جوہری مواد: کیا امریکی انتظامیہ نے مبینہ ’جوہری مواد کو پاکستان سمگل‘ کرنے کی کوشش سے صرفِ نظر کیا تھا؟
- عمر فاروق
- دفاعی تجزیہ کار
’اگرچہ یہ ایک عام سی کاروباری ڈیل لگتی ہے مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ خاص قسم کا فولاد مبینہ طور پر یورینیم افزودہ کرنے والے سینیٹری فیوجز کی تیاری میں استعمال ہو سکتا تھا‘
امریکی محکمے ’کسٹمز اینڈ انٹیلیجنس‘ نے سنہ 1987 میں پاکستانی نژاد کینیڈین بزنس مین ارشد پرویز کو پکڑنے کے لیے ایک جامع منصوبہ ترتیب دیا تھا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے امریکی ریاست پینسلوینیا میں ایک کمپنی ’کارپینٹر سٹیل‘ سے رابطہ کر کے ایک خاص قسم کے فولاد کی خریداری کی بات کی تھی۔
اگرچہ یہ ایک عام سی کاروباری ڈیل لگتی ہے مگر حقیقت یہ تھی کہ یہ خاص قسم کا فولاد مبینہ طور پر یورینیم افزودہ کرنے والے سینیٹری فیوجز کی تیاری میں استعمال ہو سکتا تھا۔
بزنس مین ارشد پرویز اور مبینہ طور پر ’اُن کے پاکستانی ہینڈلر‘ ریٹائرڈ بریگیڈیئر انعام الحق پر امریکی کسٹمز کے حکام بہت عرصے سے نظر رکھے ہوئے تھے۔ حکام کو شبہ تھا کہ یہ دونوں افراد دراصل پاکستانی حکومت کے لیے کام کر رہے ہیں۔
امریکی کسٹمز نے ایک چال چلی اور خود کو سٹیل بیچنے والی کمپنی کے نمائندوں کے طور پر پیش کرتے ہوئے پرویز کو پینسلوینیا کے ایک ہوٹل میں ڈیل فائنل کرنے کے لیے مدعو کیا۔
جولائی 1987 میں امریکی کسٹم کے اہلکاروں نے امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا تھا کہ ’پرویز ڈیل فائنل کرنے کے لیے ہوٹل پہنچے جہاں ہم نے تمام انتظامات پہلے سے ہی کر رکھے تھے اور یوں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن ہمارا اصل ہدف یعنی بریگیڈیئر انعام الحق کبھی سامنے نہ آئے۔‘
گرفتاری کے بعد ارشد پرویز نے عدالتی کارروائی کے دوران امریکی ضلعی عدالت کو بتایا کہ اُن کا خیال تھا کہ جو سٹیل وہ خرید کر پاکستان برآمد کرنا چاہ رہے تھے ’وہ جوہری مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔‘
ارشد پرویز پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے سنہ 1986 سے وسط جولائی 1987 کے دوران دو ممنوعہ قسم کی فولاد کی اقسام کو ایکسپورٹ کرنے کی کوششیں کیں جو ناکام بنا دی گئیں۔ پرویز گذشتہ 20 برسوں سے کینیڈا میں مقیم تھے۔ عدالت میں اُن پر پاکستانی بریگیڈیئر کی ملی بھگت سے ’سازش کرنے‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
فلاڈلفیا کی گرینڈ جیوری نے سنہ 1987 میں ارشد پرویز اور بریگیڈیئر انعام پر فرد جرم عائد کی۔ اُن پر الزام تھا کہ وہ امریکی محکمہ کامرس کو دھوکہ دے کر پینسلوینیا کی کمپنی سے انتہائی اعلیٰ معیار کا ’350 مارجینگ سٹیل‘ (خالص اور ٹھوس فولاد) ایکسپورٹ کرنا چاہتے تھے جو یورینیم افزودہ کرنے والے سینیٹری فیوجز کی تیاری میں کام آتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہNew York Times
پرویز اور انعام کو آٹھ الزامات کے تحت سزا سُنائی گئی، جن میں امریکی حکومت کے ساتھ سازش کرنا، جھوٹ بولنا اور دھوکہ دہی جیسے الزامات شامل تھے۔ ارشد پرویز پر رشوت ستانی کے علاوہ غیرقانونی سرگرمیوں اور ایکسپورٹ خلاف ورزیوں میں ملوث گروہ کی مدد کے لیے بین الریاستی سفر کے الزامات بھی لگائے گئے۔
