حکومت سندھ کی جانب سے متوسط اور غریب طبقے کے لیے بنایا جانے والا رہائشی منصوبہ 13 سال بعدبھی مکمل نہ ہوسکا، شہریوں کے اربوں روپے پھنس گئے، اپنا گھرکا خواب لیے شہری دنیا سے چلے گئے، لیکن قبضہ ملا نہ ہی مالکانہ حقوق مل سکے۔
بلند و بالا عمارتیں، سکڑتی سڑکیں، تجاوزات کی بھرمار اور فلیٹوں کاجال، یہ ہے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد کاحال، آبادی بڑھی تو 2009 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے تین سال کی مد ت کے لئے سستی رہائشی اسکیم کے نام سے گلستان سرمست کو متعارف کرایا جس پر لوگوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔
2000 ہزار ایکڑ پر پھیلے اس رہائشی پروجیکٹ میں کمرشل پلاٹس کے علاوہ 100، 120، 240 اور 400 گز کے رہائشی پلاٹس صرف 99 ہزار روپے سے لیکر 9 لاکھ 40 ہزار روپے تک میں فروخت کے لئے پیش کئے گئے۔
گلستان سرمست کے فیز ون میں 20676 پلاٹس بک کرائے گئے۔ جبکہ فیز ٹو میں 5847 پلاٹس فیز تھری میں 5138 پلاٹ کی بکنگ کی گئی۔ ابھی پہلے فیز کے مکین مالکانہ حقوق، ترقیاتی کام اور قبضے کے منتظر تھے کہ چوتھا فیز بھی لاؤنچ کر دیا گیا۔
نئے فیز میں 4063 شہریوں سے بکنگ کے پیسے لے لئے لیکن قرعہ اندازی آج تک نہ ہوسکی۔ ستم ظریفی یہ بھی دیکھی گئی کہ ایسے 3 ہزار الاٹیز جو پلاٹ کی قسط ادا نہ کر سکے ان کے پلاٹس کینسل کردیے گئے۔
12سال میں 8 ارب 17 کروڑ روپے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے ایچ ڈی اے حیدر آباد ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے کھاتے میں چلے گئے۔ قبضہ تو دور کی بات شہری جب بھی اپنے پلاٹ پر جاتے خود کو کھلے میدان اور سنسان جنگل میں پاتے۔ جہاں نہ بجلی ہے نہ پانی اور نہ ہی گیس۔
ایچ ڈی اے کی گورننگ باڈی کے رکن اور وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی صغیر قریشی کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کے ساتھ زیادتی نہیں ہونےدیں گے۔ جلد از جلد منصوبہ مکمل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
ایچ ڈی اے حکام کا دعویٰ ہے کہ گلستان سرمست میں کروڑوں روپے کے ترقیاتی کام کرائے گئےہیں۔ جس کاریکارڈ بھی موجود ہے۔
اس دعویٰ پر جب جیونیوز کی ٹیم گلستان سرمست پہنچی تو مناظر کچھ اورہی تھے۔ الاٹیز کی جانب سے رقم کی ادائیگی کے باوجود قبضہ کیوں نہیں مل رہا ہے؟ شہریوں کی محنت کی کمائی کاپیسہ کون واپس دلائیگا؟ 12سال میں جمع ہونے والے 8 ارب 17 کروڑروپے کہاں گئے؟ کیا شہریوں کی رقم پر منافع حاصل کرنے کے لئے یہ روپے بینک میں تو موجود نہیں؟ ترقیاتی کام کب مکمل ہوں گے مالکانہ حقوق کب ملیں گے؟
بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر شہر موثر منصوبہ بندی کے تحت حیدرآباد کو وسعت دی جاسکتی ہے۔ اور اس کے لیے گلستان سرمست جیسی اسکیموں کو سیاست سے بالا تر ہو کر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا۔
Comments are closed.