روس میں ’برہنہ پارٹی‘ جس پر ہنگامے کے بعد سیلیبرٹیز وضاحتیں دینے پر مجبور ہیں

روس

،تصویر کا ذریعہINSTAGRAM/_AGENTGIRL_

  • مصنف, سٹیو روزنبرگ
  • عہدہ, رشیا ایڈیٹر

روس میں منعقد ہونے والی ایک ’برہنہ‘ پارٹی کو پارٹی گیٹ سکینڈل سے مشابہت دی جا رہی ہے اور اسے بھی روس کا پارٹی گیٹ سکینڈل کہا جا رہا ہے۔

روس کے ایک نائٹ کلب میں جو کچھ ہوا وہ بہت عجیب تھا۔ اس کے بعد بھی جو ہوا روس کے موجودہ حالات سے اس کے بارے میں بہت کچھ پتا چلتا ہے۔

20 دسمبر کو ایک بلاگر اور ٹی وی پریزنٹر نستیا ایولیوا نے ایک ’تقریباً برہنہ پارٹی‘ کے نام سے ماسکو کے موتوبور نائٹ کلب میں ایک پارٹی رکھی تھی۔ جس کا ڈریس کوڈ ہی بے لباسی یا برہنہ پن تھا۔

اس پارٹی میں چنیدہ چنیدہ امیر پوپ سٹارز اور مشہور شخصیات نے شرکت کی جن میں معروف روسی ریپر واسیو (اصلی نام نکولائی واسیلیف) بھی شامل تھی اور جو اس پارٹی میں صرف جوتے اور عضو تناسل کو ایک جراب سے ڈھانپے ہوئے آئے تھے۔

اگرچہ یہ ایک نجی پارٹی تھی لیکن جب اس پارٹی کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر ہوئیں تو واسیو کی جراب راتوں رات بہت مقبول ہو گئی لیکن منفی انداز میں۔

اس پارٹی پر بہت ہنگامہ مچ گیا اور کریملن کے حامی بلاگرز، ممبران پارلیمنٹ اور کارکنان، جو یوکرین میں جنگ کے حامی ہیں، نے سخت غصے کا اظہار کیا کہ مشہور شخصیات ایک ایسے وقت میں اس طرح کی پارٹیاں کیسے کر سکتے ہیں جب روسی فوجی ’خصوصی فوجی آپریشن‘ میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں؟

روس

،تصویر کا ذریعہJOHNNY NUNEZ/WIREIMAGE

اس پارٹی میں شرکت کرنے والوں کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ ریپر واسیو کو ’نامناسب رویہ‘ اپنانے کے جرم میں گرفتار کر کے 15 دن کے لیے جیل بھیج دیا گیا ہے اور انھیں ’غیر روایتی جنسی تعلقات کو فروغ دینے‘ پر 200,000 روبل جرمانہ بھی کیا گیا۔

اس ’برہنہ پارٹی‘ کی میزبان اور منتظم نستیا ایولیوا کو قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ 20 سے زیادہ لوگوں نے اس کے خلاف مقدمے کی درخواست پر دستخط کیے ہیں۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ ڈیفنڈر آف دی فادر لینڈ فاؤنڈیشن کو ایک ارب روبل (85 لاکھ پاؤنڈ) ادا کرے، یہ ایک تنظیم ہے جو کریملن کے ’خصوصی آپریشن‘ کے شرکا کو رقم عطیہ کرتی ہے۔

اس پارٹی میں شریک دیگر مشہور سٹارز اور شخصیات کو بھی سنگین نتائج کا سامنا ہے کیونکہ ان کے کنسرٹس کی تاریخوں کی منسوخی اور اشتہاری معاہدے ختم ہونے کی باتیں ہو رہی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ روسی ٹی وی پر پہلے سے ریکارڈ شدہ نئے سال کی شام کے تفریحی شوز میں سے کچھ ستاروں کو ایڈٹ کیا جا رہا ہے۔