دسمبر 1987 میں ارشد پرویز کو تین سے پانچ سال تک قید کی سزا سُنائی گئی تاہم کامیاب مذاکرات کے نتیجے میں ہونے والی ‘پلی بارگین’ (استغاثہ اور ملزم کے درمیان قانونی سمجھوتہ) کے بعد سنہ 1991 میں ارشد مرزا کو رہائی مل گئی۔
بعدازاں امریکی حکام کو پتہ چلا تھا کہ ارشد پرویز کی گرفتاری کے لیے امریکی کسٹمز کے خفیہ آپریشن سے گیارہ گھنٹے قبل بریگیڈیئر ریٹائرڈ انعام پاکستان فرار ہو گئے تھے۔ امریکی اخبارات میں اس حوالے سے خبروں کی اشاعت نے ہلچل مچا دی تھی۔
یہ قیاس آرائیاں زوروں پر تھیں کہ یہ ممنوعہ ’نیوکلئیر میٹیریل‘ مبینہ طور پر پاکستان کی جوہری لیبارٹریز کے لیے تھا۔
ان خبروں کی اشاعت کے بعد پاکستانی حکومت نے بریگیڈئیر (ر) انعام الحق سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا اور پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بریگیڈئیر (ر) انعام کسی پاکستانی محکمے یا ایجنسی کے لیے کام نہیں کر رہے تھے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ’پاکستانی حکومت کے کسی محکمے نے اس مواد کے لیے آرڈر نہیں دیا تھا۔‘
پاکستان میں اس وقت کی جنرل ضیا کی حکومت اس معاملے میں اس حد تک گئی کہ حکام نے بریگیڈئیر (ر) انعام الحق کی گرفتاری کے نہ صرف وارنٹس جاری کر دیے بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ امریکہ سے لاہور پہنچنے کے بعد یہ ریٹائرڈ آرمی افسر لاپتہ ہو گئے ہیں۔
بظاہر بریگیڈیئر (ر) انعام الحق کی لاہور میں امپورٹ ایکسپورٹ (درآمدات اور برآمدات) کی کمپنی تھی۔ وہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار کرتے تھے۔
اسسٹنٹ امریکی اٹارنی ایمی کُرلینڈ نے خیال ظاہر کیا تھا کہ یہ مواد انعام کی فرم کے لیے نہیں تھا بلکہ مبینہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کے لیے پاکستان کی یورینیم افزودہ کرنے والی سہولت (لیبارٹری) کے لیے تھا۔
’انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ مائیکل آرماکوسٹ نے پاکستانی فوجی حکمراں جنرل محمد ضیا الحق پر واضح کیا کہ امریکہ ارشد پرویز کے بارے میں کسٹمز بیورو کی تحقیقات سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے‘
سنہ 1987 میں امریکی سفارت خانے کی منظر عام پر آنے والی خفیہ دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان کی فوجی حکومت نے بریگیڈئیر (ر) انعام الحق کو حراست میں لے لیا تھا اور یہ کہ مختلف سرکاری پاکستانی مقامات پر وہ تفتیش کے مراحل سے گزر رہے تھے مگر پاکستانی اخبارات اس معاملے پر مکمل خاموش رہے۔
امریکی تفتیش کاروں کے لیے جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے ساتھ انعام الحق کا تعلق جوڑنے کے لیے یہی کافی تھا کہ انعام الحق ایک ریٹائرڈ سینیئر فوجی افسر ہیں۔
اسی طرح جب امریکی کسٹم حکام نے ارشد پرویز کی کینیڈا میں رہائش گاہ پر چھاپہ مارا تو انھیں ایک ’نوٹ بُک‘ ملی جس میں ’ایٹم‘ اور ’ملٹری‘ جیسی اصطلاحات بار بار لکھی ہوئی پائی گئیں جن کے بارے میں تفتیش کاروں کا خیال تھا کہ ’یہ ثبوت کافی ہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ کے حکام نے امریکہ میں ایک اعلیٰ پاکستانی فوجی افسر کی ممکنہ گرفتاری کے بارے میں پاکستانی فوجی حکومت کے جنرل ضیا الحق کو خبر ’لیک‘ کی تھی جو امریکی حکام کے خفیہ دستاویزات کے مطابق ’پاکستان کے جوہری پروگرام کی تیاری میں استعمال ہونے والے مواد کی سمگلنگ میں مبینہ طورپر ملوث پائے گئے تھے۔‘
