونوں کی سزا کی ذمہ داری روس پر عائد ہوتی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ ’مجھے مغرب کی نظر میں کوئی دلچسپی نہیں۔ میں صرف بین الاقوامی قانون میں دلچسپی رکھتا ہوں۔ اور بین الاقوامی قانون کے مطابق پیسے کے لیے لڑنے والوں کو جنگجو کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘
میں نے ان کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ دونوں برطانوی شہری یوکرین کی فوج میں تھے اور کرائے کے فوجی نہیں تھے تو روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔
انھوں نے بی بی سی پر الزام لگایا کہ جب یوکرین علیحدگی پسند مشرقی علاقوں میں عام شہریوں پر آٹھ سال سے بمباری کر رہا تھا تو اس کی سچائی جاننے کی کوشش نہیں کی گئی۔
میں نے اس بات پر زور دیا کہ گزشتہ چھ سال سے بی بی سی نے متعدد بار علیحدگی پسند علاقوں کے رہنماوں سے اجازت مانگی تھی تاکہ وہاں کا دورہ کیا جا سکے اور زمینی حقائق کو خود دیکھا جا سکے لیکن ہر بار ہمیں اجازت دینے سے انکار کیا گیا۔
روس نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ یوکرین نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ لیکن 2021 میں علیحدگی پسندوں کے علاقوں میں آٹھ شہری مارے گئے تھے اور اس سے ایک سال قبل سات شہری ہلاک ہوئے۔ میں نے کہا کہ اگرچہ کہ ہر موت افسوس ناک ہے لیکن اسے نسل کشی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
میں نے تجویز دی کہ اگر واقعی ان علاقوں میں نسل کشی ہو رہی ہے تو پھر لوہانسک اور ڈونیٹسک کے علیحدگی پسندوں کو تو اس بات میں دلچسپی ہونی چاہیے کہ بی بی سی کو دورے کی اجازت دیں۔ ’پھر ہمیں کیوں نہیں آنے دیا جا رہا؟‘
سرگئی لیوروف نے جواب دیا کہ ’مجھے معلوم نہیں۔‘
Comments are closed.