سر تھامس رو: مغل شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں انگلینڈ کے شاہ جیمز کا ‘شیخی باز’ سفیر
- مرزا اے بی بیگ
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دہلی
یہ جمعرات 17 ستمبر سنہ 1615 کی بات ہے جب مغل سلطنت کے سب سے مشغول بندرگاہ سورت کے سمندری ساحل پر ایک جہاز نمودار ہوا۔
اگرچہ یہ اس مقام پر لنگر انداز ہونے والا پہلا برطانوی بحری جہاز نہیں تھا مگر اس میں انگلینڈ کے شاہ جیمز اول کے پہلے سفیر سر تھامس رو سوار تھے جن کے پاس مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کے نام ایک اہم پیغام تھا۔
سر تھامس رو کے سر پر دوہری ذمہ داری تھی۔ ایک تو شاہ انگلینڈ کے نمائندے کے طور پر ان کا ہندوستان میں ورود ہوا تھا اور دوسرا انھیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے مغل دربار سے مراعات حاصل کرنے کا کام تفویض کیا گیا تھا۔
یہ سترہویں صدی کے اوائل میں قائم ہونے والی برطانیہ کی وہی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے جس نے دو سو سال بعد انڈیا میں برطانوی حکومت کے قیام کی بنیاد ڈالی۔
سر تھامس رو سے قبل کمپنی نے انڈیا کے لیے اپنے کئی ایلچی بھیجے تھے جو بے نیل و مرام واپس ہوئے تھے لیکن یورپ میں مشرقی دنیا کے ساتھ جاری تجارتی مسابقت اور جدوجہد نے ایک بار پھر کمپنی کو مغل بادشاہ جہانگیر کے دربار میں ایک ایلچی بھیجنے پر مجبور کیا اور اس بار اپنے نمائندے کی حیثیت اور مرتبے میں اضافے کے لیے انھوں نے شاہ انگلینڈ جیمز اول سے بھی گزارش کی۔
چنانچہ سنہ 1614 میں ایک پارلیمان کے رکن سر تھامس رو کو سفیر بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت تھامس رو کی عمر تقریبا 40 سال تھی۔
اپنے زمانے میں دنیا کی امیر ترین سلطنت میں شاہ انگلینڈ جیمز اول کے سفیر کی آمد کا کوئی ذکر ہو کہ نہ ہو لیکن سفیر کی اپنی یاد داشت نے مغربی دنیا کو سلطنت مغلیہ اور بطور خاص نور الدین محمد جہانگیر کے دربار سے روشناس کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ہر چند کہ تھامس رو نے اپنی یادداشت میں اپنی اہمیت کو اجاگر کرنے اور خود کو بادشاہ کا مقرب اور ہم نشیں بتانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے لیکن برصغیر میں ان کی آمد کے ساتھ ہی انھیں مشکلات کا سامنا رہا کیونکہ ایک جانب ایسٹ انڈیا کمپنی نے انھیں سورت میں مقیم اپنے تجارتی حکام کے کاموں میں دخل کی اجازت نہیں دی تھی اور دوسری جانب مغل سلطنت میں کسی انگریز کے استقبال کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
سر تھامس رو شہنشاہ جہانگیر کے دربار میں
اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ بادشاہ اکبر کے دور میں انگلینڈ سے آنے والے سفیر جان میلڈن ہال نے بتایا تھا کہ عنقریب انگلینڈ سے ایک شاہی سفیر ان کے دربار میں حاضری دے گا۔ چنانچہ سنہ 1608 میں جب ولیم ہاکنس مغل دربار میں حاضری کے لیے آگرہ پہنچے تو جہانگیر نے انھیں وہی سفیر سمجھا جس کا ذکر کیا گیا تھا۔ لیکن ولیم ہاکنس تو صرف برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندے تھے لیکن انھوں نے خود کو بادشاہ کا نمائندہ کہا جس کے سبب نہ صرف ان کے رہنے سہنے کا انتظام کیا گیا بلکہ ان کے لیے وضیفہ بھی مقرر کیا گیا لیکن ایک دن وہ نشے کی حالت میں دربار میں آگئے تو انھیں مغل سلطنت سے نکال دیا گیا۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر ایک طرف شہزادہ خرم (جو بعد میں بادشاہ بنے اور شاہ جہاں کا خطاب اختیار کیا) پرتگالیوں کے ساتھ رابطے کے حق میں تھے تو دوسری طرف باشاہ جہانگیر سمندر پار کے کسی گروپ سے کسی تجارتی تعلقات کے حق میں نہیں تھے۔
بہر حال سر تھامس رو کا کسی بھی فارسی مآخذ میں ذکر نہیں ملتا اس لیے وہ خود ہی اپنی روداد کے گواہ ہیں۔ معروف مصنف اور مغل تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے برطانوی شہری ولیم ڈیلرمپل نے اپنی کتاب ‘دی اینارکی’ میں سر تھامس رو کے حوالے سے لکھا ہے کہ ‘رو یہ جان کر حیران و پریشان ہوئے کہ انگریزوں کے ساتھ تعلقات مغلوں کی ترجیحات میں بہت نیچے درجے پر تھیں۔ ان کی آمد پر انھیں ایک معمولی رہائش دی گئی۔ پورے وفد کے لیے صرف کارواں سرائے کے چار کمرے دیے گئے اور وہ بھی کسی تندور کی طرح تھے جہاں سوائے دروازے کے روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا اور جہاں صرف دو بیل گاڑیاں سما سکتی تھیں۔’
ایک طرف تھامس رو کا یہ حال تھا اور دوسری طرف انگلینڈ بھیجے جانے والے اپنے مراسلوں اور خطوط میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ مغل دربار میں کسی بھی سفیر سے زیادہ مرتبہ کے حامل ہیں یہاں تک کہ انھیں نشست کے لیے وہ مخصوص جگہ دی جاتی ہے جو سب سے نمایاں ہے اور وہ بادشاہ اور شہزادوں کے بعد سب سے اعلی صف میں شامل ہیں۔
،تصویر کا ذریعہBloomsbury
انھوں نے دربار میں اپنی آمد کا ذکر بادشاہ جیمز کے نام ایک خط میں اس طرح کیا ہے کہ انھوں نے انگلینڈ کے بادشاہ کے وقار میں کوئی داغ نہیں لگنے دیا ہے۔ دربار میں بادشاہ (جہانگیر) کے سامنے جھکنے اور سجدے کی روایت ہے جس سے ان کے مطابق انھوں نے احتراز کیا اور جہانگیر نے اس کی انھیں اجازت دی۔
تھامس رو نے لکھا ہے کہ بادشاہ تحفے تحائف کا انتہائی شوقین ہے اور اسے قیمتی پتھر، زرو جواہر اور نادر فنون کے نمونہ کی نہ بجھنے والی پیاس ہے۔
اگر چہ تھامس رو کی ہندوستان میں آمد سنہ 1615 کے ستمبر میں ہوئی تھی لیکن بادشاہ سے ان کی ملاقات سنہ 1616 کے اوئل میں ہو سکی۔ بادشاہ جہانگیر کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے لکھا کہ ‘بادشاہ نے پوچھا کہ نذرانے کے لیے کیا لائے ہو؟ تو میں نے جواب دیا (انگلینڈ اور مغل انڈیا کے درمیان) دوستی جو کہ نئی تھی اور بہت کمزور تھی۔ ہمارے ملک میں بہت سے عجائب اور نادر چیزیں ہیں جو دنیا بھر سے ہمارے تاجر حاصل کرتے ہیں، اگر انھیں باوقار شرائط پر سہولیات دی گئیں اور اور امن و تحفظ فراہم کیا گیا تو ہمارے بادشاہ آپ کو وہ نوادرات بھیجیں گے۔
‘انھوں نے پوچھا کہ وہ عجائب کیا ہیں جس کا آپ نے ذکر کیا۔ کیا وہ جواہرات اور قیمتی پتھر ہیں تو میں نے نفی میں جواب دیا اور کہا کہ میں انھیں تحفے کے طور پر مناسب نہیں سمجھتا کہ جسے ہم نے یہیں سے لیا ہو اسے پھر واپس کریں لیکن ہم عالی جاہ کے قابل ایسی چیزیں سمجھتے ہیں جو نادر ہوں اور پہلے نہ دیکھی گئی ہوں۔’