اس وقت بعض امریکی صحافیوں نے یہ الزام عائد کیا کہ اس وقت کی ریگن انتظامیہ نے شاید جوہری مواد امریکہ سے سمگل کرنے کی اس کوشش کو جانتے بوجھتے ہوئے نظرانداز کر دیا تاکہ امریکہ پاکستان تعلقات کو اس کے اثرات سے بچایا جائے کیونکہ اُس وقت دونوں ممالک کی انٹیلیجنس ایجنسیاں افغانستان میں سویت قبضے کے خلاف افغان جنگ میں مصروف عمل تھیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ’نیشنل سکیورٹی آرکائیوز‘ (قومی سلامتی کی محفوظ کردہ دستاویزات) کے ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا کہ ’ریگن انتظامیہ نے افغانستان میں سویت مخالف جنگ کے سبب جوہری عدم پھیلاؤ کی اپنی پالیسی کے مفادات کو ہنسی میں اڑا دیا۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو اُس وقت دی جانے والی انتہائی ترجیح نے امریکی محکمہ خارجہ کے حکام کی شاید حوصلہ افزائی کی ہو کہ وہ پاکستانیوں کو ان کے دو ایجنٹس کی ممکنہ گرفتاری سے خبردار کریں جیسا کہ بعض صحافی الزام لگاتے ہیں۔‘
اس واقعے کے بعد امریکی حکام نے پاکستان میں اس وقت کے صدر سے ایک ملاقات کی تھی
مضمون میں مزید لکھا گیا کہ ’یقیناً جوہری قوت کے حصول کے نیٹ ورک میں ڈاکٹر اے کیو خان ایک کلیدی کردار تھے لیکن انعام الحق جو پرویز کے ساتھ قریبی رابطے میں رہ کر کام کر رہے تھے، آخری وقت میں امریکہ کی طرف سے گرفتاری سے بچ گئے۔‘
اس کہانی کی تفصیل پاکستانی نژاد کینیڈین شہری اشرف پرویز کی سزا اور گرفتاری سے متعلق امریکی خفیہ دستاویزات پر مبنی مضمون میں شامل ہیں جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
’(اس واقعے کے) چند ہفتے بعد سیاسی امور کے لیے انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ مائیکل آرماکوسٹ نے پاکستانی فوجی حکمراں جنرل محمد ضیا الحق پر واضح کیا کہ امریکہ ارشد پرویز کے بارے میں کسٹمز بیورو کی تحقیقات سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن ’ہم نے سفیر ہنٹن کے مراسلوں کے ذریعے حکومت پاکستان کو یقیناً خبردار کیا اور وزیر خارجہ سے ہماری بات چیت ہوئی کہ یہاں ایک مسئلہ درپیش ہے جو فوری طور پر حل کا متقاضی ہے۔‘
’ضیا کا جواب تھا کہ میں خبردار کرنے کے خیال کو سمجھتا ہوں۔ مستقبل میں خفیہ دستاویزات کے منکشف ہونے سے ہو سکتا ہے کہ یہ وضاحت بھی درست طور پر ہو سکے کہ فوری نوعیت کے ان ’الرٹس‘ کا اصل مصداق کیا تھا۔‘
پاکستان سے کیسے ڈیل کیا جائے؟ ریگن انتظامیہ میں اختلافات
’تخفیف اسلحہ سے متعلق ادارے ’اے سی ڈی اے‘ کے ڈائریکٹر کینتھ ایڈل مین (دائیں) چاہتے تھے کہ (اس واقعے کو بنیاد بنا کر) فوجی اور معاشی امداد میں کٹوتی کے ذریعے پاکستانی جوہری پروگرام پر کارروائی اور سختی کی جائے’
