بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد وسطی ایشیائی ممالک کی خارجہ حکمت عملی کیا ہے؟

افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد وسطی ایشیائی ممالک کی خارجہ حکمت عملی کیا ہے؟

  • اکبرجان موسیف
  • سینٹرل ایشیا سپیشلسٹ

ازبکستان نے حالیہ برسوں کے دوران طالبان سے سفارتی رابطے قائم رکھے ہیں

،تصویر کا ذریعہMFA.UZ

،تصویر کا کیپشن

ازبکستان نے حالیہ برسوں کے دوران طالبان سے سفارتی رابطے قائم رکھے ہیں

وسطی ایشیا کی جمہوری ریاستوں نے سکیورٹی اور بے تحاشا افراد کے نقل مکانی کرنے کے پیش نظر افغانستان میں طالبان کے اقتدار حاصل کرنے پر علیحدہ علیحدہ ردعمل ظاہر کیا ہے۔

اگرچہ خطے کے رہنماؤں نے حالیہ مہینوں میں افغان بحران پر ‘تبادلۂ خیال’ کرنے کے لیے دو طرفہ رابطوں میں اضافہ کیا ہے، لیکن ان کی حکومتوں کے اقدامات مربوط ہونے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔

تاجکستان نے سقوط کابل کے بارے میں مسلسل منفی نقطۂ نظر اختیار کر رکھا ہے، جبکہ ایسا لگتا ہے کہ ازبکستان اور ترکمانستان بنا کوئی وقت ضائع کیے نئے افغان حکام کے ساتھ دوطرفہ مذاکرات کا قیام چاہتے ہیں۔

قازقستان اور کرغزستان، جو دیگر تین ممالک کے برعکس افغانستان کے ساتھ کوئی سرحد نہیں رکھتے، بظاہر کہ ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔

تاہم بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سکیورٹی کے جائز خدشات کے پیش نظر، ایک مربوط، مشترکہ موقف سے خطے کے ممالک پر طالبان کی اقتدار میں واپسی کے ممکنہ منفی اثرات کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ازبکستان

آٹھ ستمبر کو ازبک حکومت نے کہا کہ وہ طالبان کی عبوری حکومت کا خیر مقدم کرتی ہے، اس نے مزید کہا کہ تاشقند ان کے ساتھ ‘تعمیری بات چیت اور عملی تعاون’ کے لیے تیار ہے۔

اسی روز وزیر خارجہ عبدالعزیز کامیلوف نے کہا کہ ان کا ملک افغانستان کے ساتھ ‘دوستانہ اور اچھے ہمسایہ’ تعلقات کی حمایت کرتا ہے اور ‘ہمسایہ ملک کے اندرونی معاملات میں غیر جانبداری اور عدم مداخلت کی پابندی’ کے لیے پرعزم ہے۔

طالبان ترجمان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد

ایک ہفتہ قبل طالبان نے تاشقند کو آزادی کی 30ویں سالگرہ پر مبارکباد کے دو پیغامات بھیجے تھے جس سے ان کے برادر ملک ازبکستان کے ساتھ ‘مفید اور دوستانہ’ تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔

پچھلے مہینے کے آخر میں صدر شوکت مرزیویف نے کہا تھا کہ ازبکستان، افغانستان میں امن برقرار رکھنے کے لیے طالبان سے بات چیت کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ‘افغانستان میں آج کی صورتحال’ کا اندازہ دو سال قبل لگا لیا تھا اور اپنی حکومت کو حکم دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ بات چیت شروع کرے ‘جب کوئی ریاست ابھی تک ایسا نہیں کر رہی تھی۔‘

مرزیویف کا کہنا تھا کہ ’دوحہ میں ان کے رہنما ملا عبدالغنی برادر نے اس وقت وعدہ کیا تھا کہ ازبکستان کی طرف کوئی گولی نہیں چلائی جائے گی۔ ان کے ساتھ ہمارا رابطہ فطری ہے کیونکہ وہ اپنا وعدہ نبھا رہے ہیں۔‘