لندن میں قائم سواس (سکول آف اورینٹل اینڈ افریکن سٹڈیز) یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں ریسرچ سکالر مہرین ایم چیدا رضوی اپنے ایک مقالے میں لکھتی ہیں کہ رو کی تحریریں ‘ٹریول رائٹنگ’ یا سفرناموں کے وسیع تر حصے کے طور پر موجود ہیں جو سترھویں صدی میں غیر یورپی ممالک میں سیاحت کی روداد میں دلچسپی رکھنے والوں کو لطف فراہم کرنے کے لیے ہیں۔
وہ لکھتی ہیں کہ ہندوستان آمد پر انھیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ ایک انجان دنیا میں آگئے ہیں جہاں دولت کی ریل پیل ہے اور بادشاہ کے لیے ان کا تحفہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اب انھیں انگریزی تھیئٹر کے کسی کردار کی طرح اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اور انھوں نے ویسا ہی کیا۔
تھامس رو نے وسطی ہندوستان میں مانڈو کے قلعے سے بادشاہ جہانگیر کے یوم پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ وہ شان و شوکت کی ناقابل گمان دنیا میں آ گئے ہیں جہاں بہت ہی وسیع اور خوبصورت باغ میں جشن کا اہتمام کیا گیا ہے۔ چاروں طرف دوڑتی نہروں میں پانی رواں ہے اور کنارے پھول اور درخت صف باندھے قطار میں کھڑے ہیں۔ بیچ میں ایک بلند مقام پر ایک ترازو ہے جس پر سونے کے انبار رکھے ہیں جس میں بادشاہ کو تولا جانا ہے۔
جہانگیر کے دربار میں سر تھامس رو شاہ ولیم کے مراسلے کے ساتھ
انھوں نے مزید لکھا کہ ‘اشرافیہ قالینوں پر دراز ہیں یہاں تک کہ بادشاہ کی آمد کا اعلان ہوتا ہے۔ بادشاہ بظاہر ملبوس نظر آتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ وہ ہیرے، یاقوت، موتی، اور دوسری قیمتی چیزوں سے لدے ہوئے ہیں جو کہ انتہائی شاندار اور بہت عظیم ہیں۔ ان کے سر، گردن، سینے، بازو، کہنی سے اوپر، کلائی پر جواہرات لدے ہیں اور ان کی انگلیوں سے ہر ایک میں کم از کم دو یا تین انگوٹھیاں ہیں جس پر ہیرے چمک رہے ہیں اور یاقوت تو آخروٹ کی سائز کے ہیں اور بعض ان سے بھی بڑے ہیں۔ جبکہ موتی میری آنکھوں کے دیدوں جتنے ہیں جنھیں پھاڑ پھاڑ کر میں حیرت میں غرق ہوں۔ جواہرات ان کی خوشیوں میں شامل ہے اور دنیا بھر کی دولت ان کے پاس ہے جو کچھ بھی ان کے پاس آتا ہے وہ خرید لیتے ہیں اور قیمتی پتھر تو ایسے جمع کرتے ہیں جیسے وہ اسے پہنیں گے نہیں بلکہ اس سے تعمیر کریں گے۔’
مزید پڑھیے
دوسری جانب جہانگیر نے اپنی تصنیف ‘تزک جہانگیری’ میں اپنے تخت نشین ہونے کے 11 ویں سال کے جشن کا ذکر کیا ہے جس میں بہت ممکن ہے کہ سر تھامس رو ہوں کیونکہ سر تھامس رو کا مذکورہ بیان اسی واقعے کا عکاس ہے۔
جہانگیر لکھتے ہیں: اتوار آخر ماہ اسفندارند مطابق یکم ربیع الاول کو طلوع آفتاب کے ڈیڑھ پہر بعد جبکہ سورج کی برج حوت سے برج حمل ک طرف تحویل ہوئی میں نے اس نیک ساعت میں اللہ کا شکرانہ ادا کیا اور دیوان خانہ خاص و عام جسے مختلف قسم کے خیموں اور شامیانوں سے آراستہ کیا ہوا تھا، فرنگی پردوں اور مصور منقش زربفت اور دیگر نفیس اشیا سے سجایا گیا، تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوکر رسم تاجپوشی ادا کی اور اس موقعے پر اراکین سلطنت اور شاہی ملازمین نے آداب و تسلیمات بجاتے ہوئے مبارکباد پیش کی۔