بڑے بڑے ناموں کو ہٹا دیا گیا ہے، ان کے ویڈیو پیغامات کو نکال دیا گیا ہے۔ جس کے بعد پارٹی میں شریک ہونے والے معروف سٹارز میں سے ایک ایک کر کے سوشل میڈیا پر آ رہے ہیں۔ ان میں سے چند پارٹی میں شرکت کرنے پر معذرت کر رہے ہیں تو کچھ کا اصرار ہے کہ انھوں نے پارٹی میں شرکت کر کے کچھ غلط نہیں کیا۔

روس

،تصویر کا ذریعہSTEPHANE CARDINALE/CORBIS

اب مکمل لباس میں سامنے آنے والے میگا سٹار فلپ کرکورو نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ’میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے غلطی کی۔ شاید اس طرح کی پارٹی میں شریک ہونا میری آخری حماقت تھی، جس کے نتیجے میں روس میں میرے کیریئر پر پابندیاں لگ گئیں۔ یہ وہ واحد ملک ہے جہاں میں ایک فنکار اور شہری کے طور پر موجود ہوں۔‘

روسی پاپ سٹار دیما بلان نے اپنی صفائی دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے پارٹی میں پولو نیک شرٹ، ایک لمبا کوٹ، پتلون اور جوتے پہن رکھے تھے لیکن میں پہلے سے نہیں جان سکتا تھا کہ دوسرے مہمان کیا پہنیں گے۔‘

اس پارٹی کی میزبان اور منتظم نستیا ایولیوا نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’وہ کہتے ہیں ناں کہ روس معاف کرنا جانتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو، میں آپ لوگوں سے دوسرا موقع مانگنا چاہوں گی اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہے، تو میں اپنی سرعام پھانسی کے لیے تیار ہوں۔ میں پیچھے نہیں ہٹوں گی، میں کسی بھی نتیجے کے لیے تیار ہوں۔‘

گزشتہ چند دنوں کے واقعات ان مشہور شخصیات کے لیے ایک دھچکہ ثابت ہوئے ہیں۔

یوکرین پر کریملن کے حملے کے بعد انھوں نے روس میں رہنے اور اپنے کیرئیر کو جاری رکھنے کا شعوری فیصلہ کیا تھا اور صرف ان سیلبریٹز کو عوامی تنقید کا سامنا تھا جو جنگ مخالف تھے اور روس چھوڑ چکے ہیں لیکن اب ایسا نہیں مگر کیوں؟

ایسا لگتا ہے کہ روس کا سیاسی نظام کا اب تیزی سے انحصار قربانی کے بکروں کو تلاش کرنے اور انھیں مورد الزام ٹھہرانے پر ہے۔ اسے ایسے گروہوں یا افراد کی ضرورت ہے جنھیں وہ اندرون و بیرون ملک مسائل کا ذمہ دار قرار دے سکے۔

اب تک ان قربانی کے بکروں میں یوکرین، امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور نیٹو شامل تھیں مگر اب ایسا لگتا ہے کہ کچھ روسی مشہور شخصیات بھی اس فہرست میں شامل ہو گئیں ہیں۔

ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں جلاوطن روسی اپوزیشن کارکن میکسم کاٹز نے ان واقعات کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ماضی میں اس طرح کی پارٹیوں میں جانے والے لوگوں کے ساتھ ایک سادہ سا سماجی معاہدہ ہوا کرتا تھا کہ جب تک آپ وفادار ہیں جو چاہیں کرو۔‘

’لیکن اب کوئی پارٹی نہیں۔ یہ ظاہری شان و شوکت ملکی حقیقت سے متصادم ہیں۔ آپ ایک جنگ لڑنے والے ملک میں پرتعیش پارٹی نہیں دے سکتے۔‘

’ایک طویل عرصے میں پہلی بار یہ نظام ان لوگوں کے خلاف ہوا ہے جنھوں نے اس کے تمام قوانین کی حمایت کی، جب تک کہ وہ قوانین ان پر لاگو نہیں کیے گئے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