کواڈ، آکس اور انڈیا کے سٹریٹجک مفادات: خطے میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بڑھنے سے انڈیا کس تذبذب کا شکار ہوتا جا رہا ہے؟
- سچن گوگوئی
- جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر
حال ہی میں ہونے والے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے ساتھ ساتھ وہاں ہونے والی سفارتی ملاقاتوں سے اندازہ ہو رہا ہے کہ انتہائی اہم انڈو پیسیفک خطے میں طاقت کا نیا توازن قائم ہونے جا رہا ہے۔
بظاہر امریکہ چین سے نمٹنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے درمیان مزید ہم آہنگی پیدا کرنے کا خواہشمند ہے۔
ان مذاکرات کے دوران انڈیا کے سامنے مسئلہ متعدد آپشنز کا ہے، بالخصوص امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات میں فوجی عنصر شامل ہے۔
ایک طویل عرصے سے انڈیا کا کسی بڑی طاقت کے ساتھ فوجی اتحاد نہ کرنے کا مؤقف اب آزمائش میں پڑ گیا ہے کیونکہ امریکہ کا علی الاعلان مقصد یہ ہے کہ طالبان کے زیرِ کنٹرول افغانستان میں مستقبل قریب میں فوجی صلاحیتیں برقرار رکھی جائیں۔
یاد رہے کہ افغانستان میں امریکی مشن کے اختتام پر صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ ’ہم افغانستان اور دیگر ممالک میں شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑتے رہیں گے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ ہم زمینی جنگ لڑیں۔ ہمارے پاس ایسی صلاحیت ہے جس کے ذریعے ہم شدت پسندوں اور اہداف کو بغیر زمینی فوج بھیجے نشانہ بنا سکتے ہیں اور (اگر فوج بھیجنے کی) ضرورت پڑے بھی تو بہت کم تعداد میں‘۔
اور امریکہ جب خطے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے متعدد محاذوں مثلاً آکس (امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا) اور کواڈ (امریکہ، انڈیا، جاپان اور آسٹریلیا) کی قیادت کر رہا ہے تو چین نے بھی عوامی سطح پر اپنی ناراضگی کا اظہار کر دیا ہے۔
کیا انڈیا کا امریکہ کے ساتھ فوجی اتحاد ممکن ہے؟
انڈیا نے اب تک خود کو ایک مضبوط فوجی اتحاد میں شامل کرنے کی مبینہ امریکی کوششوں سے بچائے رکھا ہے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے اور پاکستان کی جانب سے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کے بعد انڈیا میں امریکہ کی فوجی موجودگی کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔
چوبیس ستمبر 2021 کو صدر بائیڈن کواڈ گروپ کے سربراہی اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں
ویسے تو انڈیا کی حکومت نے فوجی اڈے فراہم کرنے کی کسی بات چیت کی فوری تردید کی ہے، اور انڈین وزارتِ خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے کہا ہے کہ اُنھوں نے صرف میڈیا سے ہی امریکہ کو فوجی اڈے فراہم کرنے کی بات سنی ہے۔
باگچی نے دعویٰ کیا کہ امریکی کانگریس میں سماعتوں کے دوران ہونے والا غور و خوض اس سے ’تھوڑا مختلف‘ ہے جو میڈیا نے انٹونی بلنکن کے ریمارکس کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔
انڈیا کے امریکہ کے ساتھ فوجی روابط حالیہ برسوں میں بڑھے ہیں اور اب دونوں فریقین کے درمیان تین بنیادی اہمیت کے فوجی معاہدے موجود ہیں۔
ان میں بیسک ایکسچینج اینڈ کوآپریشن ایگریمنٹ (بیکا)، لاجسکٹس ایکسچینج میمورینڈم آف ایگریمنٹ (لیموا) اور کمیونیکیشنز کیپیبلٹی اینڈ سکیورٹی ایگریمنٹ (کوم کاسا) شامل ہیں۔
مگر انڈیا کی جانب سے امریکی فوج کو اپنے اڈے دینے میں ہچکچاہٹ کے پیچھے جو ‘سٹریٹجک خود مختاری’ کا تصور ہے، اس کا ایک تاریخی اور گہرا ثقافتی پس منظر ہے۔
انڈیا کے سیکریٹری خارجہ اور سابق مشیر قومی سلامتی شیو شنکر مینن نے اپنی کتاب ‘چوائسز’ میں انڈیا کی خارجہ پالیسی کے ممکنہ مستقبل کا خلاصہ پیش کیا تھا۔
اُن کا تبصرہ یہ ہے کہ ‘انڈیا اپنی سٹریٹجک خود مختاری مضبوط کرنے، پرزور انداز میں آزاد رہنے اور اپنے بے مثال سٹیٹس اور مفادات پر قائل رہنے کی کوشش کرے گا۔’
برطانیہ کی ایچ ایم ایس ویجیلینٹ جوہری آبدوز۔ آکس معاہدے کے تحت آسٹریلیا کو برطانیہ اور امریکہ سے جوہری آبدوزیں ملیں گی جس پر فرانس ناراض ہے