‘میں نے حافظ ناد علی گویندہ سے کہا کہ پیر کے دن جس کا پیشکش آئے گا وہ اسے انعام میں دے دیا جائے گا۔ دوسرے دن بعض امرا نے اپنے اپنے پیشکش نظر سے گزارے۔ چوتھے دن خواجہ جہاں نے آگرے سے اپنا 50 ہزار کی مالیت کا پیشکش میری خدمت میں بھیجا۔ پانچویں روز کنور کرن نے واپس وطن سے آکر آستان بوسی کی بعد از آں سو مہریں، ایک ہزار روپے، ایک ہاتھی اور چار گھوڑے میری نذر کیے۔ سات تاریخ کو آصف خاں کے منصب میں اضافہ کرکے ایک نقارہ اور جھنڈا عنایت کیا۔۔۔اسی دن میر جمال الدین حسین نے اپنا پیشکش نظر سے گزارا جو مجھے بہت پسند آیا۔ اس میں ایک خنجر تھا جس کے دستے میں ایک خوشنما یاقوت لگا تھا جسکا حجم مرغی کے انڈے کے برابر تھا، ایسا یاقوت میری نظر سے اس سے پہلے نہیں گزرا تھا، اس کے علاوہ دوسرے قسم کے ہیرے اور یاقوت بھی اس خنجر میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی مجموعی قیمت 50 ہزار روپے ہوتی ہے۔۔۔
،تصویر کا ذریعہTuzk-e-Jahangiri
‘نو ماہ مذکور کو خواجہ ابوالحسن کا پیشکش نظر سے گزرا جس میں جواہرات اور مرصع آلات اور نادر اشیا قبول کرکے باقی چیزیں اسے واپس کر دیں۔ اسی دن تاتار خان بسناول بیگی نے ایک لعل، ایک یاقوت، ایک مرصع تختی، دو انگوٹھیاں اور کچھ نفیس پارچہ جات میری نظر سے گزارے۔ اسی دن دکن سے مہاسنگھ کے بیھجے ہوئے تین ہاتھی اور مرتضی خان کے زربفت کے ایک سو ایک تھان میری نظر سے گزرے، دیانت خان نے بھی اسی دن موتیوں کی دو تسبیح، دو لعل، چھ بڑے موتی اور ایک سونے کا طبق جن کی مجموعی قیمت 28 ہزار روپے ہوتی ہے میری نظر سے گزارا۔’
جہانگیر اپنی یادداشت پابندی کے ساتھ لکھتے تھے اور اس میں ہر اہم چھوٹی بڑی چیز کا ذکر کیا کرتے تھے۔ ایسے میں سر تھامس رو کا ذکر نہ کیا جانا حیرت انگیز ہے۔ کیونکہ اسی سال کے احوال میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ‘اسی روز شاہ ایران کے ایلچی مصطفی بیگ نے شاہ ایران کا محبت بھرا خط، کچھ گھوڑے، اونٹ اور روم کے تیار شدہ ریشمی اور اونی کپڑے اور فرنگی نسل کے کتے، جس کا میں عرصہ دراز سے خواہش مند تھا، میری نظر سے گزارے۔’
سر تھامس رو نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جہانگیر کو فرنگی نسل کے کتوں کی تلاش تھی اور اس کے علاوہ انھیں فرنگی نسل کے گھوروں میں دلچسپی نظر آئی۔
تھامس رو کے مطابق بادشاہ نے ان میں خاصی دلچسپی لی اور انھیں دربار میں اعلی مقام عطا کیا۔ مہرین رضوی کے مطابق وہ انگلینڈ میں اپنے سامعین کے لیے لکھ رہے تھے اور یہ تاثر پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے جیسے کہ بادشاہ کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہو۔
چنانچہ تھامس رو ایک جگہ لکھتے ہیں کہ 24 جنوری سنہ 1616 کو وہ بادشاہ سے ملاقات کی غرض سے دربار میں پہنچے اور ‘مجھے دور سے دیکھتے ہی انھوں ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلایا کہ مجھے اجازت حاصل کرنے والی رسم کے لیے رکنے کی ضرورت نہیں اور سیدھے ان کے پاس پہنچیں، جہاں انھوں نے تمام آدمیوں سے اعلی مقام عطا کیا جسے ہم نے اپنے مناسب سمجھا۔’
