پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کا کہنا ہے کہ جی ڈی اے اور پی ٹی آئی والوں کی ہمارے دروازے پر لائن لگی ہے، جی ڈی اے میں ہوں یا پی ٹی آئی میں، ہمارے مخالف ہی ہیں، جس دن ہم نے دروازہ کھولا سب ہمارے ساتھ ہوں گے۔
سندھ اسمبلی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سعید غنی نے کہا کہ کے سی آر کے بڑے منصوبے کا کسی تیاری کے بغیر سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، جلد بازی میں کے سی آر منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا، کے سی آر کا پہلے اسٹرکچر بنارہے ہیں۔ کے سی آر کے اسٹرکچر پر کس قسم کی ٹرین چلائیں گے پتہ نہیں، چل بھی سکے گی یا نہیں۔
سعید غنی نے کہا کہ جدید ترین کے سی آر کا منصوبہ 2004 میں سوچا گیا، 2006 میں جائیکا نے اس پر کام کیا، وفاقی حکومت نے 2004 میں ماس ٹرانزٹ منصوبہ شروع کرنے کا سوچا تھا، جائیکا نے سروے کیا رپورٹ تیار کی، 2006 سے 2016 تک جائیکا کام شروع نہ کرسکی اور واپس چلی گئی۔
پی پی رہنما نے کہا کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے 29 جولائی 2016 کو اس منصوبےکو تیز کرنے کیلئے اقدامات شروع کیے، 3 دسمبر 2016ء کو وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کے سی آر منصوبے کیلئے وزیراعظم کو خط لکھا، وزیراعلیٰ سندھ نے خط میں کے سی آر کو سی پیک میں شامل کرنے پر زور دیا، وزیر اعلیٰ سندھ نے لاہور کی اورنج ٹرین کی طرز پر کراچی کے شہریوں کو بھی ٹرانسپورٹ کی جدید سہولت دینے کی بات کی۔
سعید غنی نے کہا کہ کے سی آر منصوبے میں وفاقی حکومت کا 60 فیصد اور صوبائی حکومت کا 40 فیصد حصہ تھا، 2012 میں جائیکا کی کے سی آر منصوبے کی لاگت 2.6 ارب ڈالر تھی، موجودہ حکومت کے دور میں کے سی آر منصوبے سے متعلق حکومت کی ترجیحات بدل گئیں۔
پی پی رہنما نے کہا کہ حکومت نے ایم ایل ون منصوبےکو آگے بڑھایا، سی پیک میں جو کام سندھ حکومت کررہی تھی انہوں نے اپنے کھاتے میں ڈال دیا، مجھے شک ہے کہ وفاقی حکومت نے جو وعدے کیے وہ پورے نہیں ہوں گے۔
سعید غنی نے کہا کہ کے سی آر سے متعلق سندھ حکومت نے اپنی ذمہ داریوں سے بڑھ کر کوشش کی، کے سی آر پروجیکٹ کو آگے بڑھانے سے متعلق ہم نے وفاق کو درجنوں خطوط لکھے۔
Comments are closed.