نومبر 2013 میں ’نشینل سکیورٹی آرکائیوز‘ اور ’جوہری عدم پھیلاؤ پر بین الاقوامی تاریخ کا منصوبہ‘ نے واشنگٹن ڈی سی میں خفیہ دستاویزات شائع کیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ جولائی 1987 میں جوہری سامان کے غیر قانونی حصول کے الزامات پر پاکستانی شہری ارشد پرویز کی گرفتاری امریکہ پاکستان تعلقات میں گرما گرمی اور ریگن انتظامیہ میں شدید تقسیم پیدا کرنے کا باعث بنی تھی۔
ان خفیہ دستاویزات کے مطابق ’آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرمامنٹ ایجنسی (تخفیف اسلحہ سے متعلق ادارہ اے سی ڈی اے) کے ڈائریکٹر کینتھ ایڈل مین چاہتے تھے کہ (اس واقعے کو بنیاد بنا کر) فوجی اور معاشی امداد میں کٹوتی کے ذریعے پاکستانی جوہری پروگرام پر کارروائی اور سختی کی جائے۔‘
ایڈل مین کا استدلال تھا کہ ’امریکہ میں غیرقانونی سامان کے حصول کی سرگرمیاں روکنے کے لیے دباؤ بڑھانا چاہیے، ایسا نہ کیاگیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ (ایسی غیرقانونی سرگرمیوں سے امریکہ کو) کوئی فرق نہیں پڑتا اور جیسے کام چل رہا ہے، ویسے ہی چلتا رہے۔‘
محکمہ خارجہ نے اس کے برعکس موقف اپنایا کیونکہ پاکستان کو فراہم کی جانے والی امریکی امداد درحقیت افغانستان میں ’مجاہدین‘ کی مدد کے لیے تھی۔ ’ہم اس نازک و فیصلہ کن مرحلہ پر جب (امریکی) صدر افغانستان میں سویت کے ساتھ پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں، ان کے ہاتھ کمزور کرنے پر خاص طور تشویش میں مبتلا ہیں۔‘
پرویز پر الزام تھا کہ اس نے کسٹم اہلکار کو رشوت دے کر ایکسپورٹ لائسنس حاصل کیا، اس کا مقصد انتہائی مضبوط ’مارجینگ سٹیل‘ (خالص اور ٹھوس فولاد) خریدنے کا تھا جو ’گیس سینٹری فیوج کی افزودگی‘ کی ٹیکنالوجی کا حامل ہوتا ہے جس میں ’بیریلیم‘ (کیمیائی جُزو رکھنے والے فولاد کی قسم) کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ امریکی حکام کے مطابق مبینہ طور پر یہ فولاد پاکستان کے خفیہ طور پر جاری جوہری پروگرام کے لیے بہت لازم تھا۔
ایڈل مین چاہتے تھے کہ صدر ریگن اس معاملے میں (ڈسٹرکٹ نیویارک سے نمائندے سٹیفن سولارزکے نام پر) ’سولارز ترمیم‘ کا اطلاق کریں جس کے تحت امریکی حکومت سے امداد وصول کرنے والی حکومت کے خلاف امداد میں کٹوتی کی جائے جو غیرقانونی طور پر خود یا اپنے ایجنٹس کے ذریعے غیرقانونی طور پر ایسا مواد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں جو جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں استعمال ہوتا ہو۔
تاہم ریگن نے سولارز ترمیم استعمال کرنے سے انکار کر دیا۔
امریکہ میں فوجداری کارروائی
29 جولائی 1987 کو امریکی گرینڈ جیوری نے بریگیڈئیر انعام کو ‘سازش کا بنیادی مہرہ’ ہونے پر سزا سنائی اور اس موقع پر امریکہ کے محکمہ خارجہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس ملزم کی امریکہ حوالگی پر غور کیا جا رہا ہے۔
گرینڈ جیوری کی جانب سے سیاسی حساسیت کے حامل جوہری مواد کے حصول کے کیس میں سزا کی کارروائی حیرت انگیز تھی۔ سزا کے فیصلے میں ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے کردار کے بارے میں مزید معلومات سامنے آئیں جن میں سازش کی تیاری بھی شامل تھی۔
‘یقیناً جوہری قوت کے حصول کے نیٹ ورک میں ڈاکٹر اے کیو خان ایک کلیدی کردار تھے لیکن انعام الحق جو پرویز کے ساتھ قریبی رابطے میں رہ کر کام کر رہے تھے، آخری وقت میں امریکہ کی طرف سے گرفتاری سے بچ گئے‘