مہرین رضوی لکھتی ہیں کہ رو نے اپنے آپ سے یہ طے کر لیا کہ وہ دربار میں ممتاز جگہ پر رہیں گے۔ سرتھامس رو کے مطابق 15 مارچ کو منعقد ہونے والے جشن نو روز میں تھامس رو کو جہانگیر کے تخت کے ساتھ کھڑے ہونے کی اجازت دی گئی۔
،تصویر کا ذریعہSmithsonian Institution
جہانگیر ایک صوفی کو قرآن مجید تھماتے ہوئے ساتھ میں سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ اور ان کے ساتھ انگلینڈ کے بادشاہ جیمز اور پھر مصور بیچتر
وہ لکھتے ہیں کہ نوروز کی شام کو میں گیا اور آصف خان (نور جہاں کے والد) سے کہا کہ مجھے میری نشست بتائیں تو انھوں نے کہا کہ آپ پسند کر لیں اور میں شاہی حصے میں گیا اور تخت کے دائيں جانب کی جگہ پسند کی جبگہ شہزادے اور رانا اور سید دوسری جانب تھے۔’
جہانگیر شراب کے شوقین تھے یہ بات سب خواص و عام کو پتا تھی چنانچہ سر تھامس رو نے لکھا ہے کہ انھوں نے بادشاہ کو انگریزی شراب اور بیئر پیش کی جس کے بارے میں بادشاہ نے پوچھا کہ یہ کیسے تیار کی جاتی ہے۔ ولیم ڈیلرمپل نے تھامس رو کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس علاوہ جہانگیر نے ایک چھوٹی پینٹنگ میں دلچسپی دکھائی جو ان کی گرل فرینڈ کی تھی، جہانگیر نے اس کی تعریف کی لیکن کہا کہ ان کے مصور اس کی نقل فورا تیار کر لیں گے۔
ان کے مطابق انھوں نے ایک بار انگریزوں کے انداز میں تلوار باندھنے کے انھیں بلا بھیجا اور پھر ان کے ساتھ خوش گپیاں ہوا کیں۔
لیورپول یونیورسٹی میں تھامس رو پر تحقیق کرنے والی اور ‘میڈیول اینڈ ارلی ماڈرن اوریئنٹس’ کی بانی مدیر لبابہ الاعظمی نے بی بی سی کے ساتھ ای میل سے رابطہ کرتے ہوئے بتایا کہ ‘دلچسپ بات یہ ہے کہ رو مغل ملکہ نور جہاں کے دائرہ اختیار میں آتے تھے۔
انھوں نے نورجہاں پر کتاب تصنیف کرنے والی تاریخ داں روبی لال کے حوالے سے بتایا کہ جہانگیر کے ساتھ وہ شریک حکمراں تھیں اور تھامس رو بھی اپنے سفارتی مشن کے لیے انھی کو جوابدہ تھے۔ نور جہاں اپنے بھائی آصف خان کے ذریعے تھامس رو پر اثر انداز ہوتی تھیں اور تھامس رو آصف خان سے ترش تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ‘میں سمجھتا ہوں کہ آصف خان اپنے اور ملکہ (نورجہاں) کے لیے تحفے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ مجھ سے مسٹر ایڈورڈ کے مقابلے میں دس گنا تحفہ چاہتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔ انھیں چاہیے تھا کہ ایک سفیر، ایک عظیم آدمی آیا ہے، وہ اس کے شایان شان ان کا (تحفے سے) استقبال کریں۔ بادشاہ کی پسندیدہ بیوی آصف خان کی بہن ہیں، اس طرح وہ دونوں رشتہ دار ہیں، بادشاہ کو چلاتے ہیں اور سلطنت کے امور دیکھتے ہیں۔۔۔’
یہ بھی پڑھیے
لبابہ الاعظمی بتاتی ہیں کہ وہ نور جہاں کی ناراضی سے محتاط رہنا چاہتے تھے کیونکہ انھوں نے لکھا: ‘میں پسندیدہ ملکہ اور جانشین کی بیوی کی پھوپھوی اور آصف خان کی بہن، جس کی بیٹی سے شہزادے کی شادی ہوئی تھی، سب طاقتور گروہ تھا، ایک بیوی کی طاقت، ایک بیٹے کی طاقت، ایک پسندیدہ کی طاقت سب مل کر بدلہ لیں گے۔’