ازبک سیاسی مبصر کامل الدین ربیموف نے ملک کی افغان سفارتکاری کو ‘عملی اور عقلی’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ طالبان افغانستان میں ‘ایک حقیقی اور طویل مدتی بڑی طاقت’ ہیں۔

ایک اور تجزیہ کار انور نذیر نے القاعدہ اور ازبک عسکریت پسندوں کے ساتھ طالبان کے قریبی روابط کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان جنگجوؤں کو اپنے ملک میں دہشت گردی کے الزام کے تحت سزائیں سنائی گئی ہیں۔ انھوں نے طالبان کے ساتھ تعلقات میں محتاط رویہ اپنانے پر زور دیا۔

تاجکستان

تاجک صدر امام علی رحمان نے بارہا کہا ہے کہ دوشنبے طالبان کی ایسی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا جس میں تاجک اور ازبک جیسی نسلی اقلیتیں شامل نہ ہوں۔ دوشنبے کی ہمدردیاں پنجشیر میں مزاحمتی جنگجوؤں کے ساتھ رہی ہیں، جہاں زیادہ تر نسلی تاجک رہتے ہیں، اور طالبان پر نسلی کشی کا الزام عائد کیا ہے۔

تاجک وزیر خارجہ سراج الدین مہرالدین نے آٹھ ستمبر کو کہا ’ایک تیسرے ملک کی مدد سے طالبان پنجشیر پر اپنے حملوں میں طیارے استعمال کر رہے ہیں اور بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔‘ لیکن انھوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کن ملک کا ذکر کر رہے ہیں۔

اسی دوران تاجکستان نے افغان میڈیا کی ان خبروں کو ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہے کہ وہ پنجشیر کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اس سے قبل ایک بیان میں حکومت کی حامی ڈیموکریٹک پارٹی آف تاجکستان (ڈی پی ٹی) نے احمد مسعود کی قیادت میں طالبان مخالف اتحاد کی ‘مکمل حمایت’ ظاہر کی تھی۔

نقل مکانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

افغان پناہ گزین

صحافی فخرالدین خلبیک کا کہنا ہے کہ تاجک حکومت کو افغانستان میں نسلی تاجک کمانڈروں اور رہنماؤں کی حمایت کرنی چاہیے۔ تاجکستان کے ماہرین اور سیاستدانوں نے طالبان اور اس کی آئندہ حکومت کے بارے میں دوشنبے کی مضبوط پوزیشن کا بڑے پیمانے پر خیر مقدم کیا ہے۔

تاہم یورپ میں قائم اپوزیشن کی ویب سائٹ پایوم کا کہنا ہے کہ رحمان کی حکومت طالبان کے سامنے کوئی بھی شرط رکھنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور یہ کہ وہ صرف پڑوسی ملک میں نسلی تاجکوں کی حمایت کر کے اپنے ملک میں ’سیاسی پوائنٹس‘ حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ترکمانستان

آٹھ ستمبر کو وزارت خارجہ نے کہا کہ ترکمانستان نے ‘کثیر الجہتی تعاون کے لیے موثر میکانزم کی ضرورت پر زور دیا ہے جس کا مقصد افغانستان میں امن اور سول معاہدے کے حصول، سکیورٹی اور سماجی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔‘

ازبکستان کی طرح ترکمانستان نے بھی گذشتہ ایک سال کے دوران طالبان کے ساتھ ’سفارتی‘ رابطہ قائم رکھا لیکن تاشقند کے برعکس، اشک آباد نے ہمیشہ ان رابطوں کو زیادہ اجاگر نہیں کیا۔

افغانستان میں جلد سے جلد امن کے قیام میں ترکمانستان کے اقتصادی مفادات ہیں، جس میں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، اور انڈیا کے درمیان (TAPI) گیس پائپ لائن بھی شامل ہے۔ اس سے اشک آباد کو اپنی قدرتی گیس کی برآمدی منڈیوں کو متنوع بنانے میں مدد ملے گی۔

افغانستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اطلاعات کے مطابق دوطرفہ مذاکرات کے دوران طالبان نے ترکمانستان کو توانائی کے ان منصوبوں کے لیے سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی جن میں افغانستان شامل ہو۔

قازقستان، کرغزستان

قازقستان کے صدر قاسم ژومارت ٹوکایف نے حال ہی میں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ طالبان سے ’ایک حقیقی، متحد اور جامع نمائندگی والی قومی حکومت کی تشکیل کے بعد مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ قازقستان نئے افغان حکام کے ساتھ ‘تعمیری کاروباری روابط’ قائم کرنے کے لیے تیار ہے، سب سے پہلے طویل عرصے سے مسائل سے دوچار اس ملک کو درپیش شدید انسانی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

تاہم صدر ٹوکایف نے پہلے کہا تھا کہ ان کا ملک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو قراردادوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا جن میں طالبان کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

روس کے شہر ولادیووستوک میں اقتصادی فورم کے دوران ویڈیو کانفرنس میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘[قازقستان] چاہے طالبان حکومت کو تسلیم کرے یا نہیں، میں ایک اہم نکتہ بتانا چاہتا ہوں۔ میں 2003 اور 2011 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دو قراردادوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں جن کے تحت اس تحریک کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔’

کرغزستان میں حکام نے ابھی تک طالبان کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے لیکن ان کا خیال ہے کہ افغانستان میں تحریک کے لیے لڑنے والوں میں کرغز شہری بھی ہیں۔ کرغزستان میں بھی طالبان کے ہمدردوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر میڈیا میں تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔

اس صورتحال کے پیش نظر بشکیک میں پولیس نے مقامی مساجد کے پیش اماموں پر زور دیا ہے کہ وہ نماز جمعہ کے خطبات کو استعمال کریں تاکہ بنیاد پرست نظریات کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔

سکیورٹی چیلنجز اور خطرات

طالبان کی اس یقین دہانی کے باوجود کہ وہ وسطی ایشیائی سرحدوں کی خلاف ورزی نہیں کریں گے پورے خطے میں سکیورٹی اور پناہ گزینوں کی نقل مکانی کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں۔

قازقستان کے صدر ٹوکایف نے حال ہی میں کہا تھا کہ افغانستان میں چھوٹ جانے والے امریکی ہتھیار جن پر اب طالبان کا قبضہ ہے علاقائی سلامتی کے لیے واضح خطرہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ روس اور اجتماعی سلامتی کے معاہدے کی تنظیم (CSTO) کے رکن ممالک اس ‘حساس معاملے’ پر ایک جیسی رائے رکھتے ہیں۔

روسی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ دمتری مدویدیف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں شدت پسند تنطیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے ‘دسیوں ہزار ارکان’ موجود ہیں، جو بنیادی طور پر وسطی ایشیائی ممالک کی سرحد سے متصل شمالی اور مشرقی صوبوں میں ہیں۔

خیال کیا جاتا ہے کہ خطے میں بنیاد پرست نظریات اور افغانستان سے عسکریت پسندوں کے ممکنہ پھیلاؤ کی صورت میں ازبکستان اور تاجکستان سب سے کمزور ریاستیں ہیں۔

خطے کی حکومتیں اپنی جنوبی سرحدوں کو مضبوط کرنے کی کوششں کر رہی ہیں اور اس سلسلے میں روس سے بھی مدد حاصل کی جا رہی ہے۔

اگرچہ کئی ماہرین علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے میں ماسکو کے کلیدی کردار کو تسلیم کرتے ہیں، تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کریملن وسطی ایشیا میں اپنے سیاسی اور عسکری اثر کو بڑھانے کے لیے ‘طالبان کے خطرے’ کو استعمال کر رہا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ سماجی مسائل، معاشی مشکلات اور وسیع پیمانے پر بدعنوانی پورے خطے میں انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.