جنوری کو ہی سال کا پہلا مہینہ کیوں مانا جاتا ہے؟
کیلنڈر
پوری دنیا میں لوگ سال کے آخری دن یعنی 31 دسمبر کی رات سے ہی آتش بازی، سیٹیوں اور ڈھول طبلے کے ساتھ گلے مل کر اور شراب پی کر یا کیک کاٹ کر نئے سال کا استقبال کرتے ہیں۔
لیکن، پارٹی شروع کرنے سے پہلے کیا آپ نے کبھی سوچا کہ یکم جنوری کو ہی سال کا پہلا دن اور سال کا آغاز کیوں سمجھا جاتا ہے؟
یہ سب بے دین رومن چھٹیوں اور شہنشاہ جولیس سیزر کی طرف سے 2,000 سال قبل متعارف کرائے گئے کیلنڈر کی وجہ سے ہے۔ البتہ آپ گریگوری ہشتم نامی پوپ کے سر بھی اس کا سہرا سجا سکتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے۔
قدیم رومیوں کے لیے، جنوری اس لیے اہم تھا کیونکہ یہ وہ مہینہ تھا جسے جینس (یعنی ایانیس جس کا مطلب لاطینی میں جنوری ہے) دیوتا کے لیے وقف کیا گیا تھا۔
رومن اساطیر میں جینس دو چہروں والا خدا ہے یعنی ابتدا اور اختتام کی علامت والا۔
جولیس سیزیر نے ابتدا کی تھی
انگلینڈ کی برمنگھم یونیورسٹی میں پروفیسر ڈیانا سپینسر بتاتی ہیں کہ ‘اس کا تعلق مستقبل اور ماضی دونوں طرف دیکھنے سے ہے۔‘
‘لہذا اگر سال میں کوئی وقت ایسا آتا ہے کہ جب آپ کو یہ فیصلہ کرنا پڑے کہ ’کیا دوبارہ آغاز کا یہ ہیوقت ہے‘ تو یہ وہی وقت ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ یورپ میں وہ وقت ہے جب موسم سرما کے بعد دن لمبے ہونے لگتے ہیں۔
پروفیسر سپینسر کا کہنا ہے کہ ’روم کے لیے اس کی بڑی اہمیت تھی کیونکہ یہ وقت ان خوفناک مختصر دنوں کے بعد آتا ہے، جب موسم سرما کے باعث دنیا اندھیرے میں ہوتی تھی، سردی ہوتی ہے اور کوئی فصل پیدا نہیں ہوتی۔‘
ان کے مطابق یہ ’یہ توقف اور غور فکر کا دورانیہ ہے۔‘
جیسے جیسے رومیوں نے زیادہ طاقت حاصل کرنی شروع کی انھوں نے اپنے کیلینڈر کو اپنی وسیع سلطنت میں پھیلانا شروع کیا۔
قرون وسطی میں مسیحی ممالک میں 25 مارچ کو سال کا پہلا دن تصور کیا جاتا تھا
کبھی 25 مارچ سال کا پہلا دن ہوتا تھا
لیکن روم کے زوال کے بعد، قرون وسطی میں مسیحیت نے اپنے آپ کو اس قدر مستحکم کر لیا تھا کہ یکم جنوری کو بہت زیادہ بے دین تاریخ سمجھا جانے لگا۔
بہت سے ممالک جہاں مسیحیت غالب تھی وہ 25 مارچ کو نیے سال کی شروعات کے طور پر منانا چاہتے تھے کیونکہ ان کے مطابق یہ وہ دن تھا جب حضرت جبرئیل حضرت مریم کے سامنے ظاہر ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
سپینسرنے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگرچہ کرسمس وہ دن ہے جب (حضرت عیسیٰ) مسیح کی پیدائش ہوئی تھی، لیکن اعلان اس وقت ہوتا ہے جب مریم پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ایک نئی روح کو جنم دینے والی ہیں۔
’یہ وہ لمحہ ہے جب مسیح کی کہانی شروع ہوتی ہے، لہذا یہ دن بہت معنی رکھتا ہے کہ نیا سال وہیں سے شروع ہوتا۔‘
پوپ گریگوری ہشتم
16ویں صدی میں پوپ گریگوری ہشتم نے گریگورین کیلنڈر متعارف کرایا اور کیتھولک ممالک میں یکم جنوری کو نئے سال کے طور پر از سر نو بحال کیا گیا۔
تاہم انگلستان جس نے پوپ کے اختیار کے خلاف بغاوت کی تھی اور پروٹسٹینٹ فرقے کو اپنایا تھا وہ سنہ 1752 تک 25 مارچ کو ہی سال کے پہلے دن کے طور پر مناتا رہا۔ اس سال پارلیمنٹ کے ایک ایکٹ نے برطانیہ کو باقی یورپ کے ساتھ جوڑ دیا۔
آج زیادہ تر ممالک گریگورین کیلنڈر کی پیروی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم ہر سال پہلی جنوری کو پوری دنیا میں آتش بازی اور دیگر تقریبات دیکھتے ہیں۔
Comments are closed.