سر تھامس رو نے بادشاہ جہاںگیر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ نفیس طبیعت کا نرم خو انسان تھا لیکن اس نے شہزادہ خرم یا آصف خان یا پھر کسی دوسرے کے بارے میں بہت اچھی باتیں نہیں لکھی ہیں۔ البتہ سورت میں جو انگریزی کارخانہ تھا وہاں جب پرتگالیوں سے انگریزوں کی جھڑپ ہوئی تھی تو انھوں نے شہزادہ خرم سے شکایت کی تھی جس پر شہزادہ خرم نے وہاں کے والی سے کہا تھا کہ ان کا ہرجانہ پورا کیا جائے۔
تھامس رو کا دوسرے یورپی تذکروں میں ملتا ہے لیکن اس کے علاوہ جہانگیر کے دربار کے ایک معروف مصور بیچتر کی ایک پینٹنگ میں جیمز اول کو دیکھا جا سکتا ہے۔
لبابہ اعظمی اور ولیم ڈیلرمپل نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے جس میں جہانگیر ایک سفید ریش صوفی بزرگ کو قرآن مجید دے رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ کو دیکھا جا سکتا ہے جبکہ ان کے بعد شاہ جیمز اور خود بیچتر موجود ہیں۔
ان دونوں کا خیال ہے کہ جیمز کی تصویر مغل فنکار کو بظاہر تھامس رو نے فراہم کی ہوگی۔ ایک دوسری تصویر میں سر تھامس رو کے جہانگیر کے دربار میں معززین کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
بہر حال تقریبا چار سال مغل دربار میں گزارنے کے بعد سنہ 1618 کے اواخر میں سر تھامس رو دربار سے رخصت ہوتے ہیں اور ماہرین کے مطابق وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے جہانگیر سے کوئی مخصوص فرمان حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
لبابہ لکھتی ہیں کہ رو کے ‘سفارتی سفر کو اکثر انگلینڈ کی ہندوستان میں پہلی آمد اور سلطنت کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ رو کی سفارتی کوششوں کو لندن کے ویسٹ منسٹر میں سینٹ اسٹیفنس ہال میں ایک دیوار پر مورال کی شکل میں نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے۔ تاہم، حقیقت سے آگے کچھ نہیں ہو سکتا۔ رو نے مغلوں کے ساتھ ایک مستقل تجارتی معاہدے کو حاصل کرنے کے لیے پوری شدت کے ساتھ چار سال گزارے، لیکن بالآخر انھیں خالی ہاتھ انگلینڈ واپس آنا پڑا اور وہ ناکام رہے۔’
بہر حال وہ ہندوستان میں سورت کی بندرگاہ سے فروری 1619 میں انگلینڈ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں جہاں ان کا پرجوش استقبال کیا جاتا ہے کیونکہ مہرین رضوی کے مطابق انھوں نے اپنے جرنل اور اپنے خطوط کے ذریعے اپنی جو شناخت انگلینڈ میں قائم کی تھی اس میں وہ ایک کامیاب سفیر یا ایلچی کے بجائے بادشاہ جہانگیر کے نزدیک قابل قدر شخصیت تھے۔
سر تھامس رو نے شاہ انگلینڈ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے مالکان اور دیگر احباب کے نام اپنے خطوط میں یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ جس کام کے لیے انھیں بھیجا گیا تھا وہ اس کے لیے بہترین انتخاب تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد انھیں سلطنت عثمانیہ سمیت کئی مملکت میں بطور سفیر بھیجا گیا جہاں وہ کامیاب بھی رہے۔
Comments are closed.