کیا آکس سے انڈیا اور کواڈ کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی؟
حال ہی میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان طے پانے والے فوجی معاہدہ ’آکس‘ نے کئی مبصرین کو حیران کر دیا ہے۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس نئے اتحاد جس کے تحت آسٹریلیا کو برطانیہ اور امریکہ سے جوہری آبدوزیں ملیں گی، اس سے کواڈ گروپ کی اہمیت کم ہو جائے گی۔
انڈین خارجہ اُمور کی صحافی سہاسنی حیدر نے ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کواڈ ‘کافی آگے بڑھ چکا ہے’ مگر آکس کے اعلان نے کواڈ سے ‘ایک طرح سے اہمیت اور کچھ حد تک سکیورٹی کی چمک دھمک بھی چھین لی ہے۔’
یہ بھی پڑھیے
اسی طرح سٹریٹجک اُمور کے ماہر نتن پائی نے آکس کو ‘کواڈ سے زیادہ مضبوط اتحادی تعلق’ قرار دیا ہے۔
اُنھوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ لوگوں کا سوال ہے کہ آکس میں انڈیا اور جاپان بھی شامل ہو سکتے ہیں یا نہیں، تاہم اُن کے مطابق ‘اگر ایسا ہو سکتا ہے تو پھر اس (آکس) کی ضرورت ہی کیا تھی۔’
اور جہاں آکس اور کواڈ کا مشترکہ مقصد چین کے بارے میں براہِ راست بات کیے بغیر بھی چین سے نمٹنا ہو سکتا ہے، مگر یہ کام کیسے کریں گے، اس پر شاید ہی اتفاق پیدا ہو سکے۔
مگر یہ انڈیا کے لیے اپنی سٹریٹجک خود مختاری برقرار رکھنے میں مشکل پیدا کر سکتے ہیں۔
تاہم دوسری جانب سابق سفارت کار اور سٹریٹجک اُمور کے ماہر کے سی سنگھ نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ انڈیا امریکی اتحادی یا کسی اور فوجی اتحاد کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
کواڈ گروپ کے بارے میں کے سی سنگھ کہتے ہیں کہ ‘بنیادی طور پر یہ چار جمہوریتوں کی سافٹ پاور ہے جو وسیع تر ہو کر چین کو خوف زدہ کر سکتی ہے کیونکہ چین نہ صرف اسلحے سے ڈرتا ہے بلکہ وہ جمہوریت کے تصور سے بھی خوف زدہ ہے۔’
انڈیا میں صفِ اول کے انگریزی اخبار دی ٹائمز آف انڈیا کی ڈپلومیٹک ایڈیٹر اندرانی باگچی نے بھی یہ لکھا کہ دونوں گروپوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے۔
اُنھوں نے لکھا کہ آکس کواڈ کے لیے ‘بوسٹر شاٹ ہو سکتا ہے۔’
اُن کے مطابق ‘اگر وسیع تر کھیل یہ ہے کہ چین کو اپنی جگہ پر رکھنے کے لیے کئی نیٹ ورکس کا جال بنایا جائے تو جلد ہی دیگر گروہ بھی بنتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔’
چین کے حوالے سے انڈیا کی مشکل
انڈیا نے امریکہ کی جانب سے چین کا پلڑا برابر کرنے کے لیے کواڈ گروپ میں شمولیت اختیار تو کر لی ہے مگر اسے چین کے ساتھ دو طرفہ سطح پر نمٹنے کے لیے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔
مشرقی لداخ میں 16 ماہ تک جاری رہنے والے فوجی تنازعے کا مکمل حل اب بھی باقی ہے اور انڈین میڈیا کی اطلاعات کے مطابق چین اس خطے میں انڈین فوجی تعیناتیوں کے جواب میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر اپنی طرف بلندی پر موجود اگلے مورچوں میں سپاہیوں کے لیے شیلٹرز تیار کر رہا ہے۔
اس معاملے پر نئی دہلی کے عوامی بیانات میں بمشکل ہی کوئی ربط دیکھنے میں آیا ہے اور وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گذشتہ سال کہا تھا کہ چین کی جانب سے کوئی دخل اندازی نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ‘ایک انچ’ انڈین زمین پر اس نے کنٹرول حاصل کیا ہے۔
مگر انڈیا کی وزارت خارجہ نے حال ہی میں 24 ستمبر کو کہا ہے کہ طویل عرصے سے جاری یہ سرحدی تنازع سرحد پر ‘چین کی جانب سے اشتعال انگیز رویے اور زمینی صورتحال کو تبدیل کرنے کی یکطرفہ کوششوں’ کا نتیجہ ہے۔
انڈیا اور چین کے درمیان اس سے قبل سنہ 1962 میں جنگ ہو چکی ہے
تبصرہ نگار منوج جوشی نے تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ مودی چین کی جانب سے کسی دخل اندازی کی تردید کر کے ‘بیجنگ کو واپسی کا راستہ دینا چاہتے تھے۔’
تاہم چین نے ‘مسلسل اور علی الاعلان’ یہ اصرار کیا ہے کہ انڈین ہی تمام اشتعال انگیزیاں کر رہے ہیں۔
انڈیا کے لیے آگے موجود مشکلات پر بات کرتے ہوئے جوشی نے لکھا کہ حالیہ سرحدی تنازعے میں چین ‘وہ ملک نہیں لگ رہا جو کسی سمجھوتے کا خواہاں ہو۔’
Comments are closed.