جیوری نے اپنے فیصلے میں بریگیڈیئر انعام کی مبینہ طور پر ارشد پرویز سے ہونے والی ایک تحریری گفتگو کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ یہ وہ گفتگو تھی جو ارشد پرویز کے گھر پر پولیس چھاپے کے دوران پولیس کے قبضے میں آئی تھی اور اس میں بریگیڈیئر کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ارشد اُن مشکلات کو حل کریں گے جو یورنیم افزودگی کے پلانٹس میں استعمال ہونے والے خاص فولاد کے حصول میں پیش آ رہی تھیں۔
اس میں یہ تحریر بھی موجود تھی کہ ’ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح نہیں دینی۔‘
سزا کے فیصلے میں بریگیڈیئر انعام پر الزام عائد کیا گیا کہ پاکستان میں اُن کی امپورٹ ایکسپورٹ فرم کے ہیڈکوارٹرز کی جانب سے بظاہر پرویز کو ہدایت کی گئی تھی کہ انھیں ‘لازماً’ اس (مواد) کو امریکی کامرس (تجارت) ڈیپارٹمنٹ ایکسپورٹ کنٹروزل کی نظروں سے ’بائی پاس‘ کرنا (چھپانا) ہے جو جوہری مواد سے متعلق سامان کی سخت نگرانی کرتا ہے۔
ارشد پرویز نے اپنے خیال میں کامرس اہلکار کو رشوت دے کر کامرس ڈیپارٹمنٹ کا لائسنس حاصل کر لیا تھا مگر انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ جس شخص کو انھوں نے رشوت دی تھی وہ اصل میں ایک امریکی خفیہ ایجنٹ تھا اور ارشد کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کے لیے امریکی کامرس اہلکار کا روپ دھارے ہوئے تھا۔
بریگیڈیئر انعام نے ’ایکسپورٹ لائسنسنگ‘ کی بڑی کامیابی حاصل کرنے پر ارشد پرویز کو ’مبارکباد‘ کا پیغام بھیجا تھا۔
درحقیقت پرویز کو دیا جانے والا ’لائسنس‘ ایک جھوٹی دستاویز تھی اور اصل میں یہ امریکہ کی طرف سے کیا جانے والا ایک ’سٹنگ آپریشن‘ (بچھایا ہوا جال) تھا جس کا اختتام فلاڈلفیا میں پرویز کی گرفتاری پر ہوا۔
ریگن انتظامیہ اور کانگریس کی طرف سے اس کیس پر شدید ردعمل کے جواب میں پاکستانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے وسیع پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور بریگیڈیئر انعام کی گرفتاری کے وارنٹس جاری کر دیے ہیں۔
29 جولائی 1987 کو واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام نے بعدازاں امریکی حکام کو بتایا کہ انعام ‘لاپتہ’ ہوگیا ہے۔
اس واقعہ کو پاکستانی میڈیا نے کیسے رپورٹ کیا
پاکستانی اخبارات میں بہت ہی کم اس کے بارے میں خبریں شائع ہوئیں۔ 29 جولائی 1987 کو روزنامہ ڈان نے پاکستانی دفتر خارجہ کا ایک بیان شائع کیا جس میں ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی سینیٹرز سولارس اور گلین کے ان الزامات کو مسترد کر دیا کہ پاکستانی حکومت یا اس کی کوئی ایجنسی خاص فولاد کی امریکہ سے سمگلنگ میں ملوث ہے۔
ایک بیان میں کہا گیا کہ ’یہ کسی دشمن ایجنسی کے بُنے ہوئے جال پر مبنی کوئی مہم دکھائی دیتی ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کے بیان میں یہ الفاظ استعمال ہوئے تھے کہ ’پاکستانی حکومت کے کسی محکمے یا ایجنسی نے فولاد کے لیے کوئی آرڈر نہیں دیا ہے۔‘
پاکستان سے متعلق اس اہم نوعیت کے واقعہ پر دیگر پاکستانی اخبارات بالکل خاموش نظر آئے۔
Comments are